لاپتہ شہری کی بازیابی سے متعلق درخواست پر دوبارہ نوٹس جاری

سندھ ہائیکورٹ نے مدرسے کے طالب علم کی گمشدگی کی درخواست پر حساس اداروں کے سربراہوں سے جواب طلب کرلیا

سندھ ہائیکورٹ نے مدرسے کے طالب علم کی گمشدگی کی درخواست پر حساس اداروں کے سربراہوں سے جواب طلب کرلیا. فوٹو فائل

سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سوات کے رہائشی کی غیر قانونی حراست کے خلاف دائر درخواست پر حساس اداروں،وفاقی و صوبائی وزارت داخلہ،ڈی جی ایف سی ،ڈی جی رینجرز،آئی جی سندھ اور دیگر کو10اگست کیلیے دوبارہ نوٹس جاری کردیے۔

منگل کو سماعت کے موقع پر ایس ایچ او سعید آباد نے بتایا کہ مذکورہ شہری ان کی تحویل میں نہیں، طارق احمد نے ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم آئی اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ درخواست گزرا کا بھائی باچا احمد سوات کا رہائشی ہے اور4سال سے سعید آباد کراچی میں اپنے خاندان کے ہمراہ مقیم ہے، وہ 5جون 2012کو اپنے دوستوں پیر بخش اور سعید ولی کے ہمراہ اپنے ایک اور دوست ناصر احمد سے ملاقات کیلیے پولیس ٹریننگ سینٹر سعید آباد گیا،واپسی پر فٹبال گرائونڈ کے نزدیک پولیس اہلکاروں نے انھیں گرفتار کرلیا اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے گئے۔

کچھ دور جا کر پیر بخش کو چھوڑدیا جبکہ سعید بخش بھی موقع دیکھ کرفرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، 6جون کو ایس ایچ اوسعیدآباد سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ تین چارگھنٹوں میں باچا احمد کو رہا کردیا جائے گاکیونکہ باچا احمد کو تاحال باقاعدہ گرفتار نہیں کیا گیا،علا وہ ازیں سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مدرسے کے طالب علم کی گمشدگی کے خلاف دائر درخواست پر آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہوں کو 9اگست کیلیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔


منگل کو سماعت کے موقع پر ایس ایچ او سچل تھانہ اور سی آئی ڈی پولیس کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتہ عبدالماجد ان کی تحویل میں نہیں،سید عبدالوحید ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر کردہ درخواست میں مسمات آمنہ نے ڈی جی ایم آئی ،ڈی جی آئی ایس آئی ،وفاقی و صوبائی وزارت داخلہ وفاقی و صوبائی وزارت داخلہ، آئی جی سندھ،ایس ایچ او ملیر اور ایس ایچ او سچل کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کا بیٹا عبدالماجدخدا کی بستی کوٹری کا رہائشی اور مدرسے میں مولوی فاضل کورس کا طالب علم ہے۔

18 اکتوبر 2008کو اپنے عزیزوں سے ملنے کراچی آیا تھا، اسے حساس اداروں نے حراست میں لے لیا مگر کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، 25جون 2012 کو ایک شخص حساس اداروں کی تحویل سے رہائی پاکر لوٹا تو اس نے بتایا ہے کہ عبدالماجد بھی حساس اداروں کی تحویل میں ہے، دریں اثنا حیدرآبادسے لاپتہ ہونے والے قوم پرست تنظیم جئے سندھ متحدہ محاز (جسمم)کے گمشدہ کارکن فقیر نجیب قریشی کی بازیابی کے لیے عدالتی تحقیقات کا ریفرنس ہوم ڈپارٹمنٹ کو بھیج دیا گیا ہے، متعلقہ ایس ایچ او کو معطل کردیا گیا ہے ۔

یہ بات ڈی آئی جی حیدرآباد نے سندھ ہائیکورٹ کو بتائی ، جسٹس سیدحسن اظہر رضوی اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل دورکنی بینچ نے ڈی آئی جی حیدرآباد کو شفاف انکوائری کا حکم دیتے ہوئے ہفتہ وار پروگریس رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
Load Next Story