چک دے پاکستان
پاکستانی ٹیم کے پاس نہ صحیح وسائل تھے نہ صحیح کوچنگ، گھر والوں کا پریشر کہ لڑکیوں کو کرکٹ نہیں کھیلنا چاہیے
کچھ سال پہلے انڈیا کی ایک فلم آئی تھی ''چک دے انڈیا''۔ فلم ایک اصل واقعے پر مبنی تھی، ایک چھوٹی سی خبر، ہندوستانی ویمنز ٹیم ہاکی کا ایک بہت بڑا ٹورنامنٹ جیت گئی تھی، جیت بڑی تھی، اس کے باوجود اس کی خبر اخبار کے مین صفحے پر سرخیوں میں نہیں لگائی گئی بلکہ کسی اندر کے صفحے پر غیر اہم جگہ پر لگا دی گئی تھی، فلم بننے کے بعد سب کو اس ویمنز ٹیم کی کوشش اور کوچ کی محنت کے بارے میں پتہ لگ گیا۔
آج پاکستانی ویمنز کرکٹ ٹیم بھی اپنی ایک ایسی ہی چھوٹی سی خبر کے لیے دن رات محنت کر رہی ہے اور ہمارے قومی کرکٹ ہیرو جاوید میانداد ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اس ٹیم کو جیت دلانے کی۔
چلیے آپ کو پاکستانی کرکٹ ویمنز ٹیم سے ملواتے ہیں۔ 1996 میں دو بہنیں شازیہ اور شرمین ویمنز کرکٹ ٹیم کا آئیڈیا لے کر سامنے آئیں جس کے فوراً بعد ان پر کئی کورٹ کیسز کیے گئے اور قتل کی دھمکیاں بھی ملیں۔ 1997 میں حکومت نے آفیشلی انکار کردیا، پاکستانی ویمنز ٹیم کو انڈیا جاکر کھیلنے کے لیے۔ لیکن اس کے بعد 1997 ہی میں پاکستانی ویمنز ٹیم نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا، حالانکہ ٹیم سیریز کے تینوں میچز ہارگئی، اس کے باوجود انھیں ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے انڈیا کا بلاوا ملا، ورلڈ کپ میں بھی کھیلے جانے والے پانچوں میچ وہ ہار گئیں اور اس سال حصہ لینے والی گیارہ ٹیموں میں سب سے پیچھے رہیں۔ 1998 میں ویمنز ٹیم سری لنکا گئی، جہاں تین ون ڈے کے ساتھ وہ اپنا پہلا ٹیسٹ بھی ہار گئیں۔ 2000 میں پانچ سے چار میچ وہ ہار گئیں اور ایک میں بارش ہوگئی۔
2001 میں اس ٹیم کو اپنے ہی ہوم گراؤنڈ میں نیدرلینڈ کے خلاف جیت ملی، انیس میچ دنیا بھر میں ہارنے کے بعد پاکستانی ویمنز کرکٹ ٹیم پہلی بار کوئی میچ جیتی اور صرف ایک نہیں بلکہ چار، تین سے پوری سیریز جیت لی۔
یہ جیت اگلے ٹور میں سری لنکا کے خلاف نہیں مل پائی اور 2002 میں سری لنکا ٹور میں چھ میں سے کوئی بھی میچ نہیں جیتا، پاکستانی ٹیم کے پاس نہ صحیح وسائل تھے نہ صحیح کوچنگ، گھر والوں کا پریشر کہ لڑکیوں کو کرکٹ نہیں کھیلنا چاہیے، ساتھ ہی ہماری ویمنز کرکٹ ٹیم اور مینز کرکٹ ٹیم کے بجٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس کے باوجود ہماری ویمنز ٹیم نے ہمت نہیں ہاری۔ بڑے بڑے ملکوں کی ٹیموں کے سامنے مقابلے پر بار بار کھڑی ہوتی رہیں۔ ہارتے آپ تب ہیں جب آپ ہار مان جائیں اور ہماری ویمنز ٹیم نے کبھی ہار نہیں مانی۔
2003میں نیدر لینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ کوالیفائنگ مقابلوں میں حصہ لیا، یہ ٹیم تمام ٹیمز میں چوتھے نمبر پر آئی لیکن 2005 میں پاکستانی ویمنزکرکٹ کنٹرول ایسوسی ایشن اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے جھگڑوں کی وجہ سے ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچز میں حصہ نہیں لے پائی، پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان کردیا کہ پاکستانی ویمنز کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ میں نہیں جائے گی۔
2005 میں ویمنز ٹیم ساؤتھ افریقہ گئی اور سات میں سے دو میچز جیت گئی، اس ٹیم کو دنیا کے سامنے متعارف ہونے کا ایک بڑا موقع جب آیا جب پاکستان کو آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچز ہوسٹ کرنے کا 2007 میں موقع ملا۔ ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں لیکن ٹورنامنٹ سے عین پہلے سیاسی حالات کی وجہ سے اسے ساؤتھ افریقہ منتقل کردیا گیا، ان میچز میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اچھی رہی اور ٹیم نے آئرلینڈ، زمبابوے، اسکاٹ لینڈ، نیدر لینڈ اور ہانگ کانگ کی ٹیمز کو ہراہا۔
پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کے خلاف تھا، اس کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور وہ کم وسائل کے ساتھ بھی کھیلتی رہیں، کئی سال گزرنے کے بعد اب پاکستان، ویمنز کرکٹ ٹیم کی طرف نرمی برتنے لگا ہے، بغیر کسی مناسب کوچنگ کے ویمنز ٹیم اپنی سی پوری کوشش کرتی رہی، ہر میچ میں بہتر سے بہتر پرفارمنس پیش کرنے کی اور اس کے نتیجے میں 2010 میں ایشین گیمز میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔
جلد ہی آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ ہونے والا ہے اور اس بار ہماری ٹیم پہلے سے بھی بہت زیادہ پرامید ہے جیتنے کے لیے، وجہ۔۔۔۔۔؟ وجہ جاوید میانداد ہیں، وہ جاوید میانداد جنہوں نے کئی میچز میں انڈیا کے چھکے چھڑائے ہیں، ایک بار پھر تاریخ دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ویمنز ٹیم کو پوری ذمے داری سے اس ٹورنامنٹ کے لیے تیار کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ ڈیوواٹ مور ہیڈ کوچ ہیں۔
ٹیم منیجر عائشہ اشعر کے مطابق وہ لوگ پوری طرح تیار ہیں، اس سال ورلڈکپ جیتنے کے لیے اور ساتھ ہی اس ورلٹ کپ کو جیت کر وہ یہ بھی ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ خواتین مردوں سے کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں، لیکن شاید یہ جیت ایک خواب بن کر رہ جائے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان اس ٹورنامنٹ سے پہلے حالات پیچیدہ ہوگئے جس کے بعد انڈیا میں ہونے والے اس ورلڈ کپ میں ہماری ٹیم کا جاکر کھیلنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی سے درخواست کی ہے کہ سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی ٹیم کے میچز ممبئی سے کہیں اور شفٹ کردیے جائیں۔
پاکستانی مینز ٹیم کے پچھلے مہینے انڈیا میں میچز جیتنے کے باوجود آئی سی سی کے ہمارے بارے میں کوئی خاص تاثرات نہیں تھے، ان کے مطابق پاکستان میں کسی بھی انٹرنیشنل ٹیم کو کھیلنے کے لیے نہیں جانا چاہیے کیونکہ وہاں مناسب حفاظتی انتظامات نہیں ہیں۔
ایک موقع پر ہماری ویمنز ٹیم کے پاس جس میں وہ دنیا کے سامنے پروگریسو پاکستان اور ویمنز رائٹس کی بہترین تصویر پیش کرسکتی ہیں ٹورنامنٹ جیت کر، اگر حالات نے ساتھ دیا تو ہماری ویمنز کرکٹ ٹیم کو ''چک دے پاکستان'' کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور ہماری ٹیم کی ایک چھوٹی سی خبر پاکستان میں ایک بڑا بدلاؤ لائے گی۔
آج پاکستانی ویمنز کرکٹ ٹیم بھی اپنی ایک ایسی ہی چھوٹی سی خبر کے لیے دن رات محنت کر رہی ہے اور ہمارے قومی کرکٹ ہیرو جاوید میانداد ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اس ٹیم کو جیت دلانے کی۔
چلیے آپ کو پاکستانی کرکٹ ویمنز ٹیم سے ملواتے ہیں۔ 1996 میں دو بہنیں شازیہ اور شرمین ویمنز کرکٹ ٹیم کا آئیڈیا لے کر سامنے آئیں جس کے فوراً بعد ان پر کئی کورٹ کیسز کیے گئے اور قتل کی دھمکیاں بھی ملیں۔ 1997 میں حکومت نے آفیشلی انکار کردیا، پاکستانی ویمنز ٹیم کو انڈیا جاکر کھیلنے کے لیے۔ لیکن اس کے بعد 1997 ہی میں پاکستانی ویمنز ٹیم نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا، حالانکہ ٹیم سیریز کے تینوں میچز ہارگئی، اس کے باوجود انھیں ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے انڈیا کا بلاوا ملا، ورلڈ کپ میں بھی کھیلے جانے والے پانچوں میچ وہ ہار گئیں اور اس سال حصہ لینے والی گیارہ ٹیموں میں سب سے پیچھے رہیں۔ 1998 میں ویمنز ٹیم سری لنکا گئی، جہاں تین ون ڈے کے ساتھ وہ اپنا پہلا ٹیسٹ بھی ہار گئیں۔ 2000 میں پانچ سے چار میچ وہ ہار گئیں اور ایک میں بارش ہوگئی۔
2001 میں اس ٹیم کو اپنے ہی ہوم گراؤنڈ میں نیدرلینڈ کے خلاف جیت ملی، انیس میچ دنیا بھر میں ہارنے کے بعد پاکستانی ویمنز کرکٹ ٹیم پہلی بار کوئی میچ جیتی اور صرف ایک نہیں بلکہ چار، تین سے پوری سیریز جیت لی۔
یہ جیت اگلے ٹور میں سری لنکا کے خلاف نہیں مل پائی اور 2002 میں سری لنکا ٹور میں چھ میں سے کوئی بھی میچ نہیں جیتا، پاکستانی ٹیم کے پاس نہ صحیح وسائل تھے نہ صحیح کوچنگ، گھر والوں کا پریشر کہ لڑکیوں کو کرکٹ نہیں کھیلنا چاہیے، ساتھ ہی ہماری ویمنز کرکٹ ٹیم اور مینز کرکٹ ٹیم کے بجٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے، اس کے باوجود ہماری ویمنز ٹیم نے ہمت نہیں ہاری۔ بڑے بڑے ملکوں کی ٹیموں کے سامنے مقابلے پر بار بار کھڑی ہوتی رہیں۔ ہارتے آپ تب ہیں جب آپ ہار مان جائیں اور ہماری ویمنز ٹیم نے کبھی ہار نہیں مانی۔
2003میں نیدر لینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ کوالیفائنگ مقابلوں میں حصہ لیا، یہ ٹیم تمام ٹیمز میں چوتھے نمبر پر آئی لیکن 2005 میں پاکستانی ویمنزکرکٹ کنٹرول ایسوسی ایشن اور پاکستانی کرکٹ ٹیم کے جھگڑوں کی وجہ سے ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچز میں حصہ نہیں لے پائی، پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان کردیا کہ پاکستانی ویمنز کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ میں نہیں جائے گی۔
2005 میں ویمنز ٹیم ساؤتھ افریقہ گئی اور سات میں سے دو میچز جیت گئی، اس ٹیم کو دنیا کے سامنے متعارف ہونے کا ایک بڑا موقع جب آیا جب پاکستان کو آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچز ہوسٹ کرنے کا 2007 میں موقع ملا۔ ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں لیکن ٹورنامنٹ سے عین پہلے سیاسی حالات کی وجہ سے اسے ساؤتھ افریقہ منتقل کردیا گیا، ان میچز میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی اچھی رہی اور ٹیم نے آئرلینڈ، زمبابوے، اسکاٹ لینڈ، نیدر لینڈ اور ہانگ کانگ کی ٹیمز کو ہراہا۔
پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کے خلاف تھا، اس کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور وہ کم وسائل کے ساتھ بھی کھیلتی رہیں، کئی سال گزرنے کے بعد اب پاکستان، ویمنز کرکٹ ٹیم کی طرف نرمی برتنے لگا ہے، بغیر کسی مناسب کوچنگ کے ویمنز ٹیم اپنی سی پوری کوشش کرتی رہی، ہر میچ میں بہتر سے بہتر پرفارمنس پیش کرنے کی اور اس کے نتیجے میں 2010 میں ایشین گیمز میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔
جلد ہی آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ ہونے والا ہے اور اس بار ہماری ٹیم پہلے سے بھی بہت زیادہ پرامید ہے جیتنے کے لیے، وجہ۔۔۔۔۔؟ وجہ جاوید میانداد ہیں، وہ جاوید میانداد جنہوں نے کئی میچز میں انڈیا کے چھکے چھڑائے ہیں، ایک بار پھر تاریخ دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ویمنز ٹیم کو پوری ذمے داری سے اس ٹورنامنٹ کے لیے تیار کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ ڈیوواٹ مور ہیڈ کوچ ہیں۔
ٹیم منیجر عائشہ اشعر کے مطابق وہ لوگ پوری طرح تیار ہیں، اس سال ورلڈکپ جیتنے کے لیے اور ساتھ ہی اس ورلٹ کپ کو جیت کر وہ یہ بھی ثابت کرنا چاہتی ہیں کہ خواتین مردوں سے کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں، لیکن شاید یہ جیت ایک خواب بن کر رہ جائے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان اس ٹورنامنٹ سے پہلے حالات پیچیدہ ہوگئے جس کے بعد انڈیا میں ہونے والے اس ورلڈ کپ میں ہماری ٹیم کا جاکر کھیلنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی سے درخواست کی ہے کہ سیکیورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی ٹیم کے میچز ممبئی سے کہیں اور شفٹ کردیے جائیں۔
پاکستانی مینز ٹیم کے پچھلے مہینے انڈیا میں میچز جیتنے کے باوجود آئی سی سی کے ہمارے بارے میں کوئی خاص تاثرات نہیں تھے، ان کے مطابق پاکستان میں کسی بھی انٹرنیشنل ٹیم کو کھیلنے کے لیے نہیں جانا چاہیے کیونکہ وہاں مناسب حفاظتی انتظامات نہیں ہیں۔
ایک موقع پر ہماری ویمنز ٹیم کے پاس جس میں وہ دنیا کے سامنے پروگریسو پاکستان اور ویمنز رائٹس کی بہترین تصویر پیش کرسکتی ہیں ٹورنامنٹ جیت کر، اگر حالات نے ساتھ دیا تو ہماری ویمنز کرکٹ ٹیم کو ''چک دے پاکستان'' کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور ہماری ٹیم کی ایک چھوٹی سی خبر پاکستان میں ایک بڑا بدلاؤ لائے گی۔