ماضی زندہ رہے گا بس

برِ صغیر کی حد تک حیدرآباد دکن کے لوگ آج بھی میر عثمان علی خان کا نام احترام سے لیتے ہیں

بادشاہت سے بڑی دنیاوی خوشی اور بادشاہت سے محرومی جیسا دکھ کوئی اور نہیں۔دونوں کیفیتوں کو صرف ایک عروج یافتہ یا زوال پذیر حکمران ہی سمجھ سکتا ہے۔میرے جیسے اس کے بارے میں صرف ٹامک ٹوئیاں مار سکتے ہیں۔بادشاہ بھلے برقرار رہے نا رہے،اس کی اپنی نفسیاتی دنیا ہوتی ہے۔بادشاہت رہے تو وہ حال میں گڑا رہتا ہے اور چھن جائے تو ماضی میں مستقل رہائش پذیر ہوجاتا ہے۔اس کے ورثا بھی اسی کیفیت سے گذرتے ہیں۔کہیں تیسری اور چوتھی پیڑھی کو سمجھ میں آتا ہے کہ ان کے ساتھ ہوا کیا۔اور جنھیں سمجھ میں آجاتا ہے وہ خود کو بدلے ہوئے حالات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔جنھیں سمجھ میں نہیں آتا وہ ظالم دنیا کے مذاق کا رزق بن جاتے ہیں۔ بہت کم بادشاہ ایسے ہوتے ہیں جو دورِ زوال میں بھی عزت سے یاد کیے جاتے ہیں اور ان کی پیڑھیاں عزت و احترام کے اسی بینک میں جمع پونجی کھاتی رہتی ہیں۔

مثلاً برِ صغیر کی حد تک حیدرآباد دکن کے لوگ آج بھی میر عثمان علی خان کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ٹیپو سلطان کی آج بھی اتنی ہی عزت ہے۔بھوپال کے نواب سر حمید اللہ خان کی یاد میں آج بھی چند بوڑھے آہیں بھرتے رہتے ہیں۔ریاست گوالیار اور جے پور کی رعایا کی دورِ جمہور میں نمایندگی آج بھی اکثر و بیشتر سابق شاہی خاندانوں کے پوت و سپوتوں کے توسط سے ہوتی ہے۔

پاکستان میں سوات کے والی اور بہاولپور کے شاہی خاندان کے دور کو ان کی سابق رعایا آج بھی نہیں بھولی۔اس عزت و احترام کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کچھ حکمرانوں نے اپنے دور میں عام آدمی کی فلاح کے لیے ایسا کچھ ضرور کیا ہوگا کہ لوگ اب تک ان کے دور کا موازنہ آج کے زمانے سے کرنے پر مجبور ہیں۔ ماضی سے نکلنے کے لیے حال اچھا ہونا ضروری ہے۔حال جتنا بد ہوگا ماضی اتنا ہی یاد آتا چلا جائے گا۔

یہ سب کچھ مجھے گذشتہ ہفتے تب بھی یاد آرہا تھا جب سابق نواب بہاول پور محمد صادق عباسی پنجم کے ولی عہد عباس عباسی کے صاحبزادے صلاح الدین عباسی کی مبارک محل ریذیڈنسی میں گھوم رہا تھا۔مجھے یہ بھی یاد آرہا تھا کہ اٹلی کے علاقے میلانو میں ہو بہو اسی طرح کی پرانی حویلیاں بنی ہوئی ہیں۔فرق بس اتنا ہے کہ میلانو کی حویلیوں کی چھت پر کھڑے ہو کر تاحدِ نگاہ سبزہ اور زندگی دکھائی دیتی ہے جب کہ مبارک محل سے تاحدِ نگاہ بھوت زدہ مقفل صادق گڑھ پیلس اور اس کے زوال پذیر لان نظر آتے ہیں۔زندگی محل کے صدر دروازے پر اونگھتے ہوئے ایک سپاہی ، نواب صلاح الدین اور ان کے پانچ چھ وفادار نسلی خدام تک سکڑ کے رھ گئی ہے۔ نواب صاحب کے دونوں بچے بیرونِ ملک رہتے ہیں اور خود نواب صاحب ترکی ٹوپی ، شیروانی ، کولونیل انگریزی لہجے ، عظمتِ رفتہ کی چند تصاویر کے ساتھ سبز وسیع لان میں ایستادہ ماضی میں گڑے درختوں کے درمیان قائم پتھریلی روش پر چلتے ہوئے حال سے رشتہِ وضع داری نبھا رہے ہیں۔یہ اس شخص کی تنہائی ہے جس کی پیدائش پر انیس سو چھیالیس میں نقشے پرموجود ہر یورپی بادشاہت اور ہندوستانی رجواڑے سے تہنیت کا پیغام وصول ہوا تھا۔یہ وہ شہزادہ ہے جو ذرا سا کریدنے پر آج بھی وہ بچہ بن جاتا ہے جو صحرا میں قائم قلعہ دراوڑ کی فصیل پر بیٹھا دور آتے جاتے مویشیوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں کی آوازوں کو ڈوبتے سورج کے پگھلتے سونے کے ساتھ اپنے اندر اتارتا رہتا تھا۔لیکن ڈھلتی عمر ، وقت و حالت کی تنگی و تنہائی اور اپنوں کی لالچی بے اعتنائی نے اس انوکھے لاڈلے کو قدرے تیز مزاج بنا دیا ہے۔

مگر اس کی تیز مزاجی بلاوجہ نہیں۔اس کا کیس بالکل سیدھا ہے۔اور کیس یہ ہے کہ نواب صادق پنجم نے بارضا و رغبت اپنی بادشاہت ترک کرکے جب دو سو اٹھائیس برس پرانی کھاتی پیتی ریاست جناح صاحب کی محبت میں ایک تحریری معاہدے کے تحت پاکستان کے حوالے کردی تو اس ریاست کی حیثیت ، رقبے ، وسائل اور فلاحی خدمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسے تیس اپریل انیس سو اکیاون کو نواب صادق پنجم کی سرپرستی میں پاکستان کا چھٹا صوبہ بنا دیا گیا۔اس کی انچاس رکنی صوبائی اسمبلی وجود میں آئی۔چار برس بعد اس اسمبلی نے پنجاب ، سرحد اور سندھ اسمبلی کی طرح خود کو ون یونٹ نظام کے تحت مغربی پاکستان میں ضم کردیا۔

جب اپریل انیس سو ستر میں ون یونٹ تحلیل کرکے پرانے صوبے بحال ہوئے تو صوبہ بہاول پور مداری کے رومال کی طرح غائب ہوگیا اور جیسے مداری اپنا رومال پھول کی شکل میں جیب سے برآمد کرتا ہے اسی طرح صوبہ بہاولپور پنجاب کے ایک انتظامی ڈویژن کی شکل میں سامنے لایا گیا۔اور جب صوبہ بحالی کے لیے لوگ سڑکوں پر آئے تو لاٹھی گولی سے روکا گیا۔فوج طلب کرلی گئی۔کرفیو لگ گیا۔دو شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے اور بہاول پور صوبہ محاذ کی پوری قیادت کو حراست میں لے لیا گیا اور تحریک کی ایک خاتون رہنما کو علاقہ بدر کردیا گیا۔

اس تحریک کو کونسل مسلم لیگ ، کنونشن مسلم لیگ ، ڈیموکریٹک پارٹی ، نیشنل عوامی پارٹی ، جمعیت علمائے اسلام ، پیپلز پارٹی ، جماعتِ اسلامی ، بہاولپور چیمبر آف کامرس اور بار ایسوسی ایشن سمیت ہر قابلِ ذکر کی حمایت حاصل تھی۔چنانچہ انیس سو ستر کے انتخابات میں بہاولپور ڈویژن میں جب دس لاکھ تیس ہزار ووٹروں نے ووٹ ڈالا تو ان میں سے سات لاکھ چودہ ہزار نے صوبہ بہاول پور بحالی تحریک کے حمایتی امیدواروں کو ووٹ دیا۔اتنے بڑے انتخابی بلاک کی سیاسی قوت کو بعد ازاں تحریص و ترغیب و دباؤ اور وسیع تر قومی مفاد کا لالی پوپ دے کر تتر بتر کردیا گیا اور جو نہیں مانے انھیں یہ کہہ کر بلیک میل کیا گیا کہ مشرقی پاکستان میں اس وقت جو حالات ہیں کیا آپ چاہتے ہیں کہ مغربی پاکستان میں بھی وہی حالات ہوجائیں۔

یہ تو ہے بہاول پور نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ نواب صلاح الدین عباسی اور بہاولپور بحالی تحریک کے تازہ مرحلے کی قیادت کا مقدمہ۔مگر اتنے مضبوط موقف اور اتنی عوامی حمایت کے ہوتے ہوئے جب چالیس برس پہلے ان کے سادہ طبیعت بزرگ صوبہ بحال نہ کراسکے تو آج اس کی بحالی کے کتنے امکانات ہیں ؟


جب سن ستر میں بہاول پور صوبہ بحالی تحریک چل رہی تھی تو اس وقت سرائیکی صوبے یا جنوبی پنجاب کا کوئی تصور نہیں تھا۔کیونکہ بہاول پور صوبے کا اپنا مقدمہ بہت مضبوط تھا۔مگر پھر مدعی خود ہی سست ہوگیا۔ بہاول پور کی سیاسی قیادت نے بلا امتیاز عملاً یہ حقیقت تسلیم کرلی کہ بہاول پور پنجاب کا حصہ ہے اور اس قیادت کا منشور یہ ہوگیا کہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی۔

اس کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ سابق ریاست کے ولی عہد نواب عباس عباسی نے بہاول پور صوبہ بحالی تحریک کچلے جانے کے چار برس بعد پنجاب کی گورنری قبول کر لی اور تین برس تک اس عہدے پر فائز رہے۔حالانکہ وہ یہ کہہ کر انکار بھی کرسکتے تھے کہ میں ایک بڑے پنجاب کے مقابلے میں ایک چھوٹے بہاول پور صوبے کا گورنر بننا زیادہ پسند کروں گا۔خود نواب صلاح الدین عباسی پانچ بار رکنِ قومی اسمبلی رہے لیکن انھوں نے بھی اس حیثیت کو بہاول پور صوبہ بحالی کا مقدمہ زندہ رکھنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔انیس سو پچاسی سے آج تک کسی نا کسی اسمبلی کے رکن ، وزیر اور ناظم رہنے والے مخدوم احمد محمود نے بہاول پور صوبے کی بحالی کی بات کرتے کرتے پنجاب کی گورنری لے لی اور اب وہ یہ نہیں طے کرپارہے کہ انھیں سابق ریاست پر مبنی تحلیل شدہ صوبے کی بحالی درکار ہے یا وہ سرائیکی صوبے کے حامی ہیں یا پھر بہاولپور سرائیکی مشترکہ صوبہ چاہتے ہیں۔

جماعتِ اسلامی بھی ان جماعتوں میں شامل تھی جنہوں نے سن ستر کے انتخابات میں بہاول پور صوبے کی بحالی تحریک کی بھرپور حمایت کی۔مگر میاں طفیل محمد کی امارت کے دور میں یہ مطالبہ خاموشی کے ساتھ منشور سے نکال دیا گیا۔اور صرف جماعتِ اسلامی ہی کیا ، نیشنل عوامی پارٹی چالیس برس پہلے بہاول پور صوبے کی حامی تھی آج اس کی وارث عوامی نیشنل پارٹی کے منشور میں سرائیکی صوبے کا مطالبہ شامل ہے۔یہی حال تب کی اور اب کی پیپلز پارٹی کا رہا ہے۔مولانا مفتی محمود کی جمعیت علمائے اسلام بہاول پور صوبے کی حامی تھی مگر مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی فی الحال اس مباحثے کو منڈیر پر بیٹھی سن رہی ہے۔

دو اور باتیں بھی غور طلب ہیں۔پہلی یہ کہ محمد علی درانی نامی ایک دھیمے لہجے والے صاحب جب اپنے کپڑے بدل سیاسی کیرئیر کے دوران جماعتِ اسلامی ، اسلامی جمہوری اتحاد ، پاسبان ، ملت پارٹی ، مسلم لیگ ق ، مشرف کی وزارتِ اطلاعات جیسی مصروفیات سے نپٹ گئے تو انھوں نے بہاول پور صوبہ بحالی کی چراگاہ کا رخ کرلیا۔پہلے انھیں نواب صلاح الدین پر تعینات کیا گیا اور پھر انھوں نے بوجوہ ہاتھ ہولا کرلیا۔ اور جب مسلم لیگ ن سے درانی صاحب کا سلسلہِ جنبانی بارآور نہ ہوا تو انھوں نے پرانا بہاول پور متحدہ محاذ کا اوطاق زندہ کرنے کی ٹھان لی۔میں کسی بھی ایسے شخص کو تلاش رہا ہوں جس نے جماعتِ اسلامی کے دور سے مشرف کی وزارتِ اطلاعات تک کے سفر میں محمد علی درانی کے منہ سے کبھی بہاول پور کا نام سنا ہو ؟؟ تو پھر ایک دن ان کے سینے میں یہ درد اچانک جاگا یا کسی نے جگا دیا ؟

دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ متحدہ پنجاب کی نظریاتی حامی مسلم لیگ نواز کو سرائیکی صوبے اور جنوبی پنجاب کی ڈبیٹ شروع ہوتے ہی بہاول پور صوبہ کیسے یاد آگیا ؟

بہاول پور صوبہ بحال ہونا چاہیے یا بہاول پور سمیت ایک سرائیکی یا جنوبی پنجابی صوبہ بننا چاہیے۔اس بحث کو آپ قومی ، نظریاتی ، جغرافیائی سمیت جو چاہیں رخ اور رنگ دے سکتے ہیں۔لیکن اس کش مکش کے ڈانڈے بہاول پور اور ملتان کے بالادست طبقات کی اقتداری رسہ کشی سے ملانا مت بھولیے گا۔ رہے عوام تو وہ تو کہیں کے بھی ہوں خام مال ہیں۔

کسی بھی صورت میں انھیں اتنا فائدہ تو ضرور پہنچے گا کہ لاہور کے بجائے بہاول پور یا ملتان کی بس کا کرایہ اور وقت کم لگتا ہے۔مگر جو کام لاہور میں چھ دن قیام کے بعد نہیں ہوتا وہی کام بہاول پور اور ملتان میں چھ دن قیام کے بعد بھی شائد نا ہوسکے۔کیونکہ کام کا کلچر صوبائیت سے بالاتر ہوتا ہے۔چنانچہ جیسے عام آدمی آج بھی سنہرے ماضی کو یاد کرکے سکون پاتا ہے کل بھی اس سے یہ سکون کوئی نہ چھین سکے گا۔ایک ماضی ہی تو ایسا منصف ہے جو بالادست اور کمزور سے یکساں انصاف کرتا ہے اور انھیں اپنی گود میں پناہ دیتا ہے۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )
Load Next Story