سپریم کورٹ کے کردار پر تحفظات ہیںچیرمین نیب کا صدرکوخط
احکامات پر عمل کیلئے مناسب وقت نہیں دیاجاتا، کامران فیصل کیس میں میڈیا خفیہ ایجنسیوں کا کرداراداکررہا ہے۔ چیئرمین نیب
نیب کے سربراہ فصیح بخاری نے صدر آصف زرداری کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ نیب پر سپریم کورٹ کا دباؤ ہے، معاملہ حل نہ ہوا تو مستعفی ہو جاؤں گا۔
خط کےمتن کےمطابق چئیرمین نیب فصیح بخاری نےسپریم کورٹ کے کردارکےبارےمیں اپنےتحفظات کااظہارکرتے ہوئے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کےدباؤسے نیب افسران پریشان ہیں، احکامات پر عمل کے لئے مناسب وقت نہیں دیاجاتا، کامران فیصل کیس میں بعض میڈیا کے ذرائع خفیہ ایجنسیوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔
چئیرمین نیب نےمزید لکھا ہے کہ میڈیا کے ایک سیکشن نےانہیں بدنام کرنے کی کوشش کی، سپریم کورٹ کو خوش کرنے کے لئےمیڈیا مہم کےذریعےان پردباؤ ڈالا جارہا ہے اس سارے عمل کو انتخابات سے پہلے دھاندلی کے طور پر بھی لیا جاسکتا ہے، انہوں نے لکھا ہےکہ عدالت کے تحریری اور زبانی احکامات میں فرق ہوتا ہے، انسانی حقوق پر از خود نوٹس لینے کی اہلیت حکومت کو کمزور کرنے کا کھلا لائسنس ہے ازخود نوٹسز عدالتوں میں پہلے سے تاخیر کا شکار کیسز کو مزید التواء میں ڈال سکتے ہیں اورجلد انصاف نہ ہونے کی وجہ سے لوگ قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ قانون کی روح سے معاشرے کو اخلاقی طور پر ایک معیار دینا ہوتا ہے، توہین عدالت، قانون ،میڈیا، وکلاء اور سپریم کورٹ کے ججوں کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے عدلیہ یہ معیار تیزی سے کھو سکتی ہے۔
خط کےمتن کےمطابق چئیرمین نیب فصیح بخاری نےسپریم کورٹ کے کردارکےبارےمیں اپنےتحفظات کااظہارکرتے ہوئے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کےدباؤسے نیب افسران پریشان ہیں، احکامات پر عمل کے لئے مناسب وقت نہیں دیاجاتا، کامران فیصل کیس میں بعض میڈیا کے ذرائع خفیہ ایجنسیوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔
چئیرمین نیب نےمزید لکھا ہے کہ میڈیا کے ایک سیکشن نےانہیں بدنام کرنے کی کوشش کی، سپریم کورٹ کو خوش کرنے کے لئےمیڈیا مہم کےذریعےان پردباؤ ڈالا جارہا ہے اس سارے عمل کو انتخابات سے پہلے دھاندلی کے طور پر بھی لیا جاسکتا ہے، انہوں نے لکھا ہےکہ عدالت کے تحریری اور زبانی احکامات میں فرق ہوتا ہے، انسانی حقوق پر از خود نوٹس لینے کی اہلیت حکومت کو کمزور کرنے کا کھلا لائسنس ہے ازخود نوٹسز عدالتوں میں پہلے سے تاخیر کا شکار کیسز کو مزید التواء میں ڈال سکتے ہیں اورجلد انصاف نہ ہونے کی وجہ سے لوگ قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ قانون کی روح سے معاشرے کو اخلاقی طور پر ایک معیار دینا ہوتا ہے، توہین عدالت، قانون ،میڈیا، وکلاء اور سپریم کورٹ کے ججوں کی طرف سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے عدلیہ یہ معیار تیزی سے کھو سکتی ہے۔