سانحہ بلدیہ ٹائون 250سے زائد محنت کشوں کی موت کا مقدمہ بے حسی کا شکار

ایف آئی اے نے مالکان اور متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کو سانحے کا ذمے دار قرار دیا


Adil Jawad January 28, 2013
کیس غیرسنجیدہ رویے کی نذر ہو سکتا ہے، پولیس کی توجہ مالکان وافسران کو مقدمے سے نکالنے پر مرکوز، ذمے داروں کا تعین پس پشت ڈال دیا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

بلدیہ ٹائون میں واقع گارمنٹس فیکٹری کی آتشزدگی کے نتیجے میں جاں بحق 250 سے زائد محنت کشوں کا مقدمہ تحقیقاتی اداروں کی متضاد رپورٹس اور غیرسنجیدہ رویے کی نذر ہونے کا خدشہ ہے۔

تفتیشی افسر کی جانب سے حتمی چالان میں فیکٹری مالکان اور متعلقہ سرکاری اداروں کے اعلیٰ افسران کوبری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے جبکہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) نے اپنی تحقیقات میں مالکان اور سرکاری اداروں کو ہلاکتوں کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ پولیس کی تمام تر توجہ مالکان اور متعلقہ سرکاری افسران کو مقدمے سے خارج کرنے پر مرکوز ہے جبکہ آتشزدگی کی وجوہات اور اس کے ذمے داروں کے تعین کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق گذشتہ سال 11 ستمبر کو بلدیہ ٹائون میں واقع گارمنٹس فیکٹری علی انٹرپرائزز میں آتشزدگی کا واقعہ انسانی جانوں کے ضیاع کے تناسب سے ملکی تاریخ کا بدترین واقعہ ثابت ہوا۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق آتشزدگی کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والے محنت کشوں کی تعداد 259 ہے، اتنی بڑی تعداد میں مزدوروں کی ہلاکت نے سرکاری مشینری اور بیوروکریسی کے کرپشن زدہ نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ متاثرہ خاندانوں، سول سوسائٹی اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس معاملے کی شفاف تحقیقات اور ذمے داروں کو عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ اتنی شدت سے کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس سلسلے میں متعدد تحقیقاتی ٹیموں کے قیام کا اعلان کیا جبکہ ایک سابق جج کی سربراہی میں عدالتی ٹریبونل بھیبنایا گیا۔

صوبائی حکومت کی جانب سے پولیس کے اعلیٰ افسران کی سربراہی میں تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی جس کے سربراہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن (سی آئی اے) منظور مغل تھے۔ واضح رہے کہ منظور مغل کئی سال قبل اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوچکے ہیں اور اہم نوعیت کے مقدمات کی تفتیش کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ۔ان کی جانب سے پیش کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹس ہمیشہ اعلیٰ افسران کی توقعات کے عین مطابق سمجھی جاتی ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے اس وقت ایف آئی اے میں تعینات سینیئرپولیس افسر آزاد خان کو تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ قرار دیا گیا تھا۔

14

عدالتی ٹریبونل اور پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ تو تاحال منظر عام پر نہیں آسکی تاہم ایف آئی اے نے ایک ماہ بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کردی تھی جس میں واضح طور پر فیکٹری مالکان، جنرل منیجر، بلڈنگ پلان کی منظوری، ہنگامی صورتحال میں بچائو کی تربیت اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے ذمے دار اداروں کو حادثے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمے دار قرار دیا تھا۔ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کی تھی کہ فیکٹری کی عمارت کی مجموعی طور پر 5 منزلیں تھیں جن میں تہہ خانہ، گرائونڈ فلور، میزنائن فلور، فرسٹ اور سیکنڈ فلور شامل تھے۔

سائٹ لمیٹڈ کی جانب سے منظور شدہ نقشے میں عمارت کی دوسری منزل موجود ہی نہیں تھی، اس کے علاوہ نقشے کے مطابق میزنائن فلور کا اسٹرکچر کنکریٹ کا تھا جبکہ فیکٹری مالکان نے نقشے کے برعکس میزنائن فلور لکڑی سے تعمیر کیا تھا اور لکڑی کے اسٹرکچر کی وجہ سے ہی آگ اتنی تیزی سے پھیلی کے فیکٹری میں موجود سیکڑوں مزدور اپنی جان بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ محکمہ شہری دفاع اور فیکٹری انتظامیہ کی جانب سے ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلیے فیکٹری میں کوئی مشق نہیں کرائی گئی جس کی وجہ سے آگ بجھانے کے آلات اور واٹر ہائیڈرنٹ موجود ہونے کے باوجود ان کا استعمال نہیں کیا گیا۔

محکمہ محنت حکومت سندھ کے ریکارڈ میں علی انٹرپرائزز رجسٹرڈ ہی نہیں تھی جسے ایک مجرمانہ فعل قرار دیا گیا جبکہ سیسی اور ای او بی آئی کی جانب سے صرف چند سو ملازمین کو رجسٹرڈ کیا گیا جبکہ فیکٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تعداد 1500 سے زائد تھی۔ فیکٹری مالکان نے اپنی مصنوعات کی چوری کو روکنے کیلیے غیرقانونی طور پر تعمیر کی گئی دوسری منزل پر واقع ہنگامی راستے کو مستقل بند کررکھا تھا اور کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخیں نصب تھیں جس کے سبب محنت کش اپنی جانیں نہیں بچاسکے۔

پولیس کی جانب سے تعینات کردہ تحقیقاتی افسر جہانزیب نے 5 جنوری کو پیش کیے جانے والے ضمنی حتمی چالان میں ایک مرتبہ پھر فیکٹری مالکان پر لگائی گئی قتل کی دفعہ 302 کو خارج کردیا اور عدالت کی جانب سے ملزمان قرار دیے گئے ایم ڈی سائٹ رشید احمد سولنگی، الیکٹرک انسپکٹر امجد علی، محکمہ محنت کے ڈائریکٹر زاہد گلزار شیخ اور ایڈیشنل کنٹرولر سول ڈیفنس غلام اکبر کو ایک مرتبہ پھر بے گناہ قرار دیدیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ افسران ٹرائل کورٹ کی جانب سے وارنٹ جاری ہونے کے بعد ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

تفتیشی افسر کی جانب سے اس سے پہلے بھی مقدمے میں شامل دفعات خارج کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاہم عدالت نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے تاحال ایسی تمام کوششوں کوناکام بنادیا۔ تفتیشی افسر کی جانب سے حال ہی میں تبدیل کیے جانے والے حتمی چالان کی منظوری بھی تاحال عدالت کی جانب سے نہیں دی گئی ۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی اے اور پولیس کی تحقیقات میں پائے جانے والے تضادات سے ایسا لگتا ہے کہ ملکی تاریخ کے بدترین سانحے کو بھی روایتی بے حسی اور غیرسنجیدگی کی نذر کیا جارہا ہے ۔ تفتیش سے منسلک افسران اور اہلکاروں کی تمام تر توجہ بظاہر ذمے دار دکھائی دینے والے مالکان اور سرکاری اداروں کے افسران کے خلاف مقدمے کو کمزور کرنے کی کوششوں پر مرکوز دکھائی دیتی ہے اور اب تک آتشزدگی کے ذمہ داروں کے تعین اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاسکی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں