دل ہوش ربا
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گھر تو گھر یقین جانیے اسپتالوں میں مریضوں کی حالت غیر ہے
اللہ پاک، ظالم حکمراں مسلط فرما دیتا ہے، اس قوم پر جو خود ظالم بن جاتی ہے، ظلم کرنا اور ظلم سہنا دونوں ظلم کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔ رمضان المبارک شروع ہوتے ہیں پورے ملک میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کا آغاز ہوگیا، پہلی سحری اندھیروں میں ڈوبی رہی اور یہ بھیانک کھیل جاری ہے، کراچی میں بجلی اور پانی کا سنگین بحران ہے اور عوام سحری ہو یا افطاری میں شدید ترین کرب میں مبتلا ہیں، پورے سال میں ایک بابرکت مہینہ 29 یا 30 دن کا، اسی بابرکت مہینے میں ظالم لوگ ظالم حکمراں ایسی ایسی سیاسی چالیں چلتے ہیں کہ اللہ کی پناہ، پاکستان نہ ہوا باپ کی جاگیر ہوگئی جس کو سب کے سب لوٹنے کھانے پر تلے ہوئے ہیں۔
ہوش ربا مہنگائی نے عوام کی کمر ویسے ہی توڑ دی ہے اور بجلی اور پانی کی نایابی شہرکراچی کوکھنڈر بنانے کے لیے تیار ہیں، حد تو یہ ہے کہ اتنی سیاسی جماعتیں ہونے کے باوجود کراچی یتیم و مسکین ہونے کا منظر پیش کررہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ تمام کے تمام گدھ کراچی پر چھا گئے ہیں اور اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھانے کو تیار ہیں، سیاست اور تجارت دو الگ چیزیں ہیں۔ مگر اب ہمارے ملک میں سب سے اعلیٰ تجارت ہی سیاست رہ گئی ہے، انسان پڑھا لکھا نہ ہو، خاندان کا کچھ پتہ نہ ہو، ہاں زبردست مکار ہو زبردست دھوکے باز ہو تو وہ یقینا ایک اچھا سیاست دان بن جائے گا اور خوب خوب اپنا نام روشن کرے گا۔
جب سے کے الیکٹرک کو پرائیویٹائزکیا گیا ہے تب سے لے کر آج تک ایسے تماشے ہو رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ، کاپر کے تاروں کو سلور سے بدل دیا گیا اربوں روپے اس چکر میں لوٹ لیے گئے، فی یونٹ بجلی بڑھا دی گئی، غریب کا سکھ چین لوٹ لیا گیا ہزاروں روپے کے بل عوام کے گلے میں ڈال دیے گئے جب کہ 6 سے 8 گھنٹے بجلی کا تعطل بھی لازمی ہوگیا ہے، حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی ایک مہینے کا بل نہ بھر سکے تو فوری طور پر بجلی منقطع کردی جائے، گھروں میں ایسا کب ہوتا ہے بھائی، کوئی انسانیت نام کی چیز بھی ہے اس دنیا میں کیا ادارے اس لیے پرائیویٹ کیے جاتے ہیں کہ عوام کا جینا حرام کردیں؟ کیا اداروں کو اس لیے پرائیویٹ کیا جاتا ہے کہ ملک کو کھوکھلا کردوں؟ نہ شرم نہ تقدس نہ احترام کہ پہلے روزے سے ملک میں افراتفری کی صورتحال پیدا کردی گئی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ پورے ملک میں شدید بحران کی سی کیفیت ہو اور ملک کا حکمران چین کی بانسری بجائے، عوام اللہ کا عذاب برداشت کر رہے ہیں کہ ان کو ووٹ جو دیا ہے، کہاں الیکشن سے پہلے 6 مہینے میں بجلی کی بھرمار کرنے کے وعدے اور کہاں اب تقریباً پانچ سال ہونے والے ہیں نئے الیکشن کی تیاریاں ہیں اور بجلی کا بحران پہلے سے بھی بدترین حالات میں ہے، کیا ان کو اپنے وعدوں پر ذرا شرم نہیں آتی؟ کیا یہ ایسے بے حس لوگ ہیں جو صرف اور صرف پورے ملک کو لوٹ کر کھانا چاہتے ہیں، کیا صرف ان کی اولادیں ہی اولادیں ہیں کہ یہ ملک اور عوام جن کی وجہ سے ان کی شان و شوکت ہے، جن کی وجہ سے یہ ارب پتی بن گئے، کیا یہ لوگ اللہ پاک کو مکمل طور پر بھلا بیٹھے ہیں، کیا ان کے حج اور عمرے ان کے دلوں کو نرم نہیں کرتے ہیں، کیا طواف کعبہ ان کو کچھ ہدایت نہیں دیتا؟ قبر کی تنہائی اور اندھیرے سے ان کو خوف نہیں آتا؟
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گھر تو گھر یقین جانیے اسپتالوں میں مریضوں کی حالت غیر ہے، ان کے لواحقین جو دور دراز سے اپنے لوگوں کو علاج و معالجے کے لیے، زندگی کے لیے لے کر آتے ہیں ، وہ کس کسمپرسی کا حصہ بن جاتے ہیں کہ اللہ توبہ! مریض کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین بھی زندگی کی بجائے موت کو ترجیح دیتے ہیں۔
کیا ہم انسان ہیں؟ کم ازکم ایک مرتبہ تو سوچیں، کیا ہمارے لیڈر اور اللہ کے رسول نے یہ طریقہ زندگی ہمیں سکھایا ہے؟ کیا اللہ کے رسول کے امتی ہونے پر ہم جوابدہ نہیں؟
اللہ جانے یہ کون سی سیاست ہے جو ہمارے ملک کا چلن بن گئی ہے۔ یہ کون سی تجارت ہے یہ کون سے خزانے ہیں جن کی چابیوں کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا ہے، کیا پچھلے زمانے کے کرداروں سے ہمیں عبرت حاصل نہیں ہوئی، کیا صرف مکر و فریب ہی اسمارٹ زندگی ہے، ایسی ملاوٹ کی ہوا چلی ہے کہ ہر چیز اور ہر رشتہ ملاوٹ کی نذر ہوگیا ہے، نہ فرائض، نہ حقوق، نہ محبتیں نہ خلوص، ایک دوسرے کو ذلیل و خوار کرنے کی ایسی رسم چلی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ہم مسلمان ضرور کہلاتے ہیں، کلمہ ضرور پڑھتے ہیں مگر نہ دین کا علم اور نہ اللہ پاک کا خوف، گویا سب کچھ دنیا ہوگئی جیسے چاہو جیو۔
مگر میرا ایمان کامل ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اسی نے تمام جہان تخلیق کیے وہی ذرے ذرے کا مالک ہے، ہر شے اور ہر ذی روح کو اسی کے پاس پلٹ کر جانا ہے، سب کچھ وہ جانتا ہے جو ہماری سوچوں میں ہے جو ہمارے دلوں میں ہے، اپنا پیار اپنی محبت کو بھی وہ دیکھتا ہے اور ظلم کو بھی دیکھتا ہے، اللہ پاک فرماتا ہے کہ اپنے حقوق تو میں معاف کرسکتا ہوں مگر جو حقوق انسانوں کے ایک دوسرے پر ہیں وہ انسان ہی ایک دوسرے کو معاف کرسکتے ہیں۔
کیا شان ہے اللہ پاک کی کہ وہ نعمتیں دیتا بھی ہے اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا بھی حکم دیتا ہے، وسیلہ بننے کا بھی حکم دیتا ہے ایک دوسرے کا سہارا بننے کا بھی حکم دیتا ہے۔ مگر ہم نہ جانے انسان ہوتے ہوئے کیا ہوتے جا رہے ہیں، کھانے کو ہمیں ڈھیروں ڈھیر چاہیے، پہننے کو ہمیں ایسی چمک دمک چاہیے جو ہماری کالی شکلوں کو قلوپطرہ بنادے۔ ایسے ایسے عورت و مرد ہمیں نظر آتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ایک جوڑے پر نجانے کتنا خرچ کرنے کے بعد بھی ان کی پھٹکار زدہ شکلیں ذرا نہیں بدلتی ہیں۔
اللہ پاک کا مبارک مہینہ جس کا ہر مسلمان ہر سال انتظار کرتا ہے خاص طور پر غریب، اس کو لگتا ہے ہے کہ اب زکوٰۃ آئے گی لوگ اللہ کے نام پر خرچ کریں گے شاید کھانے کو پیٹ بھر کے مل جائے، شاید کچھ نئے جوڑے مل جائیں، شاید کوئی علاج و معالجہ کرادے، شاید کوئی مسلمان ایک دوسرے کی ایسی مدد کردے کہ سالہا سال ہم اس کو دعائیں دیتے رہیں، شاید فلاحی کام کرنے والے ادارے اور افراد اپنی ضرورتوں اور عیاشیوں سے ہٹ کر سوچیں اور اس راستے پر چلیں جو ہمارے رہنما نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیات میں پریکٹیکلی کرکے دکھایا، جو ہمیں ہدایتیں ملی ہیں جو ہمیں راستے نصیب ہوئے ہیں کیا ان سے کچھ بہتر ہوسکتا ہے؟
کیا ہم اللہ سے بہتر اپنے لیے سوچ سکتے ہیں کر سکتے ہیں؟ اتنا بے بس ہے انسان کہ اگر اللہ پاک نہ چاہے تو پلک تک جھپک نہیں سکتا، ایک سیکنڈ کافی ہے میرے رب کو بڑے سے بڑے ظالم کو مٹی کا ڈھیر بنانے کے لیے ، نہ کوئی اوقات، نہ حیثیت، نہ آنے کا پتہ نہ جانے کی خبر اس پر اس دل ہوش ربا کو گمان یہ ہے کہ وہ بہت ہی پھنے خان ہے، وہ بہت ہی اعلیٰ سیاست کرنے والا، بہت ہی مکار بہت ہی اسمارٹ دماغ والا ہے، ہم بھی دیکھیں گے اور آپ بھی دیکھئے ان لوگوں کو جو دنیا کے لیے عبرت بن گئے۔
ہوش ربا مہنگائی نے عوام کی کمر ویسے ہی توڑ دی ہے اور بجلی اور پانی کی نایابی شہرکراچی کوکھنڈر بنانے کے لیے تیار ہیں، حد تو یہ ہے کہ اتنی سیاسی جماعتیں ہونے کے باوجود کراچی یتیم و مسکین ہونے کا منظر پیش کررہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ تمام کے تمام گدھ کراچی پر چھا گئے ہیں اور اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھانے کو تیار ہیں، سیاست اور تجارت دو الگ چیزیں ہیں۔ مگر اب ہمارے ملک میں سب سے اعلیٰ تجارت ہی سیاست رہ گئی ہے، انسان پڑھا لکھا نہ ہو، خاندان کا کچھ پتہ نہ ہو، ہاں زبردست مکار ہو زبردست دھوکے باز ہو تو وہ یقینا ایک اچھا سیاست دان بن جائے گا اور خوب خوب اپنا نام روشن کرے گا۔
جب سے کے الیکٹرک کو پرائیویٹائزکیا گیا ہے تب سے لے کر آج تک ایسے تماشے ہو رہے ہیں کہ اللہ کی پناہ، کاپر کے تاروں کو سلور سے بدل دیا گیا اربوں روپے اس چکر میں لوٹ لیے گئے، فی یونٹ بجلی بڑھا دی گئی، غریب کا سکھ چین لوٹ لیا گیا ہزاروں روپے کے بل عوام کے گلے میں ڈال دیے گئے جب کہ 6 سے 8 گھنٹے بجلی کا تعطل بھی لازمی ہوگیا ہے، حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی ایک مہینے کا بل نہ بھر سکے تو فوری طور پر بجلی منقطع کردی جائے، گھروں میں ایسا کب ہوتا ہے بھائی، کوئی انسانیت نام کی چیز بھی ہے اس دنیا میں کیا ادارے اس لیے پرائیویٹ کیے جاتے ہیں کہ عوام کا جینا حرام کردیں؟ کیا اداروں کو اس لیے پرائیویٹ کیا جاتا ہے کہ ملک کو کھوکھلا کردوں؟ نہ شرم نہ تقدس نہ احترام کہ پہلے روزے سے ملک میں افراتفری کی صورتحال پیدا کردی گئی ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ پورے ملک میں شدید بحران کی سی کیفیت ہو اور ملک کا حکمران چین کی بانسری بجائے، عوام اللہ کا عذاب برداشت کر رہے ہیں کہ ان کو ووٹ جو دیا ہے، کہاں الیکشن سے پہلے 6 مہینے میں بجلی کی بھرمار کرنے کے وعدے اور کہاں اب تقریباً پانچ سال ہونے والے ہیں نئے الیکشن کی تیاریاں ہیں اور بجلی کا بحران پہلے سے بھی بدترین حالات میں ہے، کیا ان کو اپنے وعدوں پر ذرا شرم نہیں آتی؟ کیا یہ ایسے بے حس لوگ ہیں جو صرف اور صرف پورے ملک کو لوٹ کر کھانا چاہتے ہیں، کیا صرف ان کی اولادیں ہی اولادیں ہیں کہ یہ ملک اور عوام جن کی وجہ سے ان کی شان و شوکت ہے، جن کی وجہ سے یہ ارب پتی بن گئے، کیا یہ لوگ اللہ پاک کو مکمل طور پر بھلا بیٹھے ہیں، کیا ان کے حج اور عمرے ان کے دلوں کو نرم نہیں کرتے ہیں، کیا طواف کعبہ ان کو کچھ ہدایت نہیں دیتا؟ قبر کی تنہائی اور اندھیرے سے ان کو خوف نہیں آتا؟
بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گھر تو گھر یقین جانیے اسپتالوں میں مریضوں کی حالت غیر ہے، ان کے لواحقین جو دور دراز سے اپنے لوگوں کو علاج و معالجے کے لیے، زندگی کے لیے لے کر آتے ہیں ، وہ کس کسمپرسی کا حصہ بن جاتے ہیں کہ اللہ توبہ! مریض کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین بھی زندگی کی بجائے موت کو ترجیح دیتے ہیں۔
کیا ہم انسان ہیں؟ کم ازکم ایک مرتبہ تو سوچیں، کیا ہمارے لیڈر اور اللہ کے رسول نے یہ طریقہ زندگی ہمیں سکھایا ہے؟ کیا اللہ کے رسول کے امتی ہونے پر ہم جوابدہ نہیں؟
اللہ جانے یہ کون سی سیاست ہے جو ہمارے ملک کا چلن بن گئی ہے۔ یہ کون سی تجارت ہے یہ کون سے خزانے ہیں جن کی چابیوں کا بوجھ بڑھتا ہی جا رہا ہے، کیا پچھلے زمانے کے کرداروں سے ہمیں عبرت حاصل نہیں ہوئی، کیا صرف مکر و فریب ہی اسمارٹ زندگی ہے، ایسی ملاوٹ کی ہوا چلی ہے کہ ہر چیز اور ہر رشتہ ملاوٹ کی نذر ہوگیا ہے، نہ فرائض، نہ حقوق، نہ محبتیں نہ خلوص، ایک دوسرے کو ذلیل و خوار کرنے کی ایسی رسم چلی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ہم مسلمان ضرور کہلاتے ہیں، کلمہ ضرور پڑھتے ہیں مگر نہ دین کا علم اور نہ اللہ پاک کا خوف، گویا سب کچھ دنیا ہوگئی جیسے چاہو جیو۔
مگر میرا ایمان کامل ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اسی نے تمام جہان تخلیق کیے وہی ذرے ذرے کا مالک ہے، ہر شے اور ہر ذی روح کو اسی کے پاس پلٹ کر جانا ہے، سب کچھ وہ جانتا ہے جو ہماری سوچوں میں ہے جو ہمارے دلوں میں ہے، اپنا پیار اپنی محبت کو بھی وہ دیکھتا ہے اور ظلم کو بھی دیکھتا ہے، اللہ پاک فرماتا ہے کہ اپنے حقوق تو میں معاف کرسکتا ہوں مگر جو حقوق انسانوں کے ایک دوسرے پر ہیں وہ انسان ہی ایک دوسرے کو معاف کرسکتے ہیں۔
کیا شان ہے اللہ پاک کی کہ وہ نعمتیں دیتا بھی ہے اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا بھی حکم دیتا ہے، وسیلہ بننے کا بھی حکم دیتا ہے ایک دوسرے کا سہارا بننے کا بھی حکم دیتا ہے۔ مگر ہم نہ جانے انسان ہوتے ہوئے کیا ہوتے جا رہے ہیں، کھانے کو ہمیں ڈھیروں ڈھیر چاہیے، پہننے کو ہمیں ایسی چمک دمک چاہیے جو ہماری کالی شکلوں کو قلوپطرہ بنادے۔ ایسے ایسے عورت و مرد ہمیں نظر آتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ایک جوڑے پر نجانے کتنا خرچ کرنے کے بعد بھی ان کی پھٹکار زدہ شکلیں ذرا نہیں بدلتی ہیں۔
اللہ پاک کا مبارک مہینہ جس کا ہر مسلمان ہر سال انتظار کرتا ہے خاص طور پر غریب، اس کو لگتا ہے ہے کہ اب زکوٰۃ آئے گی لوگ اللہ کے نام پر خرچ کریں گے شاید کھانے کو پیٹ بھر کے مل جائے، شاید کچھ نئے جوڑے مل جائیں، شاید کوئی علاج و معالجہ کرادے، شاید کوئی مسلمان ایک دوسرے کی ایسی مدد کردے کہ سالہا سال ہم اس کو دعائیں دیتے رہیں، شاید فلاحی کام کرنے والے ادارے اور افراد اپنی ضرورتوں اور عیاشیوں سے ہٹ کر سوچیں اور اس راستے پر چلیں جو ہمارے رہنما نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیات میں پریکٹیکلی کرکے دکھایا، جو ہمیں ہدایتیں ملی ہیں جو ہمیں راستے نصیب ہوئے ہیں کیا ان سے کچھ بہتر ہوسکتا ہے؟
کیا ہم اللہ سے بہتر اپنے لیے سوچ سکتے ہیں کر سکتے ہیں؟ اتنا بے بس ہے انسان کہ اگر اللہ پاک نہ چاہے تو پلک تک جھپک نہیں سکتا، ایک سیکنڈ کافی ہے میرے رب کو بڑے سے بڑے ظالم کو مٹی کا ڈھیر بنانے کے لیے ، نہ کوئی اوقات، نہ حیثیت، نہ آنے کا پتہ نہ جانے کی خبر اس پر اس دل ہوش ربا کو گمان یہ ہے کہ وہ بہت ہی پھنے خان ہے، وہ بہت ہی اعلیٰ سیاست کرنے والا، بہت ہی مکار بہت ہی اسمارٹ دماغ والا ہے، ہم بھی دیکھیں گے اور آپ بھی دیکھئے ان لوگوں کو جو دنیا کے لیے عبرت بن گئے۔