شہید میجر عزیز بھٹی پارک کی زبوں حالی
صحت مند معاشرہ میں پارک یا باغات شہر کے پھیپڑے اور آکسیجن کی فیکٹریاں ہوا کرتی ہیں
بسا اوقات شہری حکومتیں یا شہری ادارے نئی سڑک یا شاہراہ یا عوامی تفریحی سبزہ زار پارک کی تعمیر کرتے وقت کسی ایسے قومی ہیروز کے نام سے منسوب کرتے ہیں جو نہ صرف اندرون و بیرون ملک کسی بھی حوالے سے اپنے پاک وطن کی نیک نامی ، سربلندی ،عزت وناموس اور وقار کا سبب بنی ہو۔ ان ناموں سے منسوب کرنے کا بنیادی مقصد آنے والی نسلوں کو ان شخصیات (icons) کی اپنے اپنے متعلقہ شعبوں میں شاندار منفردکارکردگی کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ملکی دفاع نومولود اسلامی جمہوری مملکت کا خاصہ رہا ہے اوراس ضمن میں افواج پاکستان کی اگر تاریخ اٹھائیں تو پاکستانی غازی اور شہید سپاہیوںکی ہر محاذ پر بہادری کی لازوال داستانیں ملیں گی۔
ان ہی شہدا میں ایک قابل قدر اور ہمارے لیے قابل احترام نام شہید میجر راجہ عزیز بھٹی کا ہے جو بلا شبہ 1965 میں لاہور برکی سیکٹرکے گھمسان کے معرکے کے کامیاب ہیرو ہیں اور ملک کا اعلی ترین فوجی اعزاز ''نشان حیدر'' اس شہید وطن کے نصیب میں آیا۔ منی پاکستان ''کراچی'' کے گلشن اقبال میں اس ہمہ جہت معروف عسکری خاندان کے خانوادے سے منسوب وسیع و عریض عوامی تفریحی پارک ''شہیدمیجر عزیز بھٹی پارک'' کی حالت زار دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پورا پاکستان اجاڑ و بیاباں ہے جو نہ صرف مقامی انتظا میہ کی نااہلی اورعدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ کبھی کبھی محب وطن نہ ہونے کا احساس بھی اجاگر کرتا ہے۔
آج ہمارے کالم کا مدعا شہری انتظامیہ کی اسی پارک کی زبوں حالی پر توجہ دلانا ہے ۔ یہ پارک طویل عرصے سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر انتظامیہ کی عدم توجہی کا بری طرح شکار ہے۔ یاد رہے کہ شہید کے ایک بھانجے شہید میجر شبیرشریف بھی 1971 کی پاک بھارت جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں اور ملک کا اعلی ترین فوجی اعزاز ''نشان حیدر'' کے حقدار ٹھہرے۔ ادھر دوسرے بھانجے جنرل راحیل شریف پاک افواج کے سربراہ کے طور پر سبکدوش ہو کر اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔ عوام کا نہیں تو کم از کم اس شہید کے عظیم نام اور خاندان کی عزت کی لاج ہی رکھ لیں ۔
اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پارک شہید ہی کے نام سے ''شہیدمیجر عزیز بھٹی پولیس اسٹیشن'' کی حدودمیں آتا ہے۔ ہم نے پارک میں دور دور تک جائزہ لینے کے دوران وہاں پر اس وقت موجود مقامی رہائشی سے سوال کیا کہ جب اس پارک کا نام گمنام کر دیا گیا ہے تو اس تھانے کا نام شہید عزیز بھٹی پولیس اسٹیشن کیوں رکھا گیا ہے، اس کو بھی ختم ہونا چاہیے۔
اس نے مسکراتے ہوئے بے دھڑک جواب دیا ''چونکہ ان کے لیے یہ پارک ماضی کی طرح آج بھی معقول آمدنی کا ذریعہ ہے اور اسی کی برکتوں سے اس تھانے کی آن بان ہے۔ اس کا جواب سن کر ہم پریشانی کے عالم میں قدرے گہری سوچ میں ڈوب گئے مگر افسوس کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔ کراچی میں پارکوں کی جو حالت زار ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ، ہمیں اس سے قطعا غرض نہیں کہ شہر میں قبضہ مافیہ ان پارکوں میں محض شادیوں کی تقریبا ت یا سرکس سے آمدنی کا ذریعہ بنائے اور نہ ہمیں کسی بھی صورت یہ برداشت ہے کہ قومی ہیروزکے ناموں کی بے حرمتی کی جائے اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ناپاک عزائم کیے جائیں۔
جغرافیائی حدود اربعہ کے اعتبار سے 1972 میں گلشن اقبال کے وسیع وعریض اراضی پر پارک کی تعمیر عمل میں آئی جس کے ایک چھوٹے سے رقبہ پر باقاعدہ باغ تیارکیا گیا تھا۔ بقیہ زمین کو دیہات کی منظرکشی کی مصنوعی قدرتی شکل دی گئی تھی۔ خالی میدان کی شکل میں ہے جو اب ایک اجڑا ہوا ریگستان کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اجاڑ ہونے کی وجہ سے وہاں جرائم پیشہ اور چرس و ہیروئن کے عادی افراد کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ یونیورسٹی روڈ کے پرائم لوکیشن پر واقع سایہ دار درختوں ، پودوںاور خوشبو دار پھولوں سے مزین رومانوی انداز کے اس باغ کا ماضی یہ بتاتا ہے کہ اس پارک کا شمار شہر کے چند گنتی کے عظیم الشان پارکوںمیں سے ایک تھا جو نہ صرف مقامی شہریوں کے لیے بلکہ ملک یا بیرون ملک سے آ ئے ہوئے سیاحوں کے لیے دلچسپی کا باعث تھا۔ اس کے اطراف میں پاکستان کسٹم کلب ، سند باد، سرسید یونیورسٹی، وفاقی حکومت کے زیراہتمام وفاقی اردو یونیورسٹی جیسے اہم ادارے واقع ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کراچی میں سرکلر ٹرین چلا کرتی تھی اور اس کے قرب و جوار میں اسی سرکلر ٹرین کا ''اردوکالج' کے نام سے اسٹیشن تھا جہاں شہر کے دور افتادہ علاقوں سے آئے ہوئے سیاحوں کا جم غفیر رہا کرتا تھا بالخصو ص گرمیوں کی شام میں ہرعمر کے افراد کے لیے تسکین راحت کا مرکز تھا ۔ اس کے اندر موجود قدرتی صاف پانی کی جھیل اس کے قدرتی حسن اور دلکشی میں اضافہ کر تی تھی جو اب موجودہ لاچار اور مخدوش حالت کو دیکھتے ہوئے محض نوحہ کناں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ آج سے 30 برس قبل پارک سے قریب ہی بلاک 9 میں واقع واٹر بورڈکا اوورفلو (overflow) پانی برا ہ ر است اس پارک کی جھیل میں آکر گرتا تھا اور یہاں سے اضافی پانی کی صورت میں نالے کے ذریعے لیاری ندی میں جا گرتا تھا۔
جھیل میں کیں کیں کرتی خوبصورت بطخیں اور دلکش رنگا رنگ مچھلیوں کی افزایش ہوا کرتی تھی جو یکسر بچوں اور بڑوں کے لیے نہایت دلچسپی اور تفریح کا با عث تھیں۔ اب یہ جھیل نہایت مخدوش حالت میں شہر کے کچرے کی نرسری بنا ہوا ہے۔ چار دیواری اور داخلہ گیٹ کے نہ ہونے سے پارک کی اصل شکل ہی غائب ہو تی جارہی ہے۔
پارک کے نام کا بورڈ تک نظروں سے اوجھل ہے۔ اس سے قبل خدا نخواستہ پارک کی متعین حدود کی ریگستانی زمین کسی لینڈ مافیا کی نذر ہوجائے یا چائنا کٹنگ کی زد میں آ جائے، ہماری اس سلسلے میں شہری حکومت کے لیے تجویز ہے کہ یہاں جتنی جلد ہوسکے ''شہید میجر عزیز بھٹی اسپورٹس کمپلیکس'' تعمیر کروا دیا جائے جو نہ صرف شہری حکومت کے لیے معقول آمدنی کا ذریعہ بنے گا بلکہ پارک کی مد میں ہونے والے اخراجات میں بھی مالی مدد ملنے کے ساتھ ساتھ انڈور اور آوٹ ڈور کھیلوں کو فروغ بھی دیا جا سکے گا۔ ملک کا اعلی ترین اعزاز یافتہ متذکرہ شہید فوجی کے حوالے سے اس ضمن میں کراچی کے کورکمانڈر سے سربستہ مودبانہ گذارش ہے کہ وہ ممکنہ خدشات کے پیش نظر سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس پارک کی ترجیحی بنیادوں پر جلد از جلد نئے سرے سے رونقیں بحال کرنے میں اپنے کلیدی کردار ادا کریں تاکہ اس کا شمار بھی دوسرے ماڈل عسکر ی پارکوں کی فہرست میں شامل ہو سکے۔
صحت مند معاشرہ میں پارک یا باغات شہر کے پھیپڑے اور آکسیجن کی فیکٹریاں ہوا کرتی ہیں۔ آلودہ ماحول کو صاف رکھنے میں مدد گار اور رہنما ثابت ہوتی ہیں۔ پریشان حال شہریوں کو تازہ آکیسجن کی فراہمی کو ممکن بناتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں کیسے کیسے رنگ اختیار کر تی جا رہی ہیں۔ گزشتہ سالوں سے مئی اور جون کے مہینوں میں گرمی کی شدید حدت نے جو قیامت برپا کی ہے وہ آپ اور ہمارے سامنے ہے۔ ان نا گہاں آفتوں سے مقابلہ کرنے کے لیے شہر میں درختوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں درخت لگانے کی بجائے درختوں کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ چوڑی چوڑی سڑکو ں پر ناجائز پتھارے داروں اور بے ترتیب گاڑیوں کی پارکنگ نے ٹریفک کی روانی میں خلل پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
اب شہر قدیمی طرز کے نہیں رہے، اب تو شہر فلک شگاف رہائشی اورتجارتی عمارات تعمیر ہو رہی ہیں۔ سڑکوں کی چوڑائی میں کمی واقع ہو تی جا رہی ہے۔آبادی میں روز بروز اضافہ ، ناقص پلاننگ، شہری آبادی کی بڑھنے کی رفتار کی تیزی اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ شہر سے ملحق گاوں اور دیہات شہری آبادی کی زد میں آ چکے ہیں۔ قدرتی ماحول رفتہ رفتہ ختم ہونے کو ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ شہر میں سایہ دار درخت کے ساتھ ساتھ وسیع و عریض پارک تعمیر کیے جائیں۔
ان ہی شہدا میں ایک قابل قدر اور ہمارے لیے قابل احترام نام شہید میجر راجہ عزیز بھٹی کا ہے جو بلا شبہ 1965 میں لاہور برکی سیکٹرکے گھمسان کے معرکے کے کامیاب ہیرو ہیں اور ملک کا اعلی ترین فوجی اعزاز ''نشان حیدر'' اس شہید وطن کے نصیب میں آیا۔ منی پاکستان ''کراچی'' کے گلشن اقبال میں اس ہمہ جہت معروف عسکری خاندان کے خانوادے سے منسوب وسیع و عریض عوامی تفریحی پارک ''شہیدمیجر عزیز بھٹی پارک'' کی حالت زار دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پورا پاکستان اجاڑ و بیاباں ہے جو نہ صرف مقامی انتظا میہ کی نااہلی اورعدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ کبھی کبھی محب وطن نہ ہونے کا احساس بھی اجاگر کرتا ہے۔
آج ہمارے کالم کا مدعا شہری انتظامیہ کی اسی پارک کی زبوں حالی پر توجہ دلانا ہے ۔ یہ پارک طویل عرصے سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر انتظامیہ کی عدم توجہی کا بری طرح شکار ہے۔ یاد رہے کہ شہید کے ایک بھانجے شہید میجر شبیرشریف بھی 1971 کی پاک بھارت جنگ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں اور ملک کا اعلی ترین فوجی اعزاز ''نشان حیدر'' کے حقدار ٹھہرے۔ ادھر دوسرے بھانجے جنرل راحیل شریف پاک افواج کے سربراہ کے طور پر سبکدوش ہو کر اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں۔ عوام کا نہیں تو کم از کم اس شہید کے عظیم نام اور خاندان کی عزت کی لاج ہی رکھ لیں ۔
اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پارک شہید ہی کے نام سے ''شہیدمیجر عزیز بھٹی پولیس اسٹیشن'' کی حدودمیں آتا ہے۔ ہم نے پارک میں دور دور تک جائزہ لینے کے دوران وہاں پر اس وقت موجود مقامی رہائشی سے سوال کیا کہ جب اس پارک کا نام گمنام کر دیا گیا ہے تو اس تھانے کا نام شہید عزیز بھٹی پولیس اسٹیشن کیوں رکھا گیا ہے، اس کو بھی ختم ہونا چاہیے۔
اس نے مسکراتے ہوئے بے دھڑک جواب دیا ''چونکہ ان کے لیے یہ پارک ماضی کی طرح آج بھی معقول آمدنی کا ذریعہ ہے اور اسی کی برکتوں سے اس تھانے کی آن بان ہے۔ اس کا جواب سن کر ہم پریشانی کے عالم میں قدرے گہری سوچ میں ڈوب گئے مگر افسوس کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔ کراچی میں پارکوں کی جو حالت زار ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ، ہمیں اس سے قطعا غرض نہیں کہ شہر میں قبضہ مافیہ ان پارکوں میں محض شادیوں کی تقریبا ت یا سرکس سے آمدنی کا ذریعہ بنائے اور نہ ہمیں کسی بھی صورت یہ برداشت ہے کہ قومی ہیروزکے ناموں کی بے حرمتی کی جائے اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی ناپاک عزائم کیے جائیں۔
جغرافیائی حدود اربعہ کے اعتبار سے 1972 میں گلشن اقبال کے وسیع وعریض اراضی پر پارک کی تعمیر عمل میں آئی جس کے ایک چھوٹے سے رقبہ پر باقاعدہ باغ تیارکیا گیا تھا۔ بقیہ زمین کو دیہات کی منظرکشی کی مصنوعی قدرتی شکل دی گئی تھی۔ خالی میدان کی شکل میں ہے جو اب ایک اجڑا ہوا ریگستان کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
اجاڑ ہونے کی وجہ سے وہاں جرائم پیشہ اور چرس و ہیروئن کے عادی افراد کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ یونیورسٹی روڈ کے پرائم لوکیشن پر واقع سایہ دار درختوں ، پودوںاور خوشبو دار پھولوں سے مزین رومانوی انداز کے اس باغ کا ماضی یہ بتاتا ہے کہ اس پارک کا شمار شہر کے چند گنتی کے عظیم الشان پارکوںمیں سے ایک تھا جو نہ صرف مقامی شہریوں کے لیے بلکہ ملک یا بیرون ملک سے آ ئے ہوئے سیاحوں کے لیے دلچسپی کا باعث تھا۔ اس کے اطراف میں پاکستان کسٹم کلب ، سند باد، سرسید یونیورسٹی، وفاقی حکومت کے زیراہتمام وفاقی اردو یونیورسٹی جیسے اہم ادارے واقع ہیں۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کراچی میں سرکلر ٹرین چلا کرتی تھی اور اس کے قرب و جوار میں اسی سرکلر ٹرین کا ''اردوکالج' کے نام سے اسٹیشن تھا جہاں شہر کے دور افتادہ علاقوں سے آئے ہوئے سیاحوں کا جم غفیر رہا کرتا تھا بالخصو ص گرمیوں کی شام میں ہرعمر کے افراد کے لیے تسکین راحت کا مرکز تھا ۔ اس کے اندر موجود قدرتی صاف پانی کی جھیل اس کے قدرتی حسن اور دلکشی میں اضافہ کر تی تھی جو اب موجودہ لاچار اور مخدوش حالت کو دیکھتے ہوئے محض نوحہ کناں ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ آج سے 30 برس قبل پارک سے قریب ہی بلاک 9 میں واقع واٹر بورڈکا اوورفلو (overflow) پانی برا ہ ر است اس پارک کی جھیل میں آکر گرتا تھا اور یہاں سے اضافی پانی کی صورت میں نالے کے ذریعے لیاری ندی میں جا گرتا تھا۔
جھیل میں کیں کیں کرتی خوبصورت بطخیں اور دلکش رنگا رنگ مچھلیوں کی افزایش ہوا کرتی تھی جو یکسر بچوں اور بڑوں کے لیے نہایت دلچسپی اور تفریح کا با عث تھیں۔ اب یہ جھیل نہایت مخدوش حالت میں شہر کے کچرے کی نرسری بنا ہوا ہے۔ چار دیواری اور داخلہ گیٹ کے نہ ہونے سے پارک کی اصل شکل ہی غائب ہو تی جارہی ہے۔
پارک کے نام کا بورڈ تک نظروں سے اوجھل ہے۔ اس سے قبل خدا نخواستہ پارک کی متعین حدود کی ریگستانی زمین کسی لینڈ مافیا کی نذر ہوجائے یا چائنا کٹنگ کی زد میں آ جائے، ہماری اس سلسلے میں شہری حکومت کے لیے تجویز ہے کہ یہاں جتنی جلد ہوسکے ''شہید میجر عزیز بھٹی اسپورٹس کمپلیکس'' تعمیر کروا دیا جائے جو نہ صرف شہری حکومت کے لیے معقول آمدنی کا ذریعہ بنے گا بلکہ پارک کی مد میں ہونے والے اخراجات میں بھی مالی مدد ملنے کے ساتھ ساتھ انڈور اور آوٹ ڈور کھیلوں کو فروغ بھی دیا جا سکے گا۔ ملک کا اعلی ترین اعزاز یافتہ متذکرہ شہید فوجی کے حوالے سے اس ضمن میں کراچی کے کورکمانڈر سے سربستہ مودبانہ گذارش ہے کہ وہ ممکنہ خدشات کے پیش نظر سول انتظامیہ کے ساتھ مل کر اس پارک کی ترجیحی بنیادوں پر جلد از جلد نئے سرے سے رونقیں بحال کرنے میں اپنے کلیدی کردار ادا کریں تاکہ اس کا شمار بھی دوسرے ماڈل عسکر ی پارکوں کی فہرست میں شامل ہو سکے۔
صحت مند معاشرہ میں پارک یا باغات شہر کے پھیپڑے اور آکسیجن کی فیکٹریاں ہوا کرتی ہیں۔ آلودہ ماحول کو صاف رکھنے میں مدد گار اور رہنما ثابت ہوتی ہیں۔ پریشان حال شہریوں کو تازہ آکیسجن کی فراہمی کو ممکن بناتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں کیسے کیسے رنگ اختیار کر تی جا رہی ہیں۔ گزشتہ سالوں سے مئی اور جون کے مہینوں میں گرمی کی شدید حدت نے جو قیامت برپا کی ہے وہ آپ اور ہمارے سامنے ہے۔ ان نا گہاں آفتوں سے مقابلہ کرنے کے لیے شہر میں درختوں کی اشد ضرورت ہے۔ یہاں درخت لگانے کی بجائے درختوں کا صفایا کیا جا رہا ہے۔ چوڑی چوڑی سڑکو ں پر ناجائز پتھارے داروں اور بے ترتیب گاڑیوں کی پارکنگ نے ٹریفک کی روانی میں خلل پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
اب شہر قدیمی طرز کے نہیں رہے، اب تو شہر فلک شگاف رہائشی اورتجارتی عمارات تعمیر ہو رہی ہیں۔ سڑکوں کی چوڑائی میں کمی واقع ہو تی جا رہی ہے۔آبادی میں روز بروز اضافہ ، ناقص پلاننگ، شہری آبادی کی بڑھنے کی رفتار کی تیزی اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ شہر سے ملحق گاوں اور دیہات شہری آبادی کی زد میں آ چکے ہیں۔ قدرتی ماحول رفتہ رفتہ ختم ہونے کو ہے۔ ایسے میں ضرورت ہے کہ شہر میں سایہ دار درخت کے ساتھ ساتھ وسیع و عریض پارک تعمیر کیے جائیں۔