چیمپئنز ٹرافی کا سب سے بڑا معرکہ

روایتی حریف پنجہ آزمائی کیلیے تیار۔


Abbas Raza June 04, 2017
روایتی حریف پنجہ آزمائی کیلیے تیار۔ فوٹو: اے ایف پی

پاک بھارت مقابلوں کو کرکٹ کی جان کہا جاتا ہے،ایک ایک گیند کیساتھ دونوں ملکوں کے عوام کے دل کی دھڑکنیں بھی تیز ہو رہی ہوتی ہیں،ایک اندازے کے مطابق روایتی حریفوں کا میچ ارب سے زائد شائقین کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔

ٹی وی پر ورلڈکپ 2011کا سیمی فائنل دیکھنے والے افراد کی تعداد 98کروڑ 80لاکھ بتائی گئی تھی، جس کے بعد اگلے میگا ایونٹ میں میچ کے ٹکٹ صرف 12منٹ میں ہی فروخت ہوگئے تھے،سیاسی کشیدگی کی وجہ سے دونوں پڑوسی ملکوں کے باہمی مقابلے ایک عرصہ سے تعطل کا شکار ہیں، شائقین کو ان کے مقابلے اب عالمی ٹورنامنٹس کے دوران ہی دیکھنے کو ملتے ہیں،روایتی حریفوں کے مابین ابھی تک مجموعی طور پر 127ون ڈے میچ کھیلے جاچکے ہیں،ان میں سے پاکستان نے 72میں فتح پائی، 51میں بھارت کو کامیابی حاصل ہوئی،4بے نتیجہ رہے،ورلڈکپ ٹورنامنٹس میں گرین شرٹس 6مقابلوں میں ایک بار بھی سرخرو نہیں ہوسکے۔

چیمپئنز ٹرافی میں کھیلے جانے والے 3میچز میں 2فتوحات ہاتھ آئی ہیں،اس میگا ایونٹ میں پاکستان کے ناقابل شکست رہنے کا بھرم گزشتہ ٹاکرے میں ٹوٹ گیا تھا،جون 2013میں دونوں ٹیمیں برمنگھم میں مقابل ہوئیں تو بھارت نے 8 وکٹ سے کامیابی حاصل کی، گرین شرٹس صرف 165رنز پر ڈھیر ہوگئے تھے،اسد شفیق41، محمد حفیظ اور عمر امین 27،27، کپتان مصباح الحق 22، کامران اکمل 21رنز کی مزاحمت کرپائے تھے،بھونیشور کمار، امیش یادو، ایشانت شرما، روی چندرن ایشون اور اجے جڈیجا نے 2،2شکار کئے۔

بھارت نے شیکھر دھون(48) کی بدولت 19.2 اوورز میں 2وکٹوں کے نقصان پر 102رنز بنائے تھے کہ بارش نے مداخلت کردی،ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ کے تحت مہندار سنگھ دھونی الیون فاتح قرار پائی۔چیمپئنز ٹرافی کے بعد دونوں ٹیمیں اگلے سال مارچ میں ایشیا کپ میں مقابل ہوئیں۔اس بار شاہد آفریدی نے یادگار اننگز کھیلتے ہوئے فتح چھین لی،بھارتی ٹیم نے امباتی رائیدو58،روہت شرما 56اور اجے جڈیجا کے ناقابل شکست 52رنز سے تقویت پاتے ہوئے 8وکٹ پر 245رنز بنائے، سعید اجمل3،محمد حفیظ، محمد طحٰہ 2،2 اور عمر گل ایک شکار کرنے میں کامیاب ہوئے۔

جواب میں پاکستان ٹیم مشکلات کا شکار ہوئی، 235سے 236رنز کے سفر میں 4وکٹ گنوائیں،شاہد آفریدی نے آخری اوور میں ایشون کو لگاتار چھکے جڑتے ہوئے ناممکن کو ممکن کردکھایا،سنسنی خیز مقابلے میں صرف ایک وکٹ سے فتح پر پوری قوم نے شادیانے بجائے،روی چندرن ایشون 3، بھونیشور کمار اورامیت مشرا 2،2 حاصل کرکے بھی اپنی ٹیم کو شکست سے نہ بچاپائے۔

تیسرا ٹاکرا ورلڈکپ 2015میں ہوا، بھارت نے ویرات کوہلی 107، سریش رائنا 74 اور شیکھر دھون73کی بدولت 7وکٹ پر 300رنز بنا ڈالے، سہیل خان5، وہاب ریاض ایک وکٹ اڑانے میں کامیاب ہوئے، جواب میں پاکستان کی کوشش 224تک محدود رہی، کپتان مصباح الحق 76، احمد شہزاد 47 کی مزاحمت کے باوجود ٹیم کی نیا پار نہ لگاسکے،محمد شامی4، امیش یادو اور موہت شرما2،2، روی چندرن ایشون اور اجے جڈیجا ایک ایک کو پویلین بھیجنے میں کامیاب رہے۔

اب دونوں ٹیمیں چیمپئنز ٹرافی میں ایک بار پھر آمنے سامنے ہورہی ہیں، اس بار میگا ایونٹ کے لیے تیار کی جانے والی پچز خاصی سپورٹنگ نظر آرہی ہیں، ان پر ابھی تک بڑے ٹوٹل بن رہے ہیں لیکن آسمان پر بادل ہوں تو سوئنگ کو کھیلنا پاکستانی بیٹنگ لائن کے لیے آسان نہیں ہوگا، گرین شرٹس کو ان کنڈیشنز میں مزاحمت کرنے کے حوالے سے اچھا ریکارڈ رکھنے والے مصباح الحق اور یونس خان کی خدمات بھی میسر نہیں،تمام ٹیموں نے ٹاپ آرڈر میں جارحانہ مزاج کے حامل بیٹسمین متعارف کروائے ہیں۔

شرجیل خان جدید کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے نظر آرہے تھے، تاہم اوپنر کو پی ایس ایل سپاٹ فکسنگ کا بھوت نگل گیا، ان کا خلا پر کرنے کے لیے اظہر علی کی شمولیت پر سوالیہ نشان موجود ہے،ون ڈے ٹیم کی قیادت چھوڑنے کیساتھ ویسٹ انڈیز کے لیے سکواڈ میں بھی جگہ نہ بناپانے کے بعد اوپنر کم بیک پر پہلا ہی میچ بھارت کے خلاف کھیلنے کا چیلنج ملنے پر بے پناہ دباؤ میں ہونگے۔

احمد شہزاد تینوں فارمیٹ کی قومی ٹیموں میں واپس تو آئے لیکن ان کی بیٹنگ میں ماضی جیسا جارحانہ پن کہیں کھوگیا ہے،محمد حفیظ کی سوئنگ بولنگ پر کمزوریاں کئی بار آشکار ہوچکی ہیں، ان کو بطور سینئر حق ادا کرنا ہوگا، بابر اعظم سکور بورڈ کو متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، ان کو اننگز کے آخر تک ایک اینڈ سنبھالے رکھنے کی ذمہ داری اٹھانا ہوگی، شعیب ملک اور کپتان سرفراز احمد اپنی صلاحیتیں اور تجربہ دونوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بڑے سکور کی راہ ہموار کرسکتے ہیں، عمر اکمل کو پاور ہٹر کے طور پر آزمانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا لیکن وہ غیر معیاری فٹنس کی بنیاد پر وطن واپس بھجوائے جاچکے ہیں،انجری کی وجہ سے ایک عرصہ ٹیم سے باہر رہنے والے حارث سہیل اس برق رفتاری سے رنز نہ بناسکتے تھے،انہیں بھارت کے خلاف میچ نہ کھلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

عماد وسیم گزشتہ دورہ انگلینڈ میں بیٹ اور بال دونوں کے ساتھ عمدہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوئے تھے، ون ڈے ڈیبیو کے منتظر فہیم اشرف نے بنگلہ دیش کے خلاف وارم اپ میچ میں جارحانہ بیٹنگ سے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا تھا،تجربہ نہ ہونے کے باوجود ان کو آزمانے کا جوا کھیلا جاسکتا ہے، تاہم اس کے لیے شاداب خان کو باہر بیٹھنا ہوگا، عماد وسیم، شعیب ملک اور محمد حفیظ کی موجودگی میں سپنر شاداب خان کی شاید جگہ نہ بنے، پیسرز میں محمد عامر کے ساتھ حسن علی انگلش کنڈیشنز میں پرفارم کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، وہاب ریاض گھٹنے کی انجری کے سبب اپنا کیس کمزور کربیٹھے تھے لیکن ان کو جنید خان پر ترجیح دینے کا فیصلہ کیا گیا، فہیم اشرف کو چوتھے پیسر کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب بھارتی ٹیم خاصی متوازن ہے، میگا ایونٹس کا دباؤ برداشت کرتے ہوئے اچھی کارکردگی دکھانے کی صلاحیت رکھنے والے کئی کھلاڑی موجود ہیں،اوپنرز روہت شرما اور شیکھر دھون کسی بھی بولنگ اٹیک کو تہس نہس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ویرات کوہلی، اجنکیا راہنے، دنیش کارتھک اور کیدر جادیو مڈل آرڈرمیں استحکام کی علامت ہیں،مہندرا سنگھ دھونی نہ صرف بیٹنگ بلکہ قیادت میں بھی ویرات کوہلی کو بھرپور سپورٹ کرتے ہوئے ٹیم میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔

یوراج کا جارحانہ پن حریف بولرز کے حوصلے پست کرتا ہے، سپنرز اجے جڈیجا بیٹ اور بال دونوں سے بارہا اپنی افادیت ثابت کرچکے ہیں، بھونیشور کمار اور امیش یادیو نئی گیند سے ٹاپ آرڈر کو پریشان کرتے ہیں تو محمد شامی اور جسپریت بمرابھی اچھی لائن لینتھ سے رنز کا حصول دشوار بنادیتے ہیں،ہردیک پانڈیا کو بھی بطور آل راؤنڈر آزمانے کا آپشن بھی موجود ہے،ان میں سے پلیئرز تو 11ہی کھیلیں گے، تاہم ویرات کوہلی اور مینجمنٹ کو کنڈیشز کے مطابق ٹیم بنانے کے لیے زیادہ موثر ہتھیار میسر ہیں۔

کامیاب دورہ ویسٹ انڈیز کے باوجود پاکستان کو اوپنرز سمیت بیٹنگ آرڈر کی پلاننگ پر نئے سرے سے غور کرنا ہے، دونوں ٹیموں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ گرین شرٹس ایک عرصہ سے فکرمند ہونے کے باوجود خود کو جدید کرکٹ کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کرپائے جبکہ بھارتی کرکٹرز آئی پی ایل سے حاصل ہونے والے تجربے کی بدولت بڑے سٹروکس اور گیپ میں کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،گو پاکستان کی فیلڈنگ میں بہتری آئی ہے لیکن اکثر میگا ایونٹ کے دباؤ سے بھرپور میچ میں کھلاڑیوں کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں،اس بار بھی جتنی کم غلطیاں ہونگی۔

حریف کی پلاننگ کمزور کرنے میں مدد ملے گی، متوازن ٹیم کی موجودگی میں ویرات کوہلی اور مینجمنٹ کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا زیادہ مشکل نہیں ہوگا،دوسری جانب پاکستانی کپتان دہرے دباؤ کا شکار ہونگے،مصباح الحق اور ان کے ناکام جانشین اظہر علی کی نسبت جارحانہ انداز میں قیادت کرنے والے سرفراز احمد نے ویسٹ انڈیز کیخلاف سیریز میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، ٹیم کی سوچ میں تھوڑی تبدیلی اور توانائی نظر آئی لیکن کسی میگا ایونٹ میں ان کا یہ پہلا امتحان ہے۔

ویسٹ انڈیز اور یواے ای سے قطعی مختلف کنڈیشنز میں 300سے زائد رنز معمول بن چکے ہیں،اوپنرز میں اظہر علی اور احمد شہزاد کا خوف ہی ختم نہ ہوا تو بعد میں آنے والے بیٹسمین دباؤ کا شکار ہوتے چلے جائیں گے،آخری 10اوورز میں بولرز کی درگت بنانے والے پاور ہٹر بھی میسر نہیں، فہیم اشرف کی بنگلہ دیش کے خلاف جارحانہ اننگز روز روز دیکھنے میں نہیں آتی،دورہ ویسٹ انڈیز میں بعض غلطیوں پر ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور جذبات پر قابو نہ رکھ پانے والے سرفراز احمد کا اصل امتحان چیمپئنز ٹرافی،خاص طورپر بھارت کے خلاف میچ ہے۔

پاکستان کی کامیابی کا واحد فارمولا یہی ہے کہ بھارتی ٹیم کی قوت کو دیکھتے ہوئے کسی خوف کا شکار ہونے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کے بہترین استعمال پر توجہ دے،بیٹسمین نیچرل کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر کمزور گیند پر رنز بٹورنے کی کوشش کریں،بولرز غیر ضروری زور لگانے کے بجائے فیلڈنگ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی لائن اور لینتھ بہتر رکھیں۔

ماضی میں کئی بار پاکستان نے ابتدا میں وکٹیں جلد حاصل کرنے کے باوجود ناقص بولنگ اور ڈراپ کیچز کی وجہ سے بھارتی ٹیم کو میچ میں واپسی کا موقع دے دیا،اس بار ایک یونٹ بن کر ان مسائل پر قابو پانا ہوگا،قومی کی توقعات کا بوجھ اپنی جگہ لیکن کامیابی میدان میں بہتر کارکردگی دکھانے سے ہی حاصل ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں