18 کروڑ عوام کے لیے کچھ نئے مطالبات

دہشت گردی کا موسم تو اتنا طویل ہو گیا ہے کہ اس نے قوم کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔


Ayaz Khan January 28, 2013
[email protected]

سوچتا ہوں مطالبات کی ایک فہرست تیار کروں اور 18کروڑ عوام کے سامنے رکھ دوں۔ لانگ مارچ اور دھرنوں کے موسم میں مطالبات کا ''تڑکا''سیاست کے مزے کو دوبالا کر رہا ہے کیوں نہ میں بھی اس میں اپنا حصہ ڈالوں۔ میں چاہتا ہوں میرے مطالبات ایسے ہوں جو شدید سردی میں لوگوں کو سنہری دھوپ جیسے محسوس ہوں یا انھیں ایسا لگے جیسے آتش دان کے قریب بیٹھے ہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے، مجھے اچانک مطالبات پیش کرنے کی تجویز کیوں سوجھی...؟ دراصل میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے اس کا حق حاصل ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ میں فی الوقت پکا پاکستانی ہوں کیونکہ میرے پاس دہری شہریت نہیں ہے۔ میری یہ حیثیت مجھے مطالبات پیش کرنے، لانگ مارچ اور دھرنے کا اختیار دیتی ہے حتیٰ کہ میں الیکشن بھی لڑ سکتا ہوں، لیکن میں الیکشن نہیں لڑوں گا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو انتخابی مہم چلانے کے لیے میرے پاس فنڈز نہیں ہیں اور دوسرا میرے پاس کوئی ایسا سہارا بھی نہیں ہے جو مجھے کامیاب کرا دے اور میں اسمبلی میں پہنچ جائوں۔یہ میرے جیسے سب پاکستانیوں کی مجبوری ہے ورنہ میں اکیلا نہیں اٹھارہ کروڑ عوام الیکشن لڑنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

وطنِ عزیز پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ یہاں چاروں موسم پائے جاتے ہیں۔ شدید سردی پڑتی ہے تو گرمی بھی ''کڑاکے'' نکال دیتی ہے، خزاں بھی بھرپور ہوتی ہے اور بہار کا جوبن بھی دیکھنے کے لائق ہوتاہے۔ یہ تو قدرتی موسم ہیں، ان کے ساتھ ساتھ ہمارے ''اپنے'' موسم بھی جاری رہتے ہیں۔ دہشت گردی کا موسم تو اتنا طویل ہو گیا ہے کہ اس نے قوم کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کا موسم بھی مسلسل جاری ہے۔ چوری، ڈکیتی، رہزنی اور رشوت خوری کا موسم بھی سارا سال جاری رہتا ہے۔

یہ سارے موسم مل کر خودکشیوں کے موسم کو جنم دیتے ہیں۔ ان دنوں جس موسم کا عروج ہے وہ لانگ مارچ اور دھرنوں کا موسم ہے۔ موجودہ جمہوری دور کے آغاز پر ایک لانگ مارچ میاں نواز شریف نے کیا تھا جو لاہور سے گوجرانوالہ تک ہی پہنچ پایا تھا کہ عدلیہ بحال ہو گئی اور اسلام آباد میں دھرنے کی نوبت نہیں آئی۔میاں صاحب کا یہ دھرنا کامیاب دھرنا کہلاتا ہے۔ اس کے بعد عمران خان نے بھی لانگ مارچ کیے مگر وہ اتنے قابل ذکر نہیں تھے۔ اب تو عوام کو یاد بھی نہیں ہے کہ انھوں نے کوئی دھرنا دیا تھا۔ ان کے دو جلسے البتہ بہت بڑے تھے جن میں پہلا مینار پاکستان لاہور اور دوسرا مزار قائد کراچی شامل ہیں۔ یہ جلسے واقعی شاندار تھے ، انھی جلسوں کی بدولت خان صاحب اقتدار کے کھلاڑیوں میں شامل ہوگئے۔

دھرنوں کا حالیہ موسم دیکھ کر عمران خان بھی پیچھے نہیں رہنے والے ، وہ چارچھ ماہ سے ایک لانگ مارچ کی دھمکی دیتے آ رہے ہیں لیکن اب تک اس کی نوبت نہیں آئی۔ سچی بات ہے خان صاحب کے لانگ مارچ اور دھرنے کا لوگ شدت سے انتظار کر رہے تھے کہ دسمبر میں اچانک ڈاکٹر طاہر القادری 7سال بعد کینیڈا سے وطن واپس آئے۔ 23 دسمبر کو مینار پاکستان کے مقام پر انھوں نے جلسہ کیا جس نے کپتان کے جلسے کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے بعد لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا اور 14 جنوری کو اسلام آباد پہنچ کر ڈیرے ڈال دیے۔ ڈاکٹر صاحب کے مطالبات کی طرح سردی بھی ان دنوں عروج پر تھی۔اس سردی میں سیاسی گرمی بھی عروج پر پہنچ گئی۔

رائے ونڈ لاہور میں میاں نواز شریف کی رہائشگاہ پر اپوزیشن جماعتوں کے لیڈر جمع ہوگئے اور انھوں نے یک زبان ہوکر قادری کو لکارا۔ ادھر حکومت اورڈاکٹر قادری کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوگیا۔ حکومتی ٹیم کے ساتھ 17جنوری کی رات جب معاہدے کے بعد قادری دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تو دھرنے کے شرکاء سخت سردی میں شدید بارش کا عذاب بھی بھگت چکے تھے۔ اس دھرنے کے مابعد اثرات کے طور پر حکومت اور ڈاکٹر طاہر القادری میں تاحال مذاکرات جاری ہیں۔ ان مذاکرات کا انجام ان ٹائم الیکشن ہوتا ہے یا طویل مدت کی عبوری حکومت وجود میں آتی ہے، اس کے بارے میں دو آرا موجود ہیں۔ دھرنے کی بات ہورہی تھی۔

عمران خان نے طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے کی حمایت کی لیکن اس میں شریک نہیں ہوئے۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ اپنا لانگ مارچ علیحدہ کریں گے... اب پھر لگتا تھا عمران خان لانگ مارچ اور دھرنے کے اعلان کو عملی شکل دینے والے ہیں کہ اچانک (ن) لیگ نے دھرنے کا اعلان کر دیا۔ جماعتِ اسلامی اور پیر پگاڑا نے اس دھرنے میں شرکت کا فوری اعلان بھی کر دیا ہے۔ کپتان نے اس دھرنے میں شرکت کا اعلان کیا مگر پارٹی کی شدید مزاحمت پر چُپ سادھ لی۔ یوں ان کا ایک اور دھرنا چرا لیا گیا۔ میری خان صاحب سے درخواست ہے کہ وہ زیادہ سوچ میں نہ پڑا کریں، جو کرنا ہے، فوری کریں ورنہ کبھی قادری اور میاں نواز شریف ان کی وکٹ پر کھیلتے رہیں گے اور وہ اپنی باری کا انتظار کرتے رہ جائیں گے۔

مطالبات سے بات شروع ہوئی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔ اس دوران میں مطالبات کے بارے میں بھی سوچتا رہا لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ ان دنوں تمام سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کی طرف سے ایک جیسے مطالبات ہی سامنے آ رہے ہیں۔ میں چاہتا ہوں قوم کے سامنے کچھ نئے مطالبے رکھے جائیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ لوگ اس فہرست کی تیاری میں میری مدد کریں۔ میری آپ سے صرف ایک اپیل ہے کہ کوئی بھی مطالبہ کرتے وقت زمینی حقائق کو نظر انداز نہ کریں، جیسا کہ لوڈشیڈنگ کا فوری خاتمہ، مہنگائی میں کمی، میرٹ پر ملازمتیں، بدعنوانوں کا کڑا احتساب، سی این جی کی وافر فراہمی، تعلیم اور علاج کی سہولتیں وغیرہ۔ اپنے جائز مطالبات دیں، انھیں ضرور فہرست میں شامل کیا جائے گا۔ اس دوران میں بھی سوچ لیتا ہوں کہ مجھے عوام کے سامنے کون سے مطالبات رکھنے ہیں۔ تب تک اجازت دیں۔...شکریہ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں