رمضان نیکیوں کا موسم بہار
ہمارے گھر ایک وقت کا سالن پکتا ہے اور جو بچا ہوا سالن ہم دوپہر میں کھاتے ہیں اُس کا حساب لگا کر پیسے جمع کرتا رہتا ہوں
ترمذی کی حدیث 2799 ہے کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے ''اللہ سخی ہے اور وہ سخاوت کو پسند کرتا ہے۔''
اِس حدیث کو پڑھتے ہی ایک واقعہ پھر یاد آگیا جو 10 سال قبل میرے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا تھا۔ واقعہ اتنا دلچسپ یا طویل تو نہیں لیکن اِس میں بہت بڑا سبق مل گیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ کراچی میں ہماری رہائش کچی آبادی میں واقع ہے۔ اُس علاقے میں پڑھے لکھے یا اچھے عہدوں پر فائز افراد ڈھونڈنے پر بھی کم ہی ملتے ہیں۔
بہرحال ہمارے ایک بچپن کے ساتھی اور نیوی میں باکسر فضل بھائی نے مجھ سے کہا کہ فوری طور پر ایک گھر کرائے پر چائیے۔ میں نے تعجب سے پوچھا فضل بھائی خیریت تو ہے ناں؟ کہیں آنٹی نے بے دخل تو نہیں کردیا؟ جس پر فضل بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں بھائی ہمارے ایک عزیز جو دبئی میں ڈاکٹر ہیں وہ وطن واپس آرہے ہیں اور وہ کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ایک بار پھر تعجب سے سوال کیا فضل بھائی دبئی میں ڈاکٹر ہیں تو بھلا اب کراچی میں کچی آبادی میں کیوں رہنا چاہتے ہیں؟ فضل بھائی نے ایک بار پھر تحمل سے جواب دیا کہ اُن کا کوئی بھی رشتہ دار یا دوست کراچی میں نہیں رہتا اِس لئے انہوں نے گھر ڈھونڈنے کی ذمہ داری میرے سپرد کی ہے اور جیسے ہی کسی پوش علاقے میں گھر مل گیا تو وہ وہاں منتقل ہوجائیں گے۔
بہرحال فضل بھائی کو قیمتاً ایک بوسیدہ سا گھر مل ہی گیا اور جناب نذیر احمد صاحب اپنے اُس گھر میں داخل ہوتے ہی سجدہ شکر بجا لائے اور مجھے بھی گرم جوشی کے ساتھ گلے لگا لیا اور فضل بھائی کے بتانے پر گھر کی خریداری میں میری مدد اور معاونت کا بھی شکریہ ادا کیا۔
نذیر صاحب کے بقول اُنہوں نے گزشتہ 38 برس دبئی میں گزارے اور دبئی میں ہی اُن کے ہاں 4 بچوں کی پیدائش ہوئی جن میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ڈاکٹر اور تاحال دبئی میں ہی مقیم اور برسرِ روزگار ہیں جبکہ ایک بیٹی انجئیرنگ کے لئے امریکہ جاچکی ہے۔ صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں نذیر صاحب اہل علاقہ کی آنکھوں کا تارا بن چکے تھے لیکن پھر اپنے بچوں کے اصرار پر انہیں کراچی کے ایک پوش علاقے میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔
تقریباً 5 ماہ بعد نذیرصاحب میری تلاش میں میرے گھر تک پہنچ گئے اور بڑے بھائی کو ملاقات کا پیغام دے کر فضل بھائی کے گھر چلے گئے، جب مجھے اُن کے آنے کی خبر ملی تو میں بھی اُن سے ملنے کے شوق میں فضل بھائی کے گھر پہنچ گیا۔ مختصر سی گفتگو کے بعد نذیر صاحب نے اجازت چاہی اور مجھے چند قدم ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ باتوں باتوں میں نذیر صاحب نے مجھے کچھ رقم تھمائی اور کہا کہ یہ رقم کسی مستحق کو دے دینا۔ میں نے وہ رقم متعلقہ فرد تک پہنچا دی لیکن رقم کا ہندسہ جو چند ہزار کچھ سو اور 67 روپے تھی میرے لئے ایک معمہ بن گئی اور اِس حوالے سے جاننے کے لیے میرا تجسس بڑھ گیا۔
میں نے نذیر صاحب سے یہ جاننے کی بہت کوشش کی کہ یہ رقم کسی حد پر نہیں پہنچتی اور آپ مجھے پورے ہزار یا چند ہزار چند سو بھی تو دے سکتے تھے، لیکن وہ کسی طور یہ راز بتانے سے معذرت کرتے رہے۔ میں نے بھی یہ ٹھان رکھی تھی کہ جب تک اِس رقم کے حوالے سے مجھے بتا نہیں دیا جاتا میں اصرار کرتا رہوں گا۔ بالآخر میں ایک دن اِس کوشش میں کامیاب ہوگیا کیونکہ میرے تجسس کو ختم کرنے کے لیے نذیر صاحب نے اپنے پاس بلالیا۔ پانی اور چائے کے بعد میں نے اپنا سوال ایک بار پھر دہرایا تو اُنہوں نے مسکراتے ہوئے گفتگو شروع کی۔
بیٹا خرم چونکہ ہمارا پورا گھرانہ نماز روزے کا پابند ہے اِس لئے میری بھی کوشش باجماعت نماز ادا کرنے کی ہوتی ہے۔ جب سے میں اِس علاقے میں آیا اور نماز ظہر کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلتا تو ہمارے سامنے والے بنگلے سے ایک معمر خاتون نمودار ہوتیں اور اُن کے ہاتھ میں ایک دیگچی ہوتی، جس میں کچھ بچا ہوا سالن اور سلاد وغیرہ ہوتا جو کوڑا دان کی نذر ہوجاتا۔ میرے پوچھنے پر اُس خاتون نے بتایا کہ یہ سالن روز بچ جاتا ہے اور میں مالکن کے حکم پر حسبِ معمول اِسے کوڑا دان میں ڈال دیتی ہوں اور رات کے کھانے کے لئے نیا سالن بنایا جاتا ہے۔
مجھے یہ بات بہت ہی بُری لگی اور میں نے اُس عورت سے کہا کہ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو اِس بچے ہوئے کھانے کو کوڑا دان میں گرانے کے بجائے مجھے دے دیا کریں جس پر اُس خاتون نے قہقہہ لگایا اور کہا صاحب آپ مذاق نہ کریں اور اپنی نماز ادا کرنے جائیں۔ لیکن میں بضد تھا کہ وہ بچا ہوا سالن میرے گھر دے جایا کریں۔
خاتون نے میری ضد کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور روز بچا ہوا سالن میرے گھر میں دے جاتی۔ نذیر صاحب نے نم آنکھوں سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا خرم وہ دن ہے اور آج کا دن ہمارے گھر ایک وقت کا سالن پکتا ہے اور وہ وقت صرف رات کا ہے اور جو بچا ہوا سالن ہم دوپہر میں کھاتے ہیں اُس کا حساب لگا کر پیسے جمع کرتا رہتا ہوں اور اُس روز جیسے ہی مجھے وقت ملا میں وہ پیسے لے کر تمھارے پاس پہنچ گیا تاکہ اُس رقم سے کسی بھائی کے گھر کا زیادہ نہیں تو 3 ماہ تک ایک وقت کا کھانا بن جائے۔
نذیر صاحب کی بات ختم ہوتے ہی میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکلے اور میں وہاں سے اُٹھ کر میں گھر آگیا۔ گھر آنے کے بعد یہ واقعہ مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرنے لگا۔ میں نے سوچا کہ یہ تو صرف ایک وقت کا سالن تھا جس کی رقم بچا کر کسی غریب کی مدد کی جاسکتی ہے، زندگی میں بہت سی ایسی بلا ضرورت خواہشات موجود ہیں جنہیں چھوڑ کر ہم زندہ بھی رہ سکتے ہیں اور اپنے مستحق بھائیوں کے ساتھ تعاون کرکے اُن کے زندہ رہنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
اور ویسے بھی ہمیں ایک بار پھر رمضان کا مبارک ماہ میسر ہے، یہ مہینہ نیکیوں کا موسمِ بہار اور معبودِ برحق کی طرف سے بندوں کے لئے خاص تحفہ ہے۔ پھر روزہ تو ہمیں غریبوں کے دکھ درد تقسیم کرنا سکھاتا ہے۔ انواع و اقسام کی سحری سے بہتر ہے کہ کسی ہمسائے اور کسی ضرورتمند کو بھی شامل کیا جائے۔
بانٹا جائے کہ اِس سے اجر بڑھے گا اور روزہ تو اجتناب کا نام ہے لذتوں اور شہوات سے اجتناب کا تو پھر کیوں نہ ہم اپنے رب کے پسندیدہ بندوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں اور اِس نادر موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنے رب کو منالیں اور دوسروں میں خوشیاں بانٹ کر اپنی بخشش کا ذریعہ بنالیں، کیونکہ اللہ کو امیر کی عاجزی، غریب کی سخاوت اور جوانی کی عبادت بہت پسند ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اِس حدیث کو پڑھتے ہی ایک واقعہ پھر یاد آگیا جو 10 سال قبل میرے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا تھا۔ واقعہ اتنا دلچسپ یا طویل تو نہیں لیکن اِس میں بہت بڑا سبق مل گیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ کراچی میں ہماری رہائش کچی آبادی میں واقع ہے۔ اُس علاقے میں پڑھے لکھے یا اچھے عہدوں پر فائز افراد ڈھونڈنے پر بھی کم ہی ملتے ہیں۔
بہرحال ہمارے ایک بچپن کے ساتھی اور نیوی میں باکسر فضل بھائی نے مجھ سے کہا کہ فوری طور پر ایک گھر کرائے پر چائیے۔ میں نے تعجب سے پوچھا فضل بھائی خیریت تو ہے ناں؟ کہیں آنٹی نے بے دخل تو نہیں کردیا؟ جس پر فضل بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا نہیں بھائی ہمارے ایک عزیز جو دبئی میں ڈاکٹر ہیں وہ وطن واپس آرہے ہیں اور وہ کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے ایک بار پھر تعجب سے سوال کیا فضل بھائی دبئی میں ڈاکٹر ہیں تو بھلا اب کراچی میں کچی آبادی میں کیوں رہنا چاہتے ہیں؟ فضل بھائی نے ایک بار پھر تحمل سے جواب دیا کہ اُن کا کوئی بھی رشتہ دار یا دوست کراچی میں نہیں رہتا اِس لئے انہوں نے گھر ڈھونڈنے کی ذمہ داری میرے سپرد کی ہے اور جیسے ہی کسی پوش علاقے میں گھر مل گیا تو وہ وہاں منتقل ہوجائیں گے۔
بہرحال فضل بھائی کو قیمتاً ایک بوسیدہ سا گھر مل ہی گیا اور جناب نذیر احمد صاحب اپنے اُس گھر میں داخل ہوتے ہی سجدہ شکر بجا لائے اور مجھے بھی گرم جوشی کے ساتھ گلے لگا لیا اور فضل بھائی کے بتانے پر گھر کی خریداری میں میری مدد اور معاونت کا بھی شکریہ ادا کیا۔
نذیر صاحب کے بقول اُنہوں نے گزشتہ 38 برس دبئی میں گزارے اور دبئی میں ہی اُن کے ہاں 4 بچوں کی پیدائش ہوئی جن میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ڈاکٹر اور تاحال دبئی میں ہی مقیم اور برسرِ روزگار ہیں جبکہ ایک بیٹی انجئیرنگ کے لئے امریکہ جاچکی ہے۔ صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں نذیر صاحب اہل علاقہ کی آنکھوں کا تارا بن چکے تھے لیکن پھر اپنے بچوں کے اصرار پر انہیں کراچی کے ایک پوش علاقے میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔
تقریباً 5 ماہ بعد نذیرصاحب میری تلاش میں میرے گھر تک پہنچ گئے اور بڑے بھائی کو ملاقات کا پیغام دے کر فضل بھائی کے گھر چلے گئے، جب مجھے اُن کے آنے کی خبر ملی تو میں بھی اُن سے ملنے کے شوق میں فضل بھائی کے گھر پہنچ گیا۔ مختصر سی گفتگو کے بعد نذیر صاحب نے اجازت چاہی اور مجھے چند قدم ساتھ چلنے کا حکم دیا۔ باتوں باتوں میں نذیر صاحب نے مجھے کچھ رقم تھمائی اور کہا کہ یہ رقم کسی مستحق کو دے دینا۔ میں نے وہ رقم متعلقہ فرد تک پہنچا دی لیکن رقم کا ہندسہ جو چند ہزار کچھ سو اور 67 روپے تھی میرے لئے ایک معمہ بن گئی اور اِس حوالے سے جاننے کے لیے میرا تجسس بڑھ گیا۔
میں نے نذیر صاحب سے یہ جاننے کی بہت کوشش کی کہ یہ رقم کسی حد پر نہیں پہنچتی اور آپ مجھے پورے ہزار یا چند ہزار چند سو بھی تو دے سکتے تھے، لیکن وہ کسی طور یہ راز بتانے سے معذرت کرتے رہے۔ میں نے بھی یہ ٹھان رکھی تھی کہ جب تک اِس رقم کے حوالے سے مجھے بتا نہیں دیا جاتا میں اصرار کرتا رہوں گا۔ بالآخر میں ایک دن اِس کوشش میں کامیاب ہوگیا کیونکہ میرے تجسس کو ختم کرنے کے لیے نذیر صاحب نے اپنے پاس بلالیا۔ پانی اور چائے کے بعد میں نے اپنا سوال ایک بار پھر دہرایا تو اُنہوں نے مسکراتے ہوئے گفتگو شروع کی۔
بیٹا خرم چونکہ ہمارا پورا گھرانہ نماز روزے کا پابند ہے اِس لئے میری بھی کوشش باجماعت نماز ادا کرنے کی ہوتی ہے۔ جب سے میں اِس علاقے میں آیا اور نماز ظہر کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلتا تو ہمارے سامنے والے بنگلے سے ایک معمر خاتون نمودار ہوتیں اور اُن کے ہاتھ میں ایک دیگچی ہوتی، جس میں کچھ بچا ہوا سالن اور سلاد وغیرہ ہوتا جو کوڑا دان کی نذر ہوجاتا۔ میرے پوچھنے پر اُس خاتون نے بتایا کہ یہ سالن روز بچ جاتا ہے اور میں مالکن کے حکم پر حسبِ معمول اِسے کوڑا دان میں ڈال دیتی ہوں اور رات کے کھانے کے لئے نیا سالن بنایا جاتا ہے۔
مجھے یہ بات بہت ہی بُری لگی اور میں نے اُس عورت سے کہا کہ اگر آپ بُرا نہ مانیں تو اِس بچے ہوئے کھانے کو کوڑا دان میں گرانے کے بجائے مجھے دے دیا کریں جس پر اُس خاتون نے قہقہہ لگایا اور کہا صاحب آپ مذاق نہ کریں اور اپنی نماز ادا کرنے جائیں۔ لیکن میں بضد تھا کہ وہ بچا ہوا سالن میرے گھر دے جایا کریں۔
خاتون نے میری ضد کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور روز بچا ہوا سالن میرے گھر میں دے جاتی۔ نذیر صاحب نے نم آنکھوں سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا خرم وہ دن ہے اور آج کا دن ہمارے گھر ایک وقت کا سالن پکتا ہے اور وہ وقت صرف رات کا ہے اور جو بچا ہوا سالن ہم دوپہر میں کھاتے ہیں اُس کا حساب لگا کر پیسے جمع کرتا رہتا ہوں اور اُس روز جیسے ہی مجھے وقت ملا میں وہ پیسے لے کر تمھارے پاس پہنچ گیا تاکہ اُس رقم سے کسی بھائی کے گھر کا زیادہ نہیں تو 3 ماہ تک ایک وقت کا کھانا بن جائے۔
نذیر صاحب کی بات ختم ہوتے ہی میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکلے اور میں وہاں سے اُٹھ کر میں گھر آگیا۔ گھر آنے کے بعد یہ واقعہ مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرنے لگا۔ میں نے سوچا کہ یہ تو صرف ایک وقت کا سالن تھا جس کی رقم بچا کر کسی غریب کی مدد کی جاسکتی ہے، زندگی میں بہت سی ایسی بلا ضرورت خواہشات موجود ہیں جنہیں چھوڑ کر ہم زندہ بھی رہ سکتے ہیں اور اپنے مستحق بھائیوں کے ساتھ تعاون کرکے اُن کے زندہ رہنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
اور ویسے بھی ہمیں ایک بار پھر رمضان کا مبارک ماہ میسر ہے، یہ مہینہ نیکیوں کا موسمِ بہار اور معبودِ برحق کی طرف سے بندوں کے لئے خاص تحفہ ہے۔ پھر روزہ تو ہمیں غریبوں کے دکھ درد تقسیم کرنا سکھاتا ہے۔ انواع و اقسام کی سحری سے بہتر ہے کہ کسی ہمسائے اور کسی ضرورتمند کو بھی شامل کیا جائے۔
بانٹا جائے کہ اِس سے اجر بڑھے گا اور روزہ تو اجتناب کا نام ہے لذتوں اور شہوات سے اجتناب کا تو پھر کیوں نہ ہم اپنے رب کے پسندیدہ بندوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں اور اِس نادر موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اپنے رب کو منالیں اور دوسروں میں خوشیاں بانٹ کر اپنی بخشش کا ذریعہ بنالیں، کیونکہ اللہ کو امیر کی عاجزی، غریب کی سخاوت اور جوانی کی عبادت بہت پسند ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔