حجاب پورٹ لینڈ اور ٹرین
انتہائی مختصرسی مہلت میں تین سفید فام مسافراپنی اپنی نشستوں سے اُٹھے اور جرمی کوپکڑنے کی کوشش کی
WASHINGTON:
امریکی شہرپورٹ لینڈمیں شام کے وقت دونوجوان لڑکیاں ٹرین میں سوارہوئیں۔تھوڑی دیر بعدانھیں پتہ چلا کہ غلط ٹرین میں بیٹھ چکی ہیں۔بچیوں کی عمریں تقریباًسولہ برس تھی۔ایک لڑکی ڈسٹنی مینگم، عام سے مغربی لباس میں تھی۔ساتھی مسلمان تھی اور سرپرحجاب لیاہواتھا۔دونوں کی جلدکارنگ سیاہی مائل ساتھا۔یعنی دونوں سفیدفام امریکی نہیں تھیں۔مینگم اوراس کی دوست بالکل آرام سے سیٹ پر بیٹھ گئیں۔آپس میں باتیں کررہی تھیںکہ جیسے ہی ٹرین اگلے اسٹیشن پررکتی ہے،اُترکردوسری ریل میں بیٹھ جائینگی اور آدھ پونے گھنٹے میں گھر ہونگیں۔
عام سی ٹرین،عام سے مسافر۔کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی کہ کوئی بھی مینگم اوراس کی مسلمان دوست کوقابل توجہ سمجھتا۔جرمی جوزف بھی نزدیکی سیٹ پربیٹھاہواتھا۔سفیدفام امریکی سیٹ سے اُٹھااور دونوں بچیوں پرجملے کسنے شروع کردیے۔نعرے مارتے ہوئے کہنے لگاکہ تم نے یہ حجاب کیوںپہناہواہے۔تم دونوں کو امریکا سے دفع ہوجانا چاہیے۔کسی نے بھی جرمی کی لایعنی باتوں کی طرف توجہ نہیںدی۔بات یہیں تک رہتی توٹھیک تھا۔اسٹیشن آنے میں صرف چندمنٹ رہ گئے تھے۔ اچانک جرمی نے جیب سے ایک بڑاساچاقونکالااور لڑکیوں کی طرف بھاگناشروع کردیا۔نعرے لگارہاتھاکہ دونوں کو قتل کرڈالونگا۔بچیوں نے چیخیں مارناشروع کردیا۔
انتہائی مختصرسی مہلت میں تین سفید فام مسافراپنی اپنی نشستوں سے اُٹھے اور جرمی کوپکڑنے کی کوشش کی۔جرمی نے لڑکیوں پرحملہ ترک کرکے مسافروں کو مارناشروع کردیا۔تینوں میں ایک نوجوان میچی صرف تیئس برس کا تھا۔ بھرپور نوجوان۔ جرمی نے اس کے پیٹ میں چاقوگھونپ دیاوہ اسی جگہ دم توڑگیا۔دوسرامسافررکی بیسٹ تھا۔ عمر پچاس برس کی تھی اوراس کے چاربچے تھے۔جرمی کوپیچھے سے پکڑنے کی کوشش کررہاتھا۔اس پاگل آدمی نے رکی بیسٹ کو بھی چاقوسے چھلنی کردیا۔وہ بھی موقعہ پرہی جاں بحق ہو گیا۔ تیسرا سفید فام فلیچرتھا۔اس نے جرمی کودھکا دیکر گرا دیا۔جرمی نے فلیچرکی شہ رگ پرچاقوکاوارکیا۔فلیچرکی گردن پرشدیدزخم آئے مگر شہ رگ کٹنے سے بچ گئی۔جیسے ہی ٹرین رکی،جرمی ٹرین سے اُترااورچاقولہراتاہواموقعہ سے فرار ہوگیا۔ بچیاں خوف سے کانپ رہی تھیں۔تصوربھی نہیں کر سکتی تھیں کہ سفرمیں ان پراتنا المناک قاتلانہ حملہ ہوگا۔ٹرین سے اُتریں اورروتی ہوئی اسٹیشن سے باہرنکل آئیں۔ٹرین کو اسی جگہ روک لیاگیا۔پولیس اورڈاکٹروں کی ٹیم فوراًموقعہ پر پہنچ گئی۔
ہماری طرح نہیں جہاں پولیس اطمینان سے ہر گھناؤنی واردات مکمل ہونے کاانتظارکرتی ہے۔جان بوجھ کرہرمشکل جگہ پہنچنے میں دیرکرتی ہے۔موقعہ واردات پر ہماری پولیس نہ پہنچنے سے مسائل بڑھتے ہیں بلکہ کم نہیں ہوتے۔اب تویہ حالات یہ ہیں کہ مقتول کی نعش گھنٹوں موقعہ واردات پرپڑی رہتی ہے اوروہاں کوئی پولیس والا نہیں پہنچتا۔خیرمیں اپنے ملک کواب ایک ناکام ریاست گردانتا ہوں۔جہاں قانون صرف اورصرف کتابوں تک محدود ہے۔انصاف ملنااب ناممکن ہوچکاہے۔خیرپورٹ لینڈکی پولیس اورہمارے اداروں میں زمین آسمان کافرق ہے۔ جب پولیس ٹرین میں پہنچی تودولاشیں فرش پرپڑی ہوئی تھیں۔فلیچرکی گردن سے خون بہہ رہاتھامگروہ زندہ تھا۔ فلیچر کواسی جگہ فوری طبی امداددی گئی اوراسپتال منتقل کر دیا گیا۔ بروقت امدادسے فلیچرزندہ بچنے میں کامیاب ہوگیا۔
جرمی زیادہ دورتک نہ جاسکا۔اسے فوراً گرفتار کر لیا گیا۔معلوم ہواکہ وہ ایک جنونی آدمی ہے۔معاملہ یہاں نہیں رکتا۔ جرمی 9/11کے بعدذہنی طورپرمکمل جنگی اورنسلی جنون کا شکار ہوچکاتھا۔وہ جہاں بھی کسی مسلمان کو دیکھتا تھا،اس جگہ پر گالیاں دیناشروع کردیتاتھا۔پولیس نے کئی باراسے گرفتار کیا اور تھوڑے عرصے کے بعدضمانت پر رہاکردیاگیا۔اس کے خلاف نسلی تشددکے کئی مقدمات درج تھے۔مگراس نے مسلمان لڑکی کوقتل کرنے کی کوشش پہلی بارکی تھی۔گرفتاری کے بعدجب جرمی کوعدالت میں پیش کیاگیاتووہاں بھی شور مچاتا رہا۔نعرے لگاتارہا کہ وہ اصلی محب وطن شخص ہے۔جج اور پولیس والے امریکا کے غدارہیں۔جرمی اس وقت جیل میں ہے اوراس کے خلاف قانونی کاروائی تیزی سے جاری ہے۔
یہ پچھلے جمعہ کا واقعہ ہے یعنی ٹھیک ایک ہفتہ پہلے۔ فلیچرکل اسپتال سے فارغ ہوا۔ اپنے گھرپہنچنے کے فوراً بعد پہلاکام یہ کیاکہ مینگم کوفون کیااوراس کے گھرآنے کی اجازت مانگی۔مینگم اوراس کی والدہ کے لیے فلیچرایک فرشتہ تھا۔مینگم کے گھرپہنچا تو سارا خاندان زار و قطار رو رہا تھا۔ فلیچرایک ہیرو بن چکاتھا۔ایک بہادرامریکی کے طورپر مشہور ہوچکا تھا۔
مگر اس نے سوشل میڈیاپرپیغام دیاکہ وہ قطعاً ہیرونہیں ہے۔ اسے کوئی تعریف یاشاباش کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ امریکی قوم کوچاہیے کہ ان نوجوان بچیوں کی دل جوئی کرے جواب تک شدیدخوف میں سانس لے رہی ہیں۔اس نے ایک فنڈقائم کرنے کااعلان کر دیا۔ جسکا مقصدصرف یہ تھاکہ کسی طرح بچیوں کی سفرکے دوران حفاظت کی جاسکے ۔آج کل امریکی لوگ بڑھ چڑھ کراس فنڈمیں حصہ ڈال رہے ہیں۔ امریکا میں مسلمان تنظیموں نے بھی سانحہ کے مقتولین اور متاثرین کی مددکے لیے ایک چندہ کی مہم شروع کردی۔صرف ایک دن میں اس میں لاکھوں ڈالرجمع ہوگئے۔یہ ایک قابل تحسین عمل ہے۔
کسی بھی انسان کی بروقت مددکرناایک بے لوث جذبہ ہے۔پورٹ لینڈمیں ہونے والے واقعہ نے بہت کچھ سوچنے پرمجبورکردیاہے۔ہمارے ملک میں اچھے اور مخلص لوگوں کی بالکل کمی نہیں۔مگرایک ادنیٰ نظام نے ہم سب کواس بری طرح جکڑرکھاہے کہ کوئی اپنی مرضی سے سانس تک نہیں لے سکتا۔پوراملک عملی طورپر ڈاکوؤں، لٹیروں،بدمعاشوں اورمعاشی دہشتگردوں کے جال میں سسک رہاہے۔عام آدمی پربھی اس کیفیت کابہت گہرا اثر ہواہے۔مشال خان کے بیہمانہ قتل کاواقعہ صرف چندماہ پرانا ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ کے اراکین،طلباء اورباہرسے آئے ہوئے چندلوگوں نے مشال خان پرظالمانہ تشددکیا۔ہاتھ اور پیرتوڑدیے۔لاش پربھی ڈنڈے برساتے رہے۔
نعش پر تھوکتے رہے۔مگراہم سوال یہ ہے کہ پوری یونیورسٹی میں ایک شخص نے بھی مشال خان کوبچانے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی بھی ہجوم کے سامنے تن کرکھڑا نہیں ہواکہ تم اس نوجوان کوہاتھ نہیں لگاسکتے۔پورٹ لینڈمیں ٹرین کے سانحہ کی طرح کوئی بھی اس ہجوم کے تشددکوروکنے پربرسرپیکارنہیں ہوا۔مشال خان کے مسئلے میںتمام فریق مسلمان تھے۔ مارنے والے بھی اورمرنے والے بھی۔لیکن کیاآپ نے کبھی سناہے کہ کسی غیرمسلم کی مددکے لیے مسلمان نوجوان پوری قوت سے کھڑاہوگیاہو۔میری نظرسے ایساکوئی واقعہ نہیں گزرا۔آپ ہم مذہبوں کی بات رہنے دیجیے۔یہاں عیسائیوںکوزندہ جلادیاجاتاہے۔اگریقین نہیں آتا تو ساجد مسیح اورشمع بی بی کاکیس پڑھ لیجیے۔ ان کوبھٹے کی آگ کے سپرد کردیاگیا۔کسی نے بچانے کی کوشش نہیں کی۔کوئی سامنے آنے کی جرات نہیں کرسکا۔
ہماری اضطراری اورجذباتی حرکتوں کی وجہ سے مسلمان ایک دوسرے سے محفوظ نہیں ہیں تواقلیتوں کے تحفظ کی بات کیاکی جائے۔وہ تواس ملک میں ایک مستقل خوف میں سانس لے رہی ہیں۔بلکہ سانس لینے پرمجبورہیں۔سندھ میں ہندولڑکیوں کومسلمان بناکر شادی کرنے کاعمل پوری طاقت سے جاری وساری ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہاکہ یہ سب کچھ غلط ہورہاہے۔زبردستی کسی کوبھی اپنامذہب چھڑوانے کی ہمارے عظیم دین میں بھرپور ممانعت ہے۔مگریہاں کون پرواہ کرتاہے۔یہ معاشرہ ایک جنگل ہے۔جہاں طاقتور جانور،کمزوروں کو چیرپھاڑکے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔پورٹ لینڈجیسی مثال ہمارے سماج میں ڈھونڈناایک بیوقوفی نہیں بلکہ حماقت ہے۔
آج کل رمضان کامقدس مہینہ ہے۔ہرایک اَن گنت نیکیاں سمیٹنے میں مصروف ہے۔مگرتلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اکثریت ایک دوسرے کی جیب کاٹنے میں بھی بھرپورطریقے سے مصروف ہے۔دین اپنی جگہ اورکاروباری طرز زندگی کالالچ اپنی جگہ۔کیایہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ہماری غیرمذہبی اورمذہبی تنظیمیں،سیاسی اورغیرسیاسی قیادتیں، پورٹ لینڈکے واقعہ پرتوجہ دیں۔جن سفیدفام لوگوں نے مسلمان بچیوں کے لیے جان کی بازی لگادی،ان کے اہل خانہ کے لیے بھرپورمالی امدادکااعلان کریں۔ہمارے اکابرین امریکا جائیں اوران بہادرلوگوں کے خاندانوں پردست شفقت رکھیں۔اس عمدہ حرکت سے پاکستان کی بھرپورنیک نامی ہوسکتی ہے۔مگریہ کبھی نہیں ہوگا۔ہمارے دل اتنے وسیع نہیں کہ غیرمسلموں کے دلیرانہ اقدام کی زبانی تعریف ہی کر دیں۔امدادتوخیردورکی بات ہے۔اس خوف زدہ معاشرے میں یہ سب کچھ کرنے کی جرات کسی کے پاس نہیں۔
امریکی شہرپورٹ لینڈمیں شام کے وقت دونوجوان لڑکیاں ٹرین میں سوارہوئیں۔تھوڑی دیر بعدانھیں پتہ چلا کہ غلط ٹرین میں بیٹھ چکی ہیں۔بچیوں کی عمریں تقریباًسولہ برس تھی۔ایک لڑکی ڈسٹنی مینگم، عام سے مغربی لباس میں تھی۔ساتھی مسلمان تھی اور سرپرحجاب لیاہواتھا۔دونوں کی جلدکارنگ سیاہی مائل ساتھا۔یعنی دونوں سفیدفام امریکی نہیں تھیں۔مینگم اوراس کی دوست بالکل آرام سے سیٹ پر بیٹھ گئیں۔آپس میں باتیں کررہی تھیںکہ جیسے ہی ٹرین اگلے اسٹیشن پررکتی ہے،اُترکردوسری ریل میں بیٹھ جائینگی اور آدھ پونے گھنٹے میں گھر ہونگیں۔
عام سی ٹرین،عام سے مسافر۔کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی کہ کوئی بھی مینگم اوراس کی مسلمان دوست کوقابل توجہ سمجھتا۔جرمی جوزف بھی نزدیکی سیٹ پربیٹھاہواتھا۔سفیدفام امریکی سیٹ سے اُٹھااور دونوں بچیوں پرجملے کسنے شروع کردیے۔نعرے مارتے ہوئے کہنے لگاکہ تم نے یہ حجاب کیوںپہناہواہے۔تم دونوں کو امریکا سے دفع ہوجانا چاہیے۔کسی نے بھی جرمی کی لایعنی باتوں کی طرف توجہ نہیںدی۔بات یہیں تک رہتی توٹھیک تھا۔اسٹیشن آنے میں صرف چندمنٹ رہ گئے تھے۔ اچانک جرمی نے جیب سے ایک بڑاساچاقونکالااور لڑکیوں کی طرف بھاگناشروع کردیا۔نعرے لگارہاتھاکہ دونوں کو قتل کرڈالونگا۔بچیوں نے چیخیں مارناشروع کردیا۔
انتہائی مختصرسی مہلت میں تین سفید فام مسافراپنی اپنی نشستوں سے اُٹھے اور جرمی کوپکڑنے کی کوشش کی۔جرمی نے لڑکیوں پرحملہ ترک کرکے مسافروں کو مارناشروع کردیا۔تینوں میں ایک نوجوان میچی صرف تیئس برس کا تھا۔ بھرپور نوجوان۔ جرمی نے اس کے پیٹ میں چاقوگھونپ دیاوہ اسی جگہ دم توڑگیا۔دوسرامسافررکی بیسٹ تھا۔ عمر پچاس برس کی تھی اوراس کے چاربچے تھے۔جرمی کوپیچھے سے پکڑنے کی کوشش کررہاتھا۔اس پاگل آدمی نے رکی بیسٹ کو بھی چاقوسے چھلنی کردیا۔وہ بھی موقعہ پرہی جاں بحق ہو گیا۔ تیسرا سفید فام فلیچرتھا۔اس نے جرمی کودھکا دیکر گرا دیا۔جرمی نے فلیچرکی شہ رگ پرچاقوکاوارکیا۔فلیچرکی گردن پرشدیدزخم آئے مگر شہ رگ کٹنے سے بچ گئی۔جیسے ہی ٹرین رکی،جرمی ٹرین سے اُترااورچاقولہراتاہواموقعہ سے فرار ہوگیا۔ بچیاں خوف سے کانپ رہی تھیں۔تصوربھی نہیں کر سکتی تھیں کہ سفرمیں ان پراتنا المناک قاتلانہ حملہ ہوگا۔ٹرین سے اُتریں اورروتی ہوئی اسٹیشن سے باہرنکل آئیں۔ٹرین کو اسی جگہ روک لیاگیا۔پولیس اورڈاکٹروں کی ٹیم فوراًموقعہ پر پہنچ گئی۔
ہماری طرح نہیں جہاں پولیس اطمینان سے ہر گھناؤنی واردات مکمل ہونے کاانتظارکرتی ہے۔جان بوجھ کرہرمشکل جگہ پہنچنے میں دیرکرتی ہے۔موقعہ واردات پر ہماری پولیس نہ پہنچنے سے مسائل بڑھتے ہیں بلکہ کم نہیں ہوتے۔اب تویہ حالات یہ ہیں کہ مقتول کی نعش گھنٹوں موقعہ واردات پرپڑی رہتی ہے اوروہاں کوئی پولیس والا نہیں پہنچتا۔خیرمیں اپنے ملک کواب ایک ناکام ریاست گردانتا ہوں۔جہاں قانون صرف اورصرف کتابوں تک محدود ہے۔انصاف ملنااب ناممکن ہوچکاہے۔خیرپورٹ لینڈکی پولیس اورہمارے اداروں میں زمین آسمان کافرق ہے۔ جب پولیس ٹرین میں پہنچی تودولاشیں فرش پرپڑی ہوئی تھیں۔فلیچرکی گردن سے خون بہہ رہاتھامگروہ زندہ تھا۔ فلیچر کواسی جگہ فوری طبی امداددی گئی اوراسپتال منتقل کر دیا گیا۔ بروقت امدادسے فلیچرزندہ بچنے میں کامیاب ہوگیا۔
جرمی زیادہ دورتک نہ جاسکا۔اسے فوراً گرفتار کر لیا گیا۔معلوم ہواکہ وہ ایک جنونی آدمی ہے۔معاملہ یہاں نہیں رکتا۔ جرمی 9/11کے بعدذہنی طورپرمکمل جنگی اورنسلی جنون کا شکار ہوچکاتھا۔وہ جہاں بھی کسی مسلمان کو دیکھتا تھا،اس جگہ پر گالیاں دیناشروع کردیتاتھا۔پولیس نے کئی باراسے گرفتار کیا اور تھوڑے عرصے کے بعدضمانت پر رہاکردیاگیا۔اس کے خلاف نسلی تشددکے کئی مقدمات درج تھے۔مگراس نے مسلمان لڑکی کوقتل کرنے کی کوشش پہلی بارکی تھی۔گرفتاری کے بعدجب جرمی کوعدالت میں پیش کیاگیاتووہاں بھی شور مچاتا رہا۔نعرے لگاتارہا کہ وہ اصلی محب وطن شخص ہے۔جج اور پولیس والے امریکا کے غدارہیں۔جرمی اس وقت جیل میں ہے اوراس کے خلاف قانونی کاروائی تیزی سے جاری ہے۔
یہ پچھلے جمعہ کا واقعہ ہے یعنی ٹھیک ایک ہفتہ پہلے۔ فلیچرکل اسپتال سے فارغ ہوا۔ اپنے گھرپہنچنے کے فوراً بعد پہلاکام یہ کیاکہ مینگم کوفون کیااوراس کے گھرآنے کی اجازت مانگی۔مینگم اوراس کی والدہ کے لیے فلیچرایک فرشتہ تھا۔مینگم کے گھرپہنچا تو سارا خاندان زار و قطار رو رہا تھا۔ فلیچرایک ہیرو بن چکاتھا۔ایک بہادرامریکی کے طورپر مشہور ہوچکا تھا۔
مگر اس نے سوشل میڈیاپرپیغام دیاکہ وہ قطعاً ہیرونہیں ہے۔ اسے کوئی تعریف یاشاباش کی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ امریکی قوم کوچاہیے کہ ان نوجوان بچیوں کی دل جوئی کرے جواب تک شدیدخوف میں سانس لے رہی ہیں۔اس نے ایک فنڈقائم کرنے کااعلان کر دیا۔ جسکا مقصدصرف یہ تھاکہ کسی طرح بچیوں کی سفرکے دوران حفاظت کی جاسکے ۔آج کل امریکی لوگ بڑھ چڑھ کراس فنڈمیں حصہ ڈال رہے ہیں۔ امریکا میں مسلمان تنظیموں نے بھی سانحہ کے مقتولین اور متاثرین کی مددکے لیے ایک چندہ کی مہم شروع کردی۔صرف ایک دن میں اس میں لاکھوں ڈالرجمع ہوگئے۔یہ ایک قابل تحسین عمل ہے۔
کسی بھی انسان کی بروقت مددکرناایک بے لوث جذبہ ہے۔پورٹ لینڈمیں ہونے والے واقعہ نے بہت کچھ سوچنے پرمجبورکردیاہے۔ہمارے ملک میں اچھے اور مخلص لوگوں کی بالکل کمی نہیں۔مگرایک ادنیٰ نظام نے ہم سب کواس بری طرح جکڑرکھاہے کہ کوئی اپنی مرضی سے سانس تک نہیں لے سکتا۔پوراملک عملی طورپر ڈاکوؤں، لٹیروں،بدمعاشوں اورمعاشی دہشتگردوں کے جال میں سسک رہاہے۔عام آدمی پربھی اس کیفیت کابہت گہرا اثر ہواہے۔مشال خان کے بیہمانہ قتل کاواقعہ صرف چندماہ پرانا ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ کے اراکین،طلباء اورباہرسے آئے ہوئے چندلوگوں نے مشال خان پرظالمانہ تشددکیا۔ہاتھ اور پیرتوڑدیے۔لاش پربھی ڈنڈے برساتے رہے۔
نعش پر تھوکتے رہے۔مگراہم سوال یہ ہے کہ پوری یونیورسٹی میں ایک شخص نے بھی مشال خان کوبچانے کی کوشش نہیں کی۔ کوئی بھی ہجوم کے سامنے تن کرکھڑا نہیں ہواکہ تم اس نوجوان کوہاتھ نہیں لگاسکتے۔پورٹ لینڈمیں ٹرین کے سانحہ کی طرح کوئی بھی اس ہجوم کے تشددکوروکنے پربرسرپیکارنہیں ہوا۔مشال خان کے مسئلے میںتمام فریق مسلمان تھے۔ مارنے والے بھی اورمرنے والے بھی۔لیکن کیاآپ نے کبھی سناہے کہ کسی غیرمسلم کی مددکے لیے مسلمان نوجوان پوری قوت سے کھڑاہوگیاہو۔میری نظرسے ایساکوئی واقعہ نہیں گزرا۔آپ ہم مذہبوں کی بات رہنے دیجیے۔یہاں عیسائیوںکوزندہ جلادیاجاتاہے۔اگریقین نہیں آتا تو ساجد مسیح اورشمع بی بی کاکیس پڑھ لیجیے۔ ان کوبھٹے کی آگ کے سپرد کردیاگیا۔کسی نے بچانے کی کوشش نہیں کی۔کوئی سامنے آنے کی جرات نہیں کرسکا۔
ہماری اضطراری اورجذباتی حرکتوں کی وجہ سے مسلمان ایک دوسرے سے محفوظ نہیں ہیں تواقلیتوں کے تحفظ کی بات کیاکی جائے۔وہ تواس ملک میں ایک مستقل خوف میں سانس لے رہی ہیں۔بلکہ سانس لینے پرمجبورہیں۔سندھ میں ہندولڑکیوں کومسلمان بناکر شادی کرنے کاعمل پوری طاقت سے جاری وساری ہے۔ کوئی یہ نہیں کہہ رہاکہ یہ سب کچھ غلط ہورہاہے۔زبردستی کسی کوبھی اپنامذہب چھڑوانے کی ہمارے عظیم دین میں بھرپور ممانعت ہے۔مگریہاں کون پرواہ کرتاہے۔یہ معاشرہ ایک جنگل ہے۔جہاں طاقتور جانور،کمزوروں کو چیرپھاڑکے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔پورٹ لینڈجیسی مثال ہمارے سماج میں ڈھونڈناایک بیوقوفی نہیں بلکہ حماقت ہے۔
آج کل رمضان کامقدس مہینہ ہے۔ہرایک اَن گنت نیکیاں سمیٹنے میں مصروف ہے۔مگرتلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ اکثریت ایک دوسرے کی جیب کاٹنے میں بھی بھرپورطریقے سے مصروف ہے۔دین اپنی جگہ اورکاروباری طرز زندگی کالالچ اپنی جگہ۔کیایہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ہماری غیرمذہبی اورمذہبی تنظیمیں،سیاسی اورغیرسیاسی قیادتیں، پورٹ لینڈکے واقعہ پرتوجہ دیں۔جن سفیدفام لوگوں نے مسلمان بچیوں کے لیے جان کی بازی لگادی،ان کے اہل خانہ کے لیے بھرپورمالی امدادکااعلان کریں۔ہمارے اکابرین امریکا جائیں اوران بہادرلوگوں کے خاندانوں پردست شفقت رکھیں۔اس عمدہ حرکت سے پاکستان کی بھرپورنیک نامی ہوسکتی ہے۔مگریہ کبھی نہیں ہوگا۔ہمارے دل اتنے وسیع نہیں کہ غیرمسلموں کے دلیرانہ اقدام کی زبانی تعریف ہی کر دیں۔امدادتوخیردورکی بات ہے۔اس خوف زدہ معاشرے میں یہ سب کچھ کرنے کی جرات کسی کے پاس نہیں۔