محبت ایک کہانی

آفاقی جذبے سے متعلق کچھ سوال۔


محبّت کم ہو یا زیادہ۔ سچّی اور پُر خلوص محبّت کی موجودگی فطرت میں رنگ اور خوشبو کے سامان پیدا کرتی ہے۔ فوٹو : فائل

''میری شادی کو بائیس سال ہوگئے ہیں۔ ہمارے چار بچے ہیں۔ مجھے اپنی بیوی سے بہت محبّت ہے۔ وہ بھی میرا خیال رکھتی ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ اسے مجھ سے محبّت نہیں ہے۔ میں اُس کا دوسرا شوہر ہوں۔ وہ اپنے پہلے خاوند سے بہت محبّت کرتی تھی۔ دو سال کی شادی کے بعد اس کے پہلے شوہر کا انتقال ہوگیا۔ پھر بعد میں اس کی شادی مجھ سے ہوگئی، لیکن اب بھی مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنے پہلے خاوند کا خیال دل سے نہیں نکال سکی ہے۔ حالاںکہ وہ میرے گھر کا، میرا اور میرے بچوں کا حد سے زیادہ خیال رکھتی ہے، مگر میں اب بھی اکثر اُس سے پوچھتا رہتا ہوں کہ اُسے اپنے پہلے خاوند سے زیادہ محبت تھی یا مجھ سے۔

میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا عورت اپنی پہلی محبّت کو بھلا پاتی ہے؟ ہم نے یہی پڑھا اور سنا ہے کہ عورت اپنی پہلی محبّت کو کبھی بھول نہیں پاتی۔ نفسیات کی روشنی میں بتائیے اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ کیا عورت تمام عمر اپنی پہلی محبت کو بھول پاتی ہے یا نہیں؟''

یہ سوال مجھ سے ذیشان نے کیا تھا۔ اس سوال نے مجبور کردیا کی اِس پر ذرا تفصیلی گفتگو کی جائے تاکہ اس سائیکو سوشل ایشو پر اور لوگ بھی نفسیاتی نقطہ نظر سے واقف ہوسکیں۔

محبت کی تاریخ تو اتنی ہی پرانی ہے جتنی دنیا میں انسان کی پیدائش کا دن۔ یہ اور بات ہے کہ ہر زمانے میں محبت کی تعریف اور محبت کا فلسفہ اور محبت کے مظاہر بدلتے رہے ہیں۔ انسانی تاریخ کے ہر عہد، ہر نسل، ہر قوم میں محبّت کی کہانیاں جنم لیتی رہی ہیں اور تا آخرت لیتی رہیں گی۔ فطرت نے افزائش اور نسل نو کی بقا کے لیے مرد اور عورت کے بیچ نہ دکھائی دینے والا انتہائی نازک مگر انتہائی مضبوط جذبہ ''محبّت'' کی شکل میں رکھا ہے۔ مذاہب اور اخلاقیات کی روشنی پھیلنے سے پہلے جب قبیلوں میں مردوزن کا آزادانہ اختلاط رہا کرتا تھا۔ تب بھی محبّت کا بے نام جذبہ، افراد اور قبائل کے بیچ جنگ و جدل برپا کرتا رہتا تھا۔

تہذیب کی ترقی کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے ساتھ کے دائرے بنتے چلے گئے۔ پھر مختلف قوموں میں مختلف مذاہب کی آمد اور تعلیمات کے بعد مرد وعورت کے تعلقات کے دائروں کو واضح شکل ملتی گئی۔

مگر تاریخ کے ہر دور میں محبّت کے طاقت ور جذبے نے یا تو تخلیق کے پھول کھلائے ہیں یا پھر یہ معصوم جذبہ، انتقام اور نفرت میں بدل کر خون کی ندّیاں بہاتا رہا ہے۔ محبّت کے سرکش گھوڑے کی سواری یا تو نیّا پار لگادیتی ہے یا جیتے جی زندہ درگور کرڈالتی ہے اور وہ بھی اتنی شدّت سے کہ پھر کوئی علاج، کوئی دوا، کوئی دعا، محبت کے مارے کو دوبارہ زندگی سے ہمکنار نہیں کرپاتی۔ پھر بقول غالب:

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پر دم نکلے

تاریخ کے موجودہ تہذیب یافتہ دور میں، جس کی ابتدا دو ڈھائی ہزار برس پہلے کہی جاتی ہے، جوں جوں انسان حرف شناس ہوتا گیا، توں توں محبت کے حقیقی اور فرضی قصّے جنم لیتے گئے۔ ہر قوم کی ہر تہذیب نے اپنی اپنی ثقافت اور طرززندگی کے رنگوں سے محبّت کی کہانیوں میں رنگ بھرے اور یہ رنگ ہر نئے دن کے ساتھ نت نئے انداز میں بڑھتے چلے جارہے ہیں۔

محبّت کی کہانیوں کے تمام رنگوں میں دو باتیں پہلے دن سے آج تک مشترک ہیں اور کھربوں بار دہرائے جانے کے باوجود پرانی نہیں ہوپائی ہیں۔ ''مجھے تم سے محبّت ہے'' اور ''کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟'' I Love You اور Do You Love Me? کے الفاظ ہر قوم، ہر زبان میں اپنے اپنے انداز اور اپنی اپنی زبان میں ادا ہورہے ہیں، لیکن محبّت کے طلسم میں گرفتار ان الفاظ کے اظہار پر مجبور ہیں۔ اپنی تمام تر محبّت اور محبّت کی سچائی کے باوجود محبّت میں مبتلا ہر دل، ہر دِن ان لفظوں کی تسبیح جپتا ہے۔ اپنی محبّت پر یقین کے باوجود ہمہ وقت شک اور وہم کی آری مستقل چلتی رہتی ہے اور لگتا ہے کہ محبّت کا گراف اوپر سے نیچے جارہا ہے۔

ایک طرف بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق اور کہتے ہیں جسے عشق، خلل ہے دماغ کا، جیسی Theories بھی ہیں اور دنیا بھر کا ادب، بشمول ناول، افسانے، غزلیں، نظمیں، ڈرامے اور اب فلمیں، محبّت اور عشق کی ترجمانی کرتا دکھائی دیتا ہے اور ماہرین عمرانیات و سماجیات کا جمّ غفیر محبّت کے Element کو معاشرے کی بقا کے لیے لازم قرادیتا ہے، تو دوسری طرف جب ماہرین نفسیات، انسانی نفسیات کے جبلّی بنیادی ضروری اور ماحولیاتی و اضافی جذبات و احساسات کو اپنے مشاہدات و تجربے کی روشنی میں جانچتے اور ترتیب دیتے ہیں تو ان کا ایک گروپ، محبّت کے جذبے کو مخصوص افراد کے دماغوں میں مخصوص کیمیائی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتے دکھاتا اور ثابت کرتا ہے۔

ان کے نزدیک ہر کوئی محبّت نہیں کرتا، محبّت نہیں کرسکتا۔ ہر مرد ہر عورت کی Genes میں محبّت کے Germs نہیں ہوتے۔ ان گنت مرد وزن، محض وقتی ضرورت یا جبلّی ہیجان یا کسی سماجی مجبوری کے تحت ایک دوسرے کی رفاقت میں آتے ہیں۔ بہت کم لوگ Unexplainable (ناقابل تشریح) محبّت کی وجہ سے ایک دوسرے کو قبول کرتے ہیں اور جو بظاہر اس طرح کی محبّت میں سامنے والے کو جانے اور سمجھے بغیر اپناتے ہیں تو یا تو ان کی Genes میں کسی طرح کی Mutation یا گڑ بڑ ہوتی ہے یا ان کا بچپن انتہائی ناآسودہ اور تخریب زدہ، منتشر اور جذباتی عدم تحفظ کے ماحول میں گزرا ہوتا ہے اور یا پھر اُن کے دماغ میں پایا جانے والا ایک خاص طرح کا کیمیائی پروٹین (نیورو ٹرانسمیٹر) صحیح و مناسب مقدار میں یا تو بن نہیں پاتا یا ہمہ وقت موجود نہیں رہ پاتا۔ اس خاص پروٹین کو اعصاب اور نفسیات کے ماہرین نے SEROTONIN (سیروٹونن) کا نام دیا ہے۔ اس کیمیائی جُز کا عدم استحکام کئی دیگر نفسیاتی و ذہنی عارضوں مثلاََ ڈپریشن، شیزہفرینیا، آبیسو کمپلیسوڈس آرڈر وغیرہ کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ سمجھا جاتا ہے۔

گذشتہ بیس برسوں میں ہونے والی ریسرچ میں ماہرین نفسیات نے شدّت سے محبّت میں گرفتار لوگوں کو جب مخصوص ادویات، مخصوص مدّت تک دیں اور اُن کے دماغ کی کیمیائی ابتدائی اور بعد کی تبدیلیوں کو مانیٹر کیا تو ایک خاص عرصے کے بعد کیمیائی تبدیلیوں کے ساتھ، ڈرگ ٹرائل میں شامل افراد کے رویّوں اور اُن کی سوچوں اور خیالوں کے ساتھ ساتھ اُن کے جذبات اور احساسات میں بھی نمایاں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں۔ سب سے واضح تبدیلی اُن کی مخصوص فرد سے محبّت یا Attachment کے جذبات کی شدّت میں کمی تھی۔ ایک خاص مدت کے بعد مخصوص فرد کی بابت اُن کی سوچ اور اُن کا احساس دونوں بدلنے لگے۔ ڈرگ ٹرائل سے پہلے جس فرد کو روزانہ دیکھے بغیر یا اُس سے بات کیے بغیر چین اور سکون نہیں ملتا تھا، بعد میں ہفتوں بل کہ مہینوں تک اُس فرد کی کسی یاد اور خیال کے بغیر ہی ڈرگ ٹرائل والے افراد اپنے معمول کے کاموں میں اپنی بہترین کارکردگی دکھانے لگے۔

محبّت کی بابت ماہرین نفسیات کی ریسرچ صحیح ہے یا ماہرین عمرانیات کی۔ بے شمار Theories یا قوانین فطرت کے تقاضے ہوں یا محبّت کے دلائل میں کوئی کتاب ، الہامی یا خوابی فلسفہ ہو۔

یہ سوال ہو کہ محبّت کی جاتی ہے یا محبّت ہوجاتی ہے یا پھر اِس سے بڑھ کر محبّت کیوں ہوتی ہے؟ کسی بھی طرح کی کوئی بھی بات ہو یہ طے ہے کہ محبّت، انسانی نفسیات کا ایسا لطیف و منوّر جذبہ ہے جس کی عدم موجودگی میں انسان، انسان کو کاٹنے اور چیرنے پھاڑنے کے لیے دوڑتا ہے اور جس کی محدود مخصوص دائرے میں موجودگی، انسان کو عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف لے جاسکتی ہے۔

جب یہ صورت حال ہو تو اس سوال کا جواب بھی سوچا جاسکتا ہے کہ کیا عورت اپنی پہلی محبّت ہ بھول پاتی ہے؟ تیکنیکی نقطۂ نظر سے اس سوال کو اگر یوں اٹھایا جائے کہ کیا کوئی بھی فرد، مرد یا عورت اپنی پہلی محبّت کو بھول سکتا ہے؟ تو اِس کا جواب بھی ہاں اور نہیں، دونوں میں آتا ہے۔ بات محبّت کی شدّت اور سچّائی کی ہوتی ہے۔ اگر پہلی محبّت زیادہ شدید، زیادہ سچّی اور زیادہ دِنوں تک کی ہو تو اُس کے اثرات بھی زیادہ عرصے تک برقرار رہتے ہیں، لیکن اگر زندگی میں کوئی اور محبّت، پہلی محبّت سے زیادہ شدید ہوجائے تو پہلی محبّت کا شائبہ تک بھی باقی نہیں بچتا۔

درحقیقت بات پہلی، دوسری، تیسری محبّت کی نہیں ہوتی۔ جو محبّت بھی پُرخلوص اور سچّی ہو تی ہے وہ ازخود اپنے پاؤں جمالیتی ہے۔ اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ محبّت کی نہیں جاتی، محبّت تو ہوجاتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو زندگی میں بس ایک بار ہی محبّت ہوتی ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں کئی بار محبّت ہوجاتی ہے، اور ہر بار پہلے سے زیادہ شدید۔ ہر فرد کی محبّت اُس کی نفسیات اور شخصیت کے ضابطوں کے مطابق ہوتی ہے۔ ہر فرد کی محبّت کا انداز، مزاج اور رنگ الگ الگ ہوتا ہے اور اُسے کِسی بھی طرح ناپا تولا نہیں جاسکتا۔

محبّت پہلی ہو یا دوسری۔ محبّت کم ہو یا زیادہ۔ سچّی اور پُر خلوص محبّت کی موجودگی فطرت میں رنگ اور خوشبو کے سامان پیدا کرتی ہے۔ لیکن سچّی محبّت کی تلاش انسان کو اکثر لامتناہی تنہائی کے صحرا میں لاکھڑا کرتی ہے۔ بہتر ہوتا ہے کہ ہمارے نصیب میں جو، جیسی اور جتنی محبّت لِکھی ہو، ہم اُسی پر قانع رہیں اور اُسی کو کافی جانیں۔ تبھی محبّت سے سکون مِل سکتا ہے۔ ورنہ پھر آشفتہ سَری مقدر ٹھہرتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں