حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا…

وزیراعظم کی جانب سے رعایت کا اعلان غیر قانونی اور صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔


Adnan Ashraf Advocate January 28, 2013
[email protected]

ISLAMABAD: سنسنی خیز اور حیرت انگیز خبر ہے کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر سانحہ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری پر درج کی گئی ایف آئی آر سے قتل کی دفعہ ختم کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں پائلر اور فشر فوک فورم نے وزیراعظم کی مداخلت کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے خطاب کے دوران اعلان کیا تھا کہ مقدمہ میں قتل کی دفعہ 302 کے تحت مقدمہ درج نہیں کیا گیا اور مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت میں پیش کردہ چالان سے قتل کی دفعہ خارج کردی ہے۔

وزیراعظم کی جانب سے رعایت کا اعلان غیر قانونی اور صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ وزیراعظم کے اس اقدام پر سینیٹ میں جدید احتجاج دیکھنے میں آیا، جب پوائنٹ آف آرڈر پر پی پی پی کے سینیٹر رضا ربانی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں صدمہ ہوا ہے کہ پی پی پی کے وزیراعظم نے قتل کی دفعہ ختم کرنے کی ہدایت دی ہے، پی پی پی غریبوں اور مزدوروں کی پارٹی ہے اور اس کی ذمے داری ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ رضا ربانی نے کہا کہ فیکٹری کے چھ خارجی دروازوں میں سے پانچ دروازے بند تھے جب آگ لگی تو مرکزی دروازہ بھی بند کردیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ کچھ مہمان سیاسی اداکاروں نے حال ہی میں قتل کی دفعہ ختم کرنے میں کردار ادا کیا اور تفتیشی افسر کو بھی تبدیل کرا دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کے ای ایس سی کے مزدور ہڑتال کرتے ہیں جس میں کوئی مرتا بھی نہیں لیکن ان پر اینٹی ٹیررزم ایکٹ کے تحت مقدمہ بناکر کارروائی کی جاتی ہے جب کہ 280 مزدور مجرمانہ غفلت سے مرتے ہیں تو قتل کی دفعہ ختم کر کے دہرا معیار اپنایا جاتا ہے، کم ازکم پی پی پی ایسا نہیں کرسکتی، جب مقدمہ عدالت میں ہے تو اس پر قانون کے مطابق کارروائی ہونے دیں۔ اس اقدام پر اے این پی کے ارکان نے بھی سینیٹ سے واک آؤٹ کیا جو لائق تحسین ہے۔ رضا ربانی کا یہ ردعمل حقیقت پسندانہ، انسانیت دوست اور انصاف اور جمہوریت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے جو ہر باضمیر، ذی شعور پاکستانی اور خصوصاً حادثے کے شکار ہونے والوں کے لواحقین کے دلوں کی تمنا اور انصاف کا تقاضا بھی ہے۔

پاکستان کی صنعتی تاریخ کے سب سے بڑے سانحے جس میں 280 کے قریب انسان مظلومانہ طور پر کئی گھنٹوں تک جلتے رہے ان میں سے بعض نے رات گئے تک اپنے گھر والوں سے فون پر رابطہ رکھا، باہر موجود ان کے لواحقین انھیں زندہ نکالنے کی التجائیں کرتے رہے مگر کوئی اتھارٹی ان کی جانیں بچانے کی کوئی سبیل نہ نکال سکی۔ فیکٹری قوانین کی پاسداری تو ایک طرف سانحے کا ظلم ناک پہلو جو گواہان کے بیانات سے سامنے آیا ہے کہ آتشزدگی کے بعد سامان ادھر ادھر ہوجانے کے اندیشے کے تحت مالکان نے فیکٹری منیجر سے مرکزی راستوں کو بھی مقفل کر ادیا تھا۔

اس اندوہناک سانحے کی سنگینی کو جس طریقے سے ختم کیا جارہا ہے اس کے سامنے تو یہ محاورہ بھی بے محل ہوجاتا ہے کہ ''ابھی تو کفن بھی میلا نہیں ہوا''کیونکہ سانحے کا شکار ہونیوالوں اور اس میں لاپتہ ہونے والوں کے درجنوں خاندانوں کے افراد اب بھی کئی کئی بار DNA ٹیسٹ کرانے اور حکومتی محکموں کے دھکے کھانے کے باوجود اس بات کے متمنی ہیں کہ انھیں ان کے پیاروں کی باقیات ہی حوالے کردی جاتیں تاکہ وہ ان کا کفن دفن تو کر سکیں۔

اس سانحے کے بعد ایم ڈی سائٹ لمیٹڈ نے سیفٹی قوانین کی خلاف ورزی اور لاپرواہی پر اس فیکٹری کا الاٹمنٹ منسوخ کردیا تھا اور وزارت صنعت و تجارت نے فیکٹری کا این او سی منسوخ کرکے مالکان کو ہدایت کی تھی کہ مرنے اور زخمی ہونیوالوں کو فی کس 5 لاکھ روپے کی ادائیگی کی جائے بصورت دیگر فیکٹری نیلام کرکے یہ معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ آتشزدگی کے سانحے پر شاید ہی کوئی سیاسی، سماجی، مذہبی شخصیت یا جماعت ہو جس نے جھلستے ہوئے ملبے پر کھڑے ہوکر تقریریں، ہمدردیاں اور بڑھکیں مار کر فوٹو سیشن میں حصہ نہ لیا ہو۔

فیکٹری کی آگ بجھتے اور کیمرے آف ہوتے ہی ان کے جوش، جذبے، دعوے بھی سرد پڑگئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوام دوستی کے نام پر نان ایشوز یا چھوٹے چھوٹے ایشوز پر مظاہرے، احتجاج، لانگ مارچ، جلاؤ گھیراؤ کرنیوالی شخصیات، جماعتیں اور این جی اوز متاثرین کی داد رسی کے لیے کچھ کرتی ہیں یا صرف فقط تصویر پر ہی ثابت ہوتی ہیں۔ ہماری تاریخ قومی سانحات، سنسنی خیزی اور حیرت انگیزی سے بھری پڑی ہے، بڑے بڑے قومی سانحات مثلاً لیاقت علی، ضیاء الحق، بینظیر بھٹو کا قتل، سقوط ڈھاکہ، کارگل، حقانی کمیشن جیسے لاتعداد قومی سانحات کے حقائق کبھی قوم کے سامنے نہیں آسکے لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے انسانی حقوق کی پامالی، انصاف کی بے وقعتی اور حکومتی اداروں کی غیر فعالیت اور مجرمانہ نااہلی اور تباہی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کی مثال پاکستان تو کیا دنیا میں شاذونادر ہی ملے گی۔

اسلام آباد کا مارگلہ ٹاور کے انہدام میں سیکڑوں شہری جانوں سے گئے، بلڈر، ٹھیکیدار، آرکیٹیکٹ ملک سے فرار ہوگئے، سی ڈی اے کے ذمے داران اپنے عہدوں پر متمکن رہے، پھر حادثے کا مرتکب بلڈر پاکستان آیا، سی ڈی اے سے اپنے فلیٹوں کا معاوضہ لیا اور اپنا راستہ سدھار گیا۔ اس سلسلے میں شوکت عزیز کے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن کی 1600 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کیا کہا گیا عوام اس سے لاعلم ہیں۔ شیرشاہ پل جس کا نقشہ فیکٹری بچانے کے لیے قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تبدیل کرایا گیا تھا آج تک اس کے ذمے داروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ اسٹیل ملز ریفرنس میں اس کے چیئرمین کو دن دہاڑے قتل کردیا گیا اس کے ایک ڈائریکٹر کو جو پولیس کی تحویل میں تھا عدالت کی تیسری منزل سے پھینک کر اسی طرح خودکشی کا رنگ دے دیا گیا جیسا کہ کامران فیصل کی موت کو دیا جارہا ہے۔

عمر اصغر کا قتل یا خودکشی معمہ بنی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار رضا کا قتل ہو یا مرتضیٰ کیس میں حق نواز سیال اور بینظیر بھٹو قتل کیس کے گواہ کا پراسرار قتل، یہ تمام واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ ملک میں خوف خدا اور قانون اور انصاف نام کی کوئی چیز ناپید ہے۔ کائنات سومرو گینگ ریپ کیس میں عدالت کے اندر ملزمان کے رشتہ داروں اور ساتھیوں نے سیشن کورٹ میں جس طرح ہنگامہ آرائی اور طاقت کا مظاہرہ کیا، سرکاری وکیل کو گھیرے میں لے لیا، اس پر فاضل عدالت نے مقدمے کی سماعت سے انکار کرتے ہوئے ریفرنس ہائیکورٹ بھیج دیا تھا اور جان کے خوف سے لڑکی کے باپ نے ملزمان کے خلاف بیان قلمبند کرانے سے انکار کردیا تھا۔

ایک موقع پر انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے سرکاری وکلا نے تحریری طور پر مقدمات کی پیروی کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ ان کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں انھیں تحفظ فراہم کرنے کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے جارہے۔ ایسے مقدمات کی پیروی کرنیوالے وکلا کے پے درپے قتل بھی ہوئے۔ صحافی ڈینئیل پرل کیس کی پیروی کرنیوالے اسپیشل پراسیکیوٹر نے بھی ایک مرحلے پر مقدمے کی پیروی سے انکار کردیا تھا۔ جسٹس نظام اور ان کے اکلوتے وکیل بیٹے کا قتل، خصوصی عدالت کے جج نبی شیر جونیجو کا قتل، پراسیکیوٹر سردار احمد کا قتل اور ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے قتل کے علاوہ پولیس اہلکاروں اور گواہوں کے قتل کی بھی ایک طویل فہرست جو اس اندوہناک صورتحال کو ظاہر کرتی ہے کہ مجرم اتنے بے خوف و خود سر ہوچکے ہیں کہ جرم کے بعد اس کے نشانات مٹانے کے لیے قانون اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے علاوہ قانون کی مدد کرنے والے شہریوں کی جانوں کو تلف کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ بغیر حکومت اور سیاسی شخصیات کی آشیرباد اور پشت پناہی کے ناممکن ہے۔

سڑکوں پر انسانی ہلاکتوں کو مذہبی، لسانی، سیاسی و فرقہ وارانہ اور دہشت گردی اور امن پسندی کی جنگ کے نام درجہ بندی اور جمع تفریق کرکے ایک طرف تو ان جرائم کی سنگینی کو کم کردیا جاتا ہے دوسری طرف حکومت سیاسی، مذہبی، لسانی جماعتیں اس کی آڑ میں اپنے اپنے گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا اور منظم و مربوط کر کے ان نفرتوں اور غلط فہمیوں کو مزید ہوا دے کر اپنے گروہی و سیاسی مفادات حاصل کرتی ہیں۔ جس کی تمام قیمت بے گناہ شہریوں کو چکانا پڑتی ہے۔ طاقت اور دہشتگردی کا یہ کلچر حکومتی اداروں کی کارکردگی پر منفی اثرات اور عوام میں خودکشیوں اور جرائم کے رجحانات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ اب اگر وزیراعظم بھی عدالتی اور قانونی عمل میں اس طرح مداخلت کرنا شروع کردے تو الامان والحفیظ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں