مفادات کے تیل کا چھڑکاؤ
یمن آگ میں جل رہا ہے اور ہر ملک اپنے اپنے مفادات کے لیے اس میں تیل چھڑک رہا ہے۔
اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے لیکن مسلم امہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ آپس میں اتحاد و اتفاق کے فقدان کی وجہ سے اسلامی دنیا میں بہت سے تنازعات جاری ہیں.
اسلامی ملکوں کے درمیان مختلف معاملات پر کشیدگی پائی جاتی ہے اور اس سے بڑا المیہ یہ کہ مسلم دنیا اپنے مسائل کے حل اور تنازعات کے تصفیے کے لیے خود کوئی قدم اٹھانے کے بجائے عالمی طاقتوں اور دیگر اداروں کی جانب دیکھتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی مسئلے، تنازع یا بحران کا پرامن نتیجہ نہیں نکلتا۔
یمن بھی ان اسلامی ملکوں میں شامل ہے، جہاں اندرونی اختلافات ہیں اتنی شدت آئی کہ اب معاملہ عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ امریکا روس سمیت تمام بڑے ممالک اپنی اپنی پالیسیوں اور مفادات کے تحت یمن کے حوالے سے بیان بھی داغ رہے ہیں اور اقدامات بھی اپنے مفاد کے تناظر میں ہی کر رہے ہیں۔
اگر یمن کے حوالے سے حالات و واقعات پر نظر ڈالی جائے اور ساری صورت حال کا موازنہ کیا جائے تو بات واضح ہوتی ہے کہ یہ صرف گذشتہ 2,3 سال سے جاری جنگ و جدل یا اقتدار کی کشمکش نہیں، اس کے پس منظر میں تاریخی واقعات کا پورا سلسلہ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یمن میں گذشتہ برسوں میں ایسا کیا ہوا جس نے پورے یمن کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ۔ اکتوبر 2000 میں یمن کے شہر عدن میں القاعدہ نے امریکی بحری جہاز پر حملہ کیا جس میں 17 امریکی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ امریکا سمیت دنیا بھر میں اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی اور امریکی انتظامیہ نے ذمے داروں کو ہر قیمت پر انجام تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ بظاہر یہ ایک دہشت گردی کا واقعہ تھا لیکن بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق القاعدہ نے یمن دشمنی میں یہ کارروائی کی، نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی قوتیں یمن کی طرف متوجہ ہوگئیں اور ہر ایک کو دہشت گردوں کی سرکوبی کے بہانے خطے میں قدم جمانے کا موقع ملا۔
اس کے بعد فروری 2001 میں یمن میں منعقدہ میونسپل الیکشن اور ریفرنڈم نے سارا سیاسی منظر نامہ بدل دیا۔ اس ریفرنڈم نے صدارتی مدت میں توسیع اور صدارتی اختیارات میں اضافے کی منظوری دی تھی، ایک حلقے کی جانب سے اس ریفرنڈم کو جانب دارانہ اور من پسند نتائج حاصل کرنے کی چال کہا گیا اور حکومت پر شدید تنقید کی گئی جب کہ حکومت کی جانب سے ان باتوں کی تردید کی جاتی رہی۔
امریکی بحری جہاز پر حملے کے بعد پورے یمن میں القاعدہ کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن جاری رہا۔ 2002 میں القاعدہ کے ہم خیال 100 سے زاید مذہبی راہ نماؤں کو یمن سے نکال دیا گیا۔ دوسری جانب القاعدہ کی بھی کارروائیاں جاری تھیں اور اکتوبر 2002 میں القاعدہ کے جنگجوؤں نے خلیج عدن میں بڑے تیل بردار جہاز ایم سی لمبرگ (MV Limburg) کو حملہ کرکے شدید نقصان پہنچایا، اس حملے میں ایک شخص اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد القاعدہ جنگجوؤں اور ان کی مبینہ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں، درجنوں شدت پسند مختلف کارروائیوں میں مارے گئے جب کہ درجنوں کو گرفتار کیا گیا۔
2004 میں شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے حوثی قبائل نے یمنی حکم رانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا، حوثی قبائل جن کو یمن کی حکومت نے ''باغی'' قرار دے دیا ہے، حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے اور ان مظاہروں اور احتجاج کے دوران پرتشدد کارروائیاں بھی ہوئیں جس کے بعد پورے ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت طاری ہوگئی جو 13 سال گزرنے کے بعد اب بھی جاری ہے، بل کہ اب تو اس میں بہت شدت آچکی ہے۔
حوثی قبائل کے راہ نما حسین الحوثی نے بارہا یمن کے حکمرانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، دوسری جانب یمنی فوج کی حوثی قبائل کے خلاف کارروائیاں بھی جاری رہیں جن میں درجنوں حوثی مارے گئے۔ 2004 میں یمن میں 2 بڑے واقعات ہوئے، اگست میں یمنی عدالت نے خلیج عدن میں تیل بردار جہاز وی ایم لمبرگ پر حملے، دہشت گردی اور دیگر سنگین الزامات کے تحت 15 افراد کو سزا سنائی جب کہ اسی سال ستمبر میں یمنی حکومت نے اعلان کیا کہ اس نے حوثی باغیوں کے مرکزی راہ نما حسین الحوثی کو ہلاک کردیا ہے۔ اس واقعے کے بعد یمنی فورسز اور حوثی قبائل کے راہ نما حسین الحوثی کے حامیوں کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی جس میں مختلف اوقات میں سیکڑوں افراد لقمہ اجل بنے۔
2005 میں یمنی صدر صالح نے حکومت اور حوثیوں کے درمیان ایک معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ باغیوں نے عام معافی کی صورت میں اپنی کارروائیاں بند کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس اعلان کے بعد کچھ عرصے تک یمن میں حالات قابل ذکر حد تک پرامن رہے لیکن بعض علاقوں میں جھڑپیں جاری رہیں۔ مارچ 2006 میں حکومت نے حسین الحوثی کے تقریباً 600 حامیوں کو معاہدے کے تحت رہا کردیا۔ اسی سال صدر صالح دوبارہ صدارتی الیکشن جیت گئے۔
2007 میں بھی حکومت اور حوثیوں کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں، سیکیوریٹی فورسز کے آپریشن میں درجنوں باغی ہلاک کیے گئے، جون 2007 میں حوثیوں کے راہ نما عبدالمالک الحوثی نے سیز فائر پر رضامندی ظاہر کی لیکن اس جنگ بندی کے باوجود مکمل امن کا راستہ ہموار نہ ہوسکا اور مختلف اوقات میں جھڑپیں جاری رہیں جن کے دوران درجنوں افراد مارے گئے۔
2008 یمن کے لیے زیادہ سنگین صورت حال کا پیشہ خیمہ ثابت ہوا جب مسلسل بم دھماکوں نے پورے ملک کو لرزا کر رکھ دیا۔ سیاحتی مراکز، پولیس، سرکاری افسران اور ان کی املاک اور امریکی سفارت خانے پر کیے گئے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر باغیوں کو کچلنے کا مطالبہ اور تدابیر زور پکڑ گئیں۔ ستمبر 2008 میں یمن کے دارالحکومت صنعا میں واقع امریکی سفارت خانے پر بم حملے میں 18 افراد ہلاک ہوگئے تھے، اس کے بعد ملک بھر میں حکومت مخالف گروپوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تیز کردیے گئے۔
2001 میں جب تیونس کے حکم رانوں کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کو دیکھتے ہوئے یمن سمیت دیگر ممالک کے عوام بھی اپنی اپنی حکومتوں کی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر آگئے۔ ان مظاہروں کی شدت کو دیکھتے ہوئے یمنی صدر صالح نے اعلان کیا بل کہ وعدہ کیا کہ وہ 2013 میں دوبارہ صدارتی منصب نہیں سنبھالیں گے اور عنان اقتدار اپنے بیٹے کے حوالے کردیں گے۔ نومبر 2011 میں صدر صالح نے منصب صدارت اپنے نائب منصور ہادی کو دینے کا اعلان کیا اور فروری 2012 میں منصور ہادی نئے یمنی صدر بن گئے۔ نومبر 2012 میں ہی ایک سعودی سفارتی اہل کار اپنے محافظ سمیت نامعلوم افراد کے حملے کا نشانہ بنا۔
2014 میں حکومت اور باغیوں کے درمیان جاری جنگ میں بہت شدت آگئی، اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ یمنی حکومت اپنا اقتدار کھوتی جا رہی ہے، کیوںکہ حوثی قبائل نے جنھیں یمنی حکومت باغی کہتی ہے، دارالحکومت صنعا کے اکثر علاقوں پر قابض ہوچکے تھے۔ صورت حال اتنی مخدوش ہوئی کہ فروری 2015 میں صدر ہادی کو صدارتی محل چھوڑ کر پناہ کے لیے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔ مارچ 2015 میں داعش بھی یمن میں بڑے پیمانے پر سرگرم ہوگئی اور 2 خودکش بم دھماکوں میں 137 افراد کی ہلاکت نے علاقے میں داعش کی موجودگی کا ثبوت دے دیا۔
جب حالات یمنی حکومت کے ہاتھوں سے نکلنے لگے تو سعودی اتحاد نے باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کردیں تاکہ صدر ہادی کی حکومت کو بچایا جاسکے۔ جون 2015 میں امریکی ڈرون حملے میں خطے میں القاعدہ کا سرکردہ راہ نما ناصر ال وہیشی (Nasser Al Wuhayshi) مارا گیا۔ ستمبر 2015 میں اتحادی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں حوثی قبائل کا زور ٹوٹ گیا اور ان کے زیرقبضہ کئی علاقے حکومتی فورسز نے اپنے قبضے میں لے لیے، جس کے نتیجے میں صدر ہادی کی صدارتی محل میں واپسی کا راستہ ہموار ہوا۔
2016 میں اقوام متحدہ کے تحت یمن تنازعے کے فریقین کے درمیان امن مذاکرات کے بھی کئی دور ہوئے، اس دوران حکومت اور باغیوں میں جھڑپیں بھی ہوتی رہیں جب کہ داعش کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات کی گونج بھی سنائی دیتی رہی جن میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حکومت اور باغی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں، باغیوں کو کچلنے کے لیے سعودی اتحادی فورسز کے حملے بھی جاری ہیں، یمنی فورسز بھی مختلف علاقوں میں کارروائیاں کر رہی ہیں اور حوثی قبائل بھی حکومت کے خلاف سرگرم ہیں۔ اس ساری صورت حال نے پورے یمن کو جنگ کی بھٹی میں تبدیل کردیا ہے جہاں ہر کوئی اپنے حصے کا تیل ڈال کر آگ کو مزید بھڑکا رہا ہے۔ اس سارے پس منظر کی مختصر تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں اور اداروں نے یمن کی حکومت اور باغیوں کے درمیان تنازع کو طے کرانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کبھی نہیں کیے، زبانی مذمت، امن کی باتیں بہت کی گئیں اور کی جا رہی ہیں، لیکن بااثر ملکوں نے اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دے کر تنازعے کو ایک ایسی جگہ لاکھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور دکھائی دے رہی ہے۔
اس ساری جنگ و جدل کا افسوس ناک ترین پہلو علاقے میں انسانی حقوق کی انتہائی ابتر صورت حال ہے، عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت یمن کی تقریباً 80 فی صد آبادی خوراک کی قلت کے سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ غیریقینی مستقبل، عدم تحفظ، دھماکے، فائرنگ، قتل و غارت گری یہ سب تو یمنی عوام روز دیکھ رہے ہیں، لیکن اب ان کی پوری ایک نسل بہتر تعلیم، معیاری خوراک، محفوظ رہائش اور روزگار کے بہتر مواقع حاصل کرنے سے محروم ہوچکی ہے۔ کسی کو کچھ نہیں پتا کہ وہ کب تک زندہ رہے گا اور اس کے بعد اس کے گھر والوں کا کیا ہوگا۔ شہری انفرااسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا ہے جس کی تعمیر نو بھی ابھی کئی سال ممکن نظر نہیں آتی۔
یمن کی جنگ میں گذشتہ 2 سال سے بہت زیادہ شدت آگئی ہے، لیکن اب بھی کوئی فریق یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جیت گیا ہے یا جیت رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے علاقے میں امن کے لیے بظاہر کئی بار امن مذاکرات کا انعقاد کیا جن میں پرامن حالات کے قیام کے لیے اتفاق بھی کیا گیا لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر یہ مذاکرات پائیدار ثابت نہیں ہوسکے۔
حوثی قبائل پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھیں درپردہ ایران کی حمایت حاصل ہے، دوسری جانب سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمنی حکومت کے اقتدار کو بچانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ کوئی کسی کی بھی مدد کر رہا ہو یا ساتھ دے رہا ہو، اس ساری صورت حال میں نقصان یمن کے شہریوں کا ہو رہا ہے جو برسوں سے جنگ و جدل، دہشت گردی، خوںریزی اور غیریقینی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لاکھوں یمنی باشندے اپنے بسے بسائے گھروں کو چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، جہاں پانی، خوراک اور رہائش کے مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ دواؤں کی فوری دست یابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیوںکہ اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف آنے والے لوگوں میں بہت سے زخمی ہیں اور بہت سے لوگ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے بیمار ہوگئے ہیں۔ علاقے میں آبی ذخائر، فصلیں اور دیگر اہم تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں۔
آخر یہ سب کیوں ہوا؟ بظاہر لگتا تو یہ ہے کہ حوثی قبائل حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت نے ان کو کچلنے کی کوششیں شروع کیں تو جنگ شروع ہوگئی جس میں عالمی برادری نے بھی کردار ادا کیا لیکن ایسا ہے نہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی اسلامی ملکوں کو جنگ کی بھٹی میں دھکیلا گیا تو وہاں وجہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں تھا، سیاسی معاملات یا حکومتیں بچانے کو تو صرف سہارا بنایا گیا اصل وجہ وہاں موجود معدنی وسائل کے ذخائر ہیں۔
یمن بھی قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے، یہاں چھیڑی گئی جنگ کا مقصد صرف باغیوں سے حکومت کو بچانا ہرگز نہیں ہوسکتا، اصل معاملہ تیل و گیس کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے، تیل و گیس کے علاوہ سی فوڈ، کوئلہ، تانبا، سونا اور دیگر معدنی وسائل بھی یمن کے پاس ہیں اور عالمی طاقتیں کسی قیمت پر بھی ان وسائل کو کھونا نہیں چاہتیں، یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ ایک اسلامی ملک کے خلاف دیگر اسلامی ممالک صف آرا ہوجائیں، لیکن ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے، عراق پر امریکی حملے کے وقت متعدد اسلامی ممالک نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا، افغانستان پر امریکا اور نیٹو نے چڑھائی کی تو کوئی اسلامی ملک امریکا بہادر کے سامنے کھڑا نہیں ہوا، یہی صورت حال شام اور یمن کی ہے۔
معاملات کو مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنے کے بجائے جنگ کو آسان طریقہ سمجھ لیا گیا ہے اور تمام ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحت برادر اسلامی ملکوں پر چڑھائی کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ غیرمسلم بڑی طاقتوں کی تو بات ہی کیا، انھیں تو اسلامی ممالک کے وسائل اور سرزمین پر قبضے کا موقع چاہیے ہوتا ہے جو بدقسمتی سے اسلامی ملک خود فراہم کرتے ہیں، کیونکہ ان میں اتحاد و اتفاق کی بہت کمی ہے۔
یمن آگ میں جل رہا ہے اور ہر ملک اپنے اپنے مفادات کے لیے اس میں تیل چھڑک رہا ہے جس کے نتیجے میں یمن مسلسل جل رہا ہے ، اسلامی دنیا کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ سارے مسائل اور تنازعات کا نشانہ صرف اسلامی دنیا ہی کیوں بن رہی ہے؟ لیکن اس بات کے ادراک کے لیے اسلامی دنیا کو متحد ہونا ہوگا جس کے لیے شاید ابھی برسوں انتظار اور مزید کئی ملکوں میں بحران کا سامنا کرنا ہوگا۔
اسلامی ملکوں کے درمیان مختلف معاملات پر کشیدگی پائی جاتی ہے اور اس سے بڑا المیہ یہ کہ مسلم دنیا اپنے مسائل کے حل اور تنازعات کے تصفیے کے لیے خود کوئی قدم اٹھانے کے بجائے عالمی طاقتوں اور دیگر اداروں کی جانب دیکھتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی بھی مسئلے، تنازع یا بحران کا پرامن نتیجہ نہیں نکلتا۔
یمن بھی ان اسلامی ملکوں میں شامل ہے، جہاں اندرونی اختلافات ہیں اتنی شدت آئی کہ اب معاملہ عالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ امریکا روس سمیت تمام بڑے ممالک اپنی اپنی پالیسیوں اور مفادات کے تحت یمن کے حوالے سے بیان بھی داغ رہے ہیں اور اقدامات بھی اپنے مفاد کے تناظر میں ہی کر رہے ہیں۔
اگر یمن کے حوالے سے حالات و واقعات پر نظر ڈالی جائے اور ساری صورت حال کا موازنہ کیا جائے تو بات واضح ہوتی ہے کہ یہ صرف گذشتہ 2,3 سال سے جاری جنگ و جدل یا اقتدار کی کشمکش نہیں، اس کے پس منظر میں تاریخی واقعات کا پورا سلسلہ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یمن میں گذشتہ برسوں میں ایسا کیا ہوا جس نے پورے یمن کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ۔ اکتوبر 2000 میں یمن کے شہر عدن میں القاعدہ نے امریکی بحری جہاز پر حملہ کیا جس میں 17 امریکی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ امریکا سمیت دنیا بھر میں اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی اور امریکی انتظامیہ نے ذمے داروں کو ہر قیمت پر انجام تک پہنچانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ بظاہر یہ ایک دہشت گردی کا واقعہ تھا لیکن بہت سے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق القاعدہ نے یمن دشمنی میں یہ کارروائی کی، نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی قوتیں یمن کی طرف متوجہ ہوگئیں اور ہر ایک کو دہشت گردوں کی سرکوبی کے بہانے خطے میں قدم جمانے کا موقع ملا۔
اس کے بعد فروری 2001 میں یمن میں منعقدہ میونسپل الیکشن اور ریفرنڈم نے سارا سیاسی منظر نامہ بدل دیا۔ اس ریفرنڈم نے صدارتی مدت میں توسیع اور صدارتی اختیارات میں اضافے کی منظوری دی تھی، ایک حلقے کی جانب سے اس ریفرنڈم کو جانب دارانہ اور من پسند نتائج حاصل کرنے کی چال کہا گیا اور حکومت پر شدید تنقید کی گئی جب کہ حکومت کی جانب سے ان باتوں کی تردید کی جاتی رہی۔
امریکی بحری جہاز پر حملے کے بعد پورے یمن میں القاعدہ کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن جاری رہا۔ 2002 میں القاعدہ کے ہم خیال 100 سے زاید مذہبی راہ نماؤں کو یمن سے نکال دیا گیا۔ دوسری جانب القاعدہ کی بھی کارروائیاں جاری تھیں اور اکتوبر 2002 میں القاعدہ کے جنگجوؤں نے خلیج عدن میں بڑے تیل بردار جہاز ایم سی لمبرگ (MV Limburg) کو حملہ کرکے شدید نقصان پہنچایا، اس حملے میں ایک شخص اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کے بعد القاعدہ جنگجوؤں اور ان کی مبینہ پناہ گاہوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں، درجنوں شدت پسند مختلف کارروائیوں میں مارے گئے جب کہ درجنوں کو گرفتار کیا گیا۔
2004 میں شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے حوثی قبائل نے یمنی حکم رانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا، حوثی قبائل جن کو یمن کی حکومت نے ''باغی'' قرار دے دیا ہے، حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے اور ان مظاہروں اور احتجاج کے دوران پرتشدد کارروائیاں بھی ہوئیں جس کے بعد پورے ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت طاری ہوگئی جو 13 سال گزرنے کے بعد اب بھی جاری ہے، بل کہ اب تو اس میں بہت شدت آچکی ہے۔
حوثی قبائل کے راہ نما حسین الحوثی نے بارہا یمن کے حکمرانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، دوسری جانب یمنی فوج کی حوثی قبائل کے خلاف کارروائیاں بھی جاری رہیں جن میں درجنوں حوثی مارے گئے۔ 2004 میں یمن میں 2 بڑے واقعات ہوئے، اگست میں یمنی عدالت نے خلیج عدن میں تیل بردار جہاز وی ایم لمبرگ پر حملے، دہشت گردی اور دیگر سنگین الزامات کے تحت 15 افراد کو سزا سنائی جب کہ اسی سال ستمبر میں یمنی حکومت نے اعلان کیا کہ اس نے حوثی باغیوں کے مرکزی راہ نما حسین الحوثی کو ہلاک کردیا ہے۔ اس واقعے کے بعد یمنی فورسز اور حوثی قبائل کے راہ نما حسین الحوثی کے حامیوں کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی جس میں مختلف اوقات میں سیکڑوں افراد لقمہ اجل بنے۔
2005 میں یمنی صدر صالح نے حکومت اور حوثیوں کے درمیان ایک معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ باغیوں نے عام معافی کی صورت میں اپنی کارروائیاں بند کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس اعلان کے بعد کچھ عرصے تک یمن میں حالات قابل ذکر حد تک پرامن رہے لیکن بعض علاقوں میں جھڑپیں جاری رہیں۔ مارچ 2006 میں حکومت نے حسین الحوثی کے تقریباً 600 حامیوں کو معاہدے کے تحت رہا کردیا۔ اسی سال صدر صالح دوبارہ صدارتی الیکشن جیت گئے۔
2007 میں بھی حکومت اور حوثیوں کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں، سیکیوریٹی فورسز کے آپریشن میں درجنوں باغی ہلاک کیے گئے، جون 2007 میں حوثیوں کے راہ نما عبدالمالک الحوثی نے سیز فائر پر رضامندی ظاہر کی لیکن اس جنگ بندی کے باوجود مکمل امن کا راستہ ہموار نہ ہوسکا اور مختلف اوقات میں جھڑپیں جاری رہیں جن کے دوران درجنوں افراد مارے گئے۔
2008 یمن کے لیے زیادہ سنگین صورت حال کا پیشہ خیمہ ثابت ہوا جب مسلسل بم دھماکوں نے پورے ملک کو لرزا کر رکھ دیا۔ سیاحتی مراکز، پولیس، سرکاری افسران اور ان کی املاک اور امریکی سفارت خانے پر کیے گئے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر باغیوں کو کچلنے کا مطالبہ اور تدابیر زور پکڑ گئیں۔ ستمبر 2008 میں یمن کے دارالحکومت صنعا میں واقع امریکی سفارت خانے پر بم حملے میں 18 افراد ہلاک ہوگئے تھے، اس کے بعد ملک بھر میں حکومت مخالف گروپوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تیز کردیے گئے۔
2001 میں جب تیونس کے حکم رانوں کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تو اس کو دیکھتے ہوئے یمن سمیت دیگر ممالک کے عوام بھی اپنی اپنی حکومتوں کی پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر آگئے۔ ان مظاہروں کی شدت کو دیکھتے ہوئے یمنی صدر صالح نے اعلان کیا بل کہ وعدہ کیا کہ وہ 2013 میں دوبارہ صدارتی منصب نہیں سنبھالیں گے اور عنان اقتدار اپنے بیٹے کے حوالے کردیں گے۔ نومبر 2011 میں صدر صالح نے منصب صدارت اپنے نائب منصور ہادی کو دینے کا اعلان کیا اور فروری 2012 میں منصور ہادی نئے یمنی صدر بن گئے۔ نومبر 2012 میں ہی ایک سعودی سفارتی اہل کار اپنے محافظ سمیت نامعلوم افراد کے حملے کا نشانہ بنا۔
2014 میں حکومت اور باغیوں کے درمیان جاری جنگ میں بہت شدت آگئی، اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ یمنی حکومت اپنا اقتدار کھوتی جا رہی ہے، کیوںکہ حوثی قبائل نے جنھیں یمنی حکومت باغی کہتی ہے، دارالحکومت صنعا کے اکثر علاقوں پر قابض ہوچکے تھے۔ صورت حال اتنی مخدوش ہوئی کہ فروری 2015 میں صدر ہادی کو صدارتی محل چھوڑ کر پناہ کے لیے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔ مارچ 2015 میں داعش بھی یمن میں بڑے پیمانے پر سرگرم ہوگئی اور 2 خودکش بم دھماکوں میں 137 افراد کی ہلاکت نے علاقے میں داعش کی موجودگی کا ثبوت دے دیا۔
جب حالات یمنی حکومت کے ہاتھوں سے نکلنے لگے تو سعودی اتحاد نے باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کردیں تاکہ صدر ہادی کی حکومت کو بچایا جاسکے۔ جون 2015 میں امریکی ڈرون حملے میں خطے میں القاعدہ کا سرکردہ راہ نما ناصر ال وہیشی (Nasser Al Wuhayshi) مارا گیا۔ ستمبر 2015 میں اتحادی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں حوثی قبائل کا زور ٹوٹ گیا اور ان کے زیرقبضہ کئی علاقے حکومتی فورسز نے اپنے قبضے میں لے لیے، جس کے نتیجے میں صدر ہادی کی صدارتی محل میں واپسی کا راستہ ہموار ہوا۔
2016 میں اقوام متحدہ کے تحت یمن تنازعے کے فریقین کے درمیان امن مذاکرات کے بھی کئی دور ہوئے، اس دوران حکومت اور باغیوں میں جھڑپیں بھی ہوتی رہیں جب کہ داعش کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات کی گونج بھی سنائی دیتی رہی جن میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔
یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حکومت اور باغی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں، باغیوں کو کچلنے کے لیے سعودی اتحادی فورسز کے حملے بھی جاری ہیں، یمنی فورسز بھی مختلف علاقوں میں کارروائیاں کر رہی ہیں اور حوثی قبائل بھی حکومت کے خلاف سرگرم ہیں۔ اس ساری صورت حال نے پورے یمن کو جنگ کی بھٹی میں تبدیل کردیا ہے جہاں ہر کوئی اپنے حصے کا تیل ڈال کر آگ کو مزید بھڑکا رہا ہے۔ اس سارے پس منظر کی مختصر تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی طاقتوں اور اداروں نے یمن کی حکومت اور باغیوں کے درمیان تنازع کو طے کرانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کبھی نہیں کیے، زبانی مذمت، امن کی باتیں بہت کی گئیں اور کی جا رہی ہیں، لیکن بااثر ملکوں نے اپنے اپنے مفادات کو ترجیح دے کر تنازعے کو ایک ایسی جگہ لاکھڑا کیا ہے جہاں سے واپسی ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور دکھائی دے رہی ہے۔
اس ساری جنگ و جدل کا افسوس ناک ترین پہلو علاقے میں انسانی حقوق کی انتہائی ابتر صورت حال ہے، عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت یمن کی تقریباً 80 فی صد آبادی خوراک کی قلت کے سنگین مسئلے سے دوچار ہے۔ غیریقینی مستقبل، عدم تحفظ، دھماکے، فائرنگ، قتل و غارت گری یہ سب تو یمنی عوام روز دیکھ رہے ہیں، لیکن اب ان کی پوری ایک نسل بہتر تعلیم، معیاری خوراک، محفوظ رہائش اور روزگار کے بہتر مواقع حاصل کرنے سے محروم ہوچکی ہے۔ کسی کو کچھ نہیں پتا کہ وہ کب تک زندہ رہے گا اور اس کے بعد اس کے گھر والوں کا کیا ہوگا۔ شہری انفرااسٹرکچر تباہ و برباد ہوگیا ہے جس کی تعمیر نو بھی ابھی کئی سال ممکن نظر نہیں آتی۔
یمن کی جنگ میں گذشتہ 2 سال سے بہت زیادہ شدت آگئی ہے، لیکن اب بھی کوئی فریق یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جیت گیا ہے یا جیت رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے علاقے میں امن کے لیے بظاہر کئی بار امن مذاکرات کا انعقاد کیا جن میں پرامن حالات کے قیام کے لیے اتفاق بھی کیا گیا لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر یہ مذاکرات پائیدار ثابت نہیں ہوسکے۔
حوثی قبائل پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھیں درپردہ ایران کی حمایت حاصل ہے، دوسری جانب سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمنی حکومت کے اقتدار کو بچانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ کوئی کسی کی بھی مدد کر رہا ہو یا ساتھ دے رہا ہو، اس ساری صورت حال میں نقصان یمن کے شہریوں کا ہو رہا ہے جو برسوں سے جنگ و جدل، دہشت گردی، خوںریزی اور غیریقینی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لاکھوں یمنی باشندے اپنے بسے بسائے گھروں کو چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، جہاں پانی، خوراک اور رہائش کے مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ دواؤں کی فوری دست یابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کیوںکہ اپنے گھر چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف آنے والے لوگوں میں بہت سے زخمی ہیں اور بہت سے لوگ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے بیمار ہوگئے ہیں۔ علاقے میں آبی ذخائر، فصلیں اور دیگر اہم تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں۔
آخر یہ سب کیوں ہوا؟ بظاہر لگتا تو یہ ہے کہ حوثی قبائل حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت نے ان کو کچلنے کی کوششیں شروع کیں تو جنگ شروع ہوگئی جس میں عالمی برادری نے بھی کردار ادا کیا لیکن ایسا ہے نہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی اسلامی ملکوں کو جنگ کی بھٹی میں دھکیلا گیا تو وہاں وجہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں تھا، سیاسی معاملات یا حکومتیں بچانے کو تو صرف سہارا بنایا گیا اصل وجہ وہاں موجود معدنی وسائل کے ذخائر ہیں۔
یمن بھی قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے، یہاں چھیڑی گئی جنگ کا مقصد صرف باغیوں سے حکومت کو بچانا ہرگز نہیں ہوسکتا، اصل معاملہ تیل و گیس کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے، تیل و گیس کے علاوہ سی فوڈ، کوئلہ، تانبا، سونا اور دیگر معدنی وسائل بھی یمن کے پاس ہیں اور عالمی طاقتیں کسی قیمت پر بھی ان وسائل کو کھونا نہیں چاہتیں، یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ ایک اسلامی ملک کے خلاف دیگر اسلامی ممالک صف آرا ہوجائیں، لیکن ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے، عراق پر امریکی حملے کے وقت متعدد اسلامی ممالک نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا، افغانستان پر امریکا اور نیٹو نے چڑھائی کی تو کوئی اسلامی ملک امریکا بہادر کے سامنے کھڑا نہیں ہوا، یہی صورت حال شام اور یمن کی ہے۔
معاملات کو مذاکرات کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنے کے بجائے جنگ کو آسان طریقہ سمجھ لیا گیا ہے اور تمام ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحت برادر اسلامی ملکوں پر چڑھائی کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ غیرمسلم بڑی طاقتوں کی تو بات ہی کیا، انھیں تو اسلامی ممالک کے وسائل اور سرزمین پر قبضے کا موقع چاہیے ہوتا ہے جو بدقسمتی سے اسلامی ملک خود فراہم کرتے ہیں، کیونکہ ان میں اتحاد و اتفاق کی بہت کمی ہے۔
یمن آگ میں جل رہا ہے اور ہر ملک اپنے اپنے مفادات کے لیے اس میں تیل چھڑک رہا ہے جس کے نتیجے میں یمن مسلسل جل رہا ہے ، اسلامی دنیا کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ سارے مسائل اور تنازعات کا نشانہ صرف اسلامی دنیا ہی کیوں بن رہی ہے؟ لیکن اس بات کے ادراک کے لیے اسلامی دنیا کو متحد ہونا ہوگا جس کے لیے شاید ابھی برسوں انتظار اور مزید کئی ملکوں میں بحران کا سامنا کرنا ہوگا۔