قابلیت اور معیار
ہوسکتا ہے کہ وزیر صاحب کہنا کچھ اور چاہتے ہوں اور کہہ گئے کچھ۔
ایک وزیر صاحب تدبیر کو صحافیوں سے بڑی شکایات ہیں، فرماتے ہیں کہ چاہے ملک کے انتظامی امور ہوں یا مالیات کا مسئلہ ہو، امن امان کے مسائل ہوں یا خارجہ پالیسی، کوئی بھی مسئلہ ہو وہ فوراً اپنی رائے کا اظہار کردیتے ہیں، کیا یہ صحافی حضرات اتنے ہی اہل الرائے اور باریک بین ہوتے ہیں کہ تمام مسائل کو سمجھ لیتے ہیں اور تنقید بھی کردیتے ہیں۔ ہماری ان معزز وزیر سے اتنی سی گزارش ہے کہ جب ہمارے یہاں ایسے لوگ وزیر بن بیٹھیں اور جنھیں ایسی ایسی وزارتیں ملی ہوں جن سے انھیں شغف تو کیا پہلے کبھی نہ سمجھا نہ جانا ہوگا اور کچھ وزرا کے لیے تو خاص طور پر وزارتیں بنائی بھی گئی تھیں۔
ہوسکتا ہے کہ اگلے الیکشن میں پھر سے چانس مل جائے تو وزارت پھول و پودے، وزارت پھل و سبزیاں، وزارت گرم مصالحہ جات اور اسی طرح کی دو تین اور وزارتیں بھی وجود میں آجائیں اور تو اور خیر سے پنجاب کا بھی صوبوں کے قیام کے نام پر بٹوارہ ہورہا ہے، اب چاہے سرائیکی صوبہ بنے ، بہاولپور جنوبی پنجاب صوبہ یا ہزارہ صوبہ، فائدہ تو ہمارے معزز وزرا کا ہی ہونا ہے جو کچھ وزرا بچے کچھے تھے، ارمان دل میں بسے تھے کہ وزارت کا قلمدان سنبھالیں، ان کی خواہشیں بھی اب پوری ہونے کو ہیں۔ گویا اب ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے، نہیں کیونکہ خواہشوں پر اب دم نہیں صوبے نکلیں گے اور ارمان سارے نکل جائیں گے، ویسے بھی اتنے بڑے پرات میں چھینا جھپٹی میں خاصی دقت ہوتی تھی اب پوری پرات اپنے قبضے میں ہوگی، چھوٹی ہے تو کیا ہوا، اپنی تو ہے۔
بات آتی ہے پھر قابلیت کی تو اس کے بغیر تو کام ادھورا ہی رہتا ہے، ہوسکتا ہے کہ وزیر صاحب کہنا کچھ اور چاہتے ہوں اور کہہ گئے کچھ، یعنی دوسرے لفظوں میں صحافیوں کو ہر مسئلے میں ٹانگ اڑانے سے باز رہنے کا کہا گیا ہے، آپس کی بات ہے کہ یہ دور اب وہ نہیں رہا کہ جہاں جس کا دل چاہا کام کرگیا، اب سب کچھ نظر آجاتا ہے، اتنا کچھ نظر آنے پر ہمارے ملک میں کرپشن کا یہ حال ہے تو ذرا تصور کریں اس دور میں کیا کچھ نہیں ہوا ہوگا جب میڈیا پر پہرے بیٹھے تھے اور صحافی حضرات بندوقوں کی سنگینوں کے زیر سایہ اپنا قلم چلاتے تھے اور اس کی سزا بھی انھیں ملا کرتی تھی، کبھی قید تنہائی تو کبھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور نہ جانے کیا کچھ۔ اس باہمت طرز عمل پر ہم اپنے سینئرز صحافی حضرات کو سلیوٹ کرتے ہیں۔ آج کے صحافی ماضی کے مقابلے میں کچھ اور بھی گمبھیر حالات کا شکار ہیں، جہاں کبھی کسی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو کسی کو ٹارگٹ کلنگ میں دنیا سے ہی رخصت کردیا گیا۔
ہمارے ایک وزیر ملک میں تنقید کی سولی پر لٹکنے پر وہ واحد شخص ہیں جنھیں ہر دن کسی نئی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں سارا قصور تنقید کرنے والوں کا بھی نہیں، کچھ اپنے وزیر صاحب کا بھی ہے، گو اپنے طور پر وہ اپنی ساری ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کام کرتے ہیں، لیکن پھر بھی انیس بیس کے چکر میں ہی رہتے ہیں، جیسے بھارت گئے تو بڑا خوش خوش لوٹے لیکن ان کے پیچھے بھارت میں پھلجھڑیاں سی چھوٹتی رہیں، ویسے بھی بھارتی سرکار کی باتیں بنانے کی عادت ہی ہے، کتنا نرم و ملائم بن کر گئے تھے وزیر صاحب، اب اور کیا چاہیے تھا انھیں؟ لیکن پھر بھی تنقید کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا جاتا۔
حال ہی میں گلوکاری کے مقابلے میں پاکستانی نوجوان نبیل شوکت نے اپنی خوبصورت آواز سے بھارتی گلوکاروں کو چت کردیا، ہر طرف نبیل کی واہ واہ ہورہی ہے، لیکن اس واہ واہ میں ہمیں اپنے نوجوان گلوکار عاطف اسلم کو نہیں بھولنا چاہیے جس نے اپنے ملک کی سربلندی، عزت کی خاطر اپنے کیرئیر کو بھی نہیں دیکھا، گو عاطف اسلم کی سب سے زیادہ کمائی بھارت میں ہی ہوتی ہے، اسی ملک میں اسے سب سے پہلے پسند کیا گیا اور آج بھی ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد ہے وہاں، لیکن اس نوجوان نے جس اعتماد اور بہادری کے علاوہ عقل مندی اور ہوشیاری سے اپنے ملک کے گلوکاروں کا مقدمہ بھارت کے بڑے بڑے گائیکوں سے لڑا اس کے لیے عاطف اسلم کو شاباشی نہ دینا زیادتی کی بات ہوگی، اس کا عزم، اس کا حوصلہ اور سمجھ نے نبیل شوکت کو کامیابی کی منزل پر لاکھڑا کیا۔
عاطف نے اپنے تمام مفادات کو ایک جانب رکھ کر جس انداز میں پاکستان کے لیے کام کیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا پاکستانی جوان آج بھی اپنے ملک سے کتنا مخلص ہے، اس نے اپنے مرتبے اپنے معیار کو جس طرح پاکستان کے لیے استعمال کیا اسے اس کی ذہانت کی داد نہ دینا ظلم ہوگا۔ عاطف کو بھارت کے بڑے بڑے گائیکوں سے سمجھداری سے بحث کرتے دیکھ کر دل میں خیال ابھرا، کیا ہمارے ملک کے وزرا اس طرح اپنے ملک کا مقدمہ نہیں لڑ سکتے؟ کیا وہ اپنے تمام تر مفادات پس پشت ڈال کر صرف اپنے ملک کی سربلندی کے لیے کام نہیں کرسکتے؟ حالانکہ اس نوجوان گائیک کی تو ایک عمر پڑی ہے، اسے تو ابھی اور کام کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے، لیکن شاید یہ اس کے دل میں اپنے وطن کے لیے چھپی وہ محبت تھی جسے ان کے ساتھ کام کرنے کے باوجود وہ چھپا نہ سکا، بالکل اسی طرح ٹینس کا اسٹار اعصام الحق غیرملکی میڈیا کے سامنے اپنے ملک کو دہشت گردی کے غبار سے نکالنے میں بے اختیار رو پڑا۔ ہمارے فنکار، کھلاڑی، صحافی جب بھی اپنے ملک سے باہر جاتے ہیں تو وہ اپنے ملک کے سفیر ہی بن کر جاتے ہیں، اپنے اس عہدے کا خیال کون کس طرح رکھتا ہے اب کیا کیا بیان کریں۔
نہ ہم اتنے عقل مند ہیں اور نہ ہی اتنے سمجھدار، بس ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں، ان کھلی آنکھوں سے ہم بھی بہت سے لوگوں کی طرح دیکھتے اور کڑھتے ہیں، بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ ہم اپنے خیالات کو تحقیق کے ترازو سے بھی گزارتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ زرد صحافت اگر کچھ دیر کے لیے ہمارا قد کسی بھی طرح ذرا بلند کردے گی تو دوسری جانب اوپر والے کی عدالت میں ہمیں مجرم بنادے گی اور اس سے بھی پہلے ہمیں اپنے ضمیر کی عدالت سے بھی گزرنا پڑے گا، یقیناً اپنے ضمیر کی عدالت کبھی معاف نہیں کرتی، ہر روز کچوکے لگاتی ہے۔
الیکشن سے پہلے تمام سرکاری ملازمتوں پر بھرتیوں کو روک کر جو بہترین کام کردیا گیا اس کے کیا ہی کہنے، ورنہ یہاں تو نااہلوں کی ایک ٹیم تھی جو منتظر بیٹھی تھی کہ جاتے جاتے سائیں سے یہ کام تو کروا ہی لیں گے، لیکن اب سب کے دانت کھٹے ہوگئے ہیں، جو پہلے سے عوام کے سر پر سوار ہیں وہ کیا کم تھے جو مزید مسلط کردیے جاتے، الیکشن ... ویل ڈن!