اسحاق ڈار کو بھی سوچنا ہوگا

اعدادوشمار کےگورکھ دھندے میں الجھانے کی بجائےبرآمدات کیلئے موثر حکمت عملی بنائیں تاکہ قرضوں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے


اعداد و شمار کو گھمانے اور بڑے بڑے خواب دیکھنے اور اِن خوابوں کی تعبیر کے لیے مزید خواب دکھانے کی جو صلاحیت اسحاق ڈار صاحب کے پاس ہے پاکستان کی معصوم عوام اِس صلاحیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ فوٹو: فائل

ہوجائے گا، کرلیں گے، بن جائیں گے، مکمل ہوجائیں گے اور حاصل کرلیں گے۔ یہ وہ نعرے ہیں جو اسحاق ڈار صاحب نے 26 مئی 2017ء کو قومی اسمبلی میں پاکستان کا سن 18-2017ء کا بجٹ پیش کرتے ہوئے لگائے ہیں اور اِس کارروائی کے دوران جو اعداد و شمار اسحاق ڈار صاحب نے پیش کیے ہیں وہ شیخ چلی کی کہانیوں کی ایکسٹنشن کے علاوہ کچھ بھی معلوم نہیں ہوتے۔

آپ بجٹ 2017ء میں اخراجات جاریہ ہی ملاحظہ کر لیجئے۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ اگلے سال اخراجات جاریہ 3477 ارب روپے رکھا گیا ہے، اور اسحاق ڈار نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ ہم اگلے سال اپنے روز مرہ کے اخراجات کو صرف 3477 ارب روپوں تک محدود رکھیں گے۔ اِس وعدے میں کتنی سچائی ہے اِس بات کو سمجھنے کے لئے آپ ن لیگ کے پچھلے چار سالوں کے اخراجات جاریہ کے اعداد و شمار ملاحظہ کریں۔ وزارت خزانہ کے مطابق 14-2013ء میں اخراجات جاریہ 4005 ارب ڈالر تھے۔ 15-2014ء میں یہ اخراجات 11 فیصد سے بڑھ کر 4446 ارب روپے ہوگئے۔ پھر 16-2015ء میں یہ اخراجات 6 فیصد سے بڑھ کر 4694 ارب روپے ہوگئے ہیں۔

آپ ماضی کے اعداد و شمار کو سامنے رکھیں تو یہ ماننا تقریاً ناممکن ہوجائے گا کہ 18-2017ء میں اخراجات جاریہ اچانک کم ہو کرساڑھے 3 کھرب روپے ہوجائیں گے، کیونکہ ڈار صاحب نے اخراجات کم کرنے کا کوئی منصوبہ واضح نہیں کیا بلکہ شہری اور عسکری اداروں کی تنخواہوں میں بھی 10 فیصد اضافہ کرکے اخراجات بڑھائے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر ڈار صاحب کے پاس کونسی جادو کی چھڑی ہے جس کے گھمانے سے وہ یہ چمتکار کرسکیں گے اور پلک جھپکتے ہی 1800 ارب روپوں کے خرچے کم ہوجائیں گے؟ اگر اُن کے پاس اِس سوال کا جواب ہے تو یہ یقین کیجیے یہ بہت ہی اچھی بات ہے لیکن آپ یقین کرلیجیے کہ اُن کے پاس اِس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔

اب آپ صحت کے شعبے کی مثال ہی لے لیجئے۔ اگرچہ موجودہ بجٹ میں گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابلے میں صحت کا بجٹ 29 ارب سے بڑھا کر 49 ارب تو کردیا گیا ہے لیکن اِس اضافے کے بعد بھی یہ بجٹ آٹے میں نمک کے برابر ہے، کیونکہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت اور چھٹی بڑی فوج رکھنے کے باوجود ملک پاکستان کے شعبہ صحت پر اخراجات اور جی ڈی پی کا تناسب دنیا میں نچلی ترین سطح سے دوسرے نمبر پر ہے۔

میں ڈار صاحب سے یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ اُن کی جانب سے پیش کیا جانے والا بجٹ جھوٹ کے پلندہ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی 90 فیصد عوام کو بجٹ میں صرف یہ سمجھ آیا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے اور کم سے کم تنخواہ ایک ہزار روپے سے بڑھا کر 15 ہزار روپے کردی گئی ہے۔ اِس کے علاوہ انہوں نے جتنے بھی اعداد و شمار پیش کیے ہیں، وہ ملک پاکستان کی عوام نہ تو آج تک سمجھ سکی ہے اور نہ ہی کبھی سمجھ پائے گی، کیونکہ اعداد و شمار کو گھمانے اور بڑے بڑے خواب دیکھنے اور پھر اِن خوابوں کی تعبیر کے لیے مزید خواب دکھانے کی جو صلاحیت اُن کے پاس ہے، پاکستان کی معصوم عوام اِس صلاحیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

اب میں بجٹ کے سب سے تاریک پہلو کی جانب آتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی کی بدولت ہمارے سرمایہ کار ملک سے راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں اور جو رہ گئے ہیں اُن کی سستی، گھٹیا معیار کی مصنوعات بنانے کی وجہ سے پاکستان کی برآمدی شناخت پوری دنیا میں خراب ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان قوتِ خرید میں 3500 ڈالر فی کیپیٹا اِنکم کے ساتھ دنیا کی 27ویں بڑی معیشت ہے، لیکن سیاسی عدم استحکام، توانائی بحران، غیر محفوظ ماحول، کمزور انفراسٹرکچر، قدیم ٹیکنالوجی اور وزیراعظم پاکستان کی دنیا بھر میں کرپشن کے حوالے سے جگ ہنسائی نے ملک پاکستان کو تاریخ کی بدترین سطح پر لا کھڑا کیا ہے، اور ہماری برآمداتی مقدار اور قیمت بھی اپنی حیثیت کھوتی جارہی ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان نے 2016ء میں 2015ء سے زیادہ چاول برآمد کیے لیکن اُن کی کل قیمت 2015ء سے کم تھی اور اِس کی سب سے بڑی وجہ حکومت کا برآمد کوالٹی کے معیار پر توجہ نہ دینا ہے۔ اِن مسائل کے پیشِ نظر برآمد میں بہتری کے حوالے سے میں چند تجاویز پیش کر رہا ہوں۔

  • ہمیں سب سے پہلے سرمایہ کاروں کو ایکسپورٹس انسینٹو دینے ہوں گے۔

  • ہمیں اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ہوگا۔

  • ہمیں کوالٹی کنڑول عمل کا جائزہ لینا ہوگا۔

  • نجی عوامی شراکت داری کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔

  • لین دین پر لاگت کم کرنا ہوگی۔

  • غیر ملکی سرمایہ کاری کے قوانین کو عالمی بنیادوں پر ڈھالنا ہوگا۔

  • ہمیں سماجی اور ماحولیاتی اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔

  • اقتصادی سفارت کاری پر سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔

  • اسمال اینڈ میڈیم سائز انٹرپرائزز کو سہولیات دینا ہوں گی اور برآمد کے لئے اُن کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔

  • برآمدی پروموشن بیورو کو برآمدات کے لیے مینوفیکچرنگ اور سروسز سیکٹر میں سے بہترین مصنوعات عالمی منڈی میں پیش کرنا ہوں گی، اور اِن مصنوعات کو عالمی منڈی میں فروغ دینے کیلئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے اور اِس کے لئے سائنٹیفک اور اسٹیٹسٹکل ریسرچ آف گلوبل ڈیمانڈ اینڈ آور پروڈکٹ بیس، وقت کی اہم ضرورت ہے۔

  • ہمیں نئی منڈیاں تلاش کرنا ہوں گی۔

  • ہم صرف ٹیکسٹائل اور ذراعت پر انحصار نہیں کرسکتے، ہمیں آئی ٹی، ٹیلی کمیونیکیشن ایکویپمنٹ، آٹو موٹو پارٹس، اسپورٹس، فارماسوٹیکل، ری نیو ایبل انرجی اور پیٹرو کیمیکلز سیکٹرز پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

  • ہمیں اپنے لوگوں کی عالمی معیار کے مطابق تربیت کے لئے اسکلڈ ڈویلپمنٹ پروگرام شروع کرنا چاہیئے۔

  • جدید دنیا کے ساتھ چلنے کے لئے آن ڈیوٹی ٹریننگ سیشنز کا انعقاد کرنا چاہیئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کوالٹی مہیا کرنا اور اِس کے معیار کو برقرار رکھنا ہماری صنعت کی سب سے پہلی ترجیح ہونی چاہیئے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان اُس وقت تک معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوسکتا جب تک اِس کی علاقائی اور عالمی مصنوعات کی کوالٹی میں واضع فرق نہ ہو۔


آخر میں میری اسحاق ڈار صاحب سے گزارش ہے کہ وہ پاکستانی عوام کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھانے کی بجائے لوکل مینوفیکچرنگ اور برآمدات کے لیے موثر حکمت عملی بتائیں تاکہ قرضوں سے جلد چھٹکارا حاصل کیا جاسکے اور اگر آپ نے اِس سیکٹر پر توجہ نہ دی تو ہم خدانخواستہ ملک چلانے کے لیے افغانستان، ایتھوپیا اور صومالیہ کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوجائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں