نیکی کا انجام
5 جون 1977 کو جنرل ضیاء نے اپنے محسن وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا
''مدد، مدد کرو بھلے آدمی مجھے آزاد کرائو'' کسان نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، اس کی نظر ایک سانپ پر پڑی جو درخت کے پھٹے ہوئے تنے میں بری طرح پھنسا ہوا تھا ''نہیں، میں تمہاری مدد نہیں کروں گا کیونکہ تم مجھے ڈس لو گے۔'' کسان نے سانپ کو جواب دیا، سانپ نے اسے یقین دلایا کہ وہ اسے آزاد کرا دے گا تو وہ اسے ہرگز نہیں کاٹے گا۔ کسان نے اپنی کلہاڑی تنے کی دراڑ میں پھنسائی، دراڑ کھل گئی اور سانپ آزاد ہوگیا۔ سانپ آزاد ہوتے ہی کسان کی گردن کے گرد لپٹ گیا اور اسے ڈسنے کے لیے اپنا پھن پھیلا لیا۔ ''میں نہ کہتا تھا کہ تم بھلائی کا بدلہ برائی سے دو گے''، کسان نے کہا۔ ''باتیں بنانا تو بڑا آسان ہے لیکن دنیا کا طریقہ یہ ہے کہ نیکی کا بدلہ برائی ہوتا ہے۔'' سانپ نے جواب دیا۔ کسان نے جواباً کہا ''میں نہیں مانتا، نیکی خود انعام ہے۔'' سانپ نے کہا، ''میں تم سے بہتر جانتا ہوں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔'' کسان نے تجویز پیش کی ''چلو کسی تیسرے شخص سے فیصلہ کرا لیتے ہیں۔''
جنگل میں آگے انھیں ایک بوڑھا اور تباہ حال گھوڑا ملا۔ اس گھوڑے سے انھوں نے سوال کیا کہ اس دنیا میں نیکی کا اجر اچھا ملتا ہے یا برا؟ گھوڑے نے جواب دیا ''بے شک نیکی کا انجام برا ہوتا ہے، میں نے اپنے مالک کی بیس سال خدمت کی، اسے اپنی پشت پر اٹھائے پھرتا اور اس کی گاڑی کھینچتا رہا اور اس دوران میں ہمیشہ پھونک پھونک کر قدم اٹھاتا تھا کہ مبادا میرا پائوں نہ پھسل جائے، جب تک میں جوان اور طاقتور رہا تو مجھ سے بڑا اچھا سلوک کیا جاتا اور اچھی خوراک ملتی، میرے لیے ایک آرام دہ اصطبل تھا۔ چونکہ اب میں بو ڑھا اور کمزور ہوگیا ہوں، اس لیے پن چکی میں جوت دیا گیا ہوں اور اب مجھے ہر موسم میں دن رات یہاں چھوڑ دیا جاتا ہے، مجھے کھانے کو کچھ نہیں دیا جاتا، سوائے اس کے جوکچھ یہاں پاتا ہوں، نہیں نیکی کا انعام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔''
''دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ نیکی کا انجام برا ہے، اب میں تمہیں ڈس لوں گا۔'' سانپ نے کہا۔ کسان نے التجا کی ''ایک لمحہ اور انتظار کرلو، وہ دیکھو لومڑ آرہا ہے، اس کی رائے بھی پوچھنی چاہیے۔'' سانپ نے لومڑ سے پوچھا ''یہ سچ نہیں کہ نیکی کا انجام برا ہوتا ہے یا جیسا کہ اس آدمی کا خیال ہے کہ بعض اوقات نیکی کا بدلہ بھی نیکی ہوتا ہے؟''
''اچھا ہی بولنا۔'' کسان نے سرگو شی میں کہا ''پھر میں تمہیں دو موٹی بطخیں دوں گا۔'' سانپ یہ سر گوشی نہ سن سکا۔ لومڑ نے جواب دیا ''اچھے کاموں کا اچھا انعام ملتا ہے۔'' اور ساتھ ہی وہ سانپ پر لپکا اور اس کی گرد ن پر اس زور سے کاٹا کہ وہ زمین پر آرہا۔ سانپ مرچکا تھا اور کسان آزاد تھا، اس نے لو مڑ سے کہا میرے ساتھ گھر چلو اور بطخیں لے آئو۔ لومڑ نے جواب دیا ''میں تمہارے ساتھ نہیں جائوں گا کیونکہ تم مجھ پر کتے چھوڑ دو گے۔''
''تو پھر یہاں انتظار کرو، میں ابھی تمہیں بطخیں لادیتا ہوں۔'' کسان دوڑتا ہوا گھر پہنچا اور بیوی سے کہا ''جلدی سے دو موٹی بطخیں بوری میں بند کردو، میں لومڑ کے لیے ناشتے کا وعدہ کرکے آیا ہوں۔'' اس کی بیوی نے ایک بوری میں کچھ بند کرکے اس کے سپرد کردیا، کسان بو ری کندھے پر لادے لومڑ کے پاس پہنچا ''لو اپنا انعام جس کا تم سے وعدہ کرکے گیا تھا۔'' لومڑ نے خوش ہو کر کہا ''میں نے سچ کہا تھا کہ نیکی کا انجام اچھا ہوتا ہے۔'' لومڑ بوری اپنی پشت پر رکھے بھٹ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اپنے بھٹ میں پہنچ کر لومڑ بوری کی رسی کو کاٹنے لگا، رسی کٹ چکی تو یک لخت بوری سے دو خونخوار کتے لپکے اور اسے گلے سے دبو چ لیا اور ایک منٹ کی جدوجہد کے بعد وہ ٹھنڈا ہوگیا۔
یہ بات کچھ کچھ درست لگتی ہے کہ نیکی کا انجام ہمیشہ اچھا نہیں ہوتا ہے۔ آئیں ہم پاکستانی سیاست کی تاریخ کے اہم کرداروں کا جائزہ لیتے ہیں، قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد انھوں نے وزیراعظم پاکستان کا عہدہ سنبھال لیا، خواجہ صاحب کی سفارش پر ملک غلام محمد کو گورنر جنرل کے عہدے سے سرفراز کیاگیا۔ 1953 میں ملک شدید مالی بحران کا شکار ہوگیا، ملک غلام محمد جو خاموشی سے مناسب موقع کا انتظار کررہے تھے کہ وہ اقتدار پر بلا شرکت غیرے قابض ہوسکیں، انھوں نے ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیروں، مملکت کے اہم عہدے داروں کو اپنے ساتھ ملالیا اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین جو ملک غلام محمد کے محسن تھے، کی حکومت کو برخاست کردیا۔
جب دوسری آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کے نتیجے میں چوہدری محمد علی وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو اس وقت تک گورنر جنرل ملک غلام محمد کی صحت خراب رہنے لگی تھی اور ذہنی توازن بھی ساتھ چھوڑ رہا تھا چوہدری محمد علی گورنر جنرل ملک غلام محمد کے قریبی دوست تھے، انھوں نے انھیں اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ دو ماہ کی رخصت لے لیں۔ 11 ستمبر 1955 کو جب دو ماہ کی رخصت کے بعد ملک غلام محمد واپس آئے تو جنرل اسکندر مرزا نے کسی طریقے سے ان سے استعفیٰ پر دستخط لے لیے اور ملک غلام محمد کا اقتدار اپنے انجام کو پہنچا اور خود گورنر جنرل بن گئے۔ اس کے بعد اسکندر مرزا نے جمہوریت کی بساط لپیٹنے اور حکومت کے تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے اپنے دوست جنر ل ایوب خان کے ساتھ مل کر منصوبہ بنایا اور کامیاب ہوگئے۔
جون 1958 میں جنرل ایوب خان کی مدت ملازمت میں توسیع کردی گئی، اس کے لیے وہ اسکندر مرزا کے احسان مند تھے، اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کو برخاست کرکے آئین منسوخ کر دیا اور ملک بھر میں مار شل لانافذ کردیا گیا، جنرل ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے، صرف بیس دن بعد ہی اسکندر مرزا کی قسمت کا ستارہ ڈوب گیا۔ 27 اکتوبر 1958 کو تین جنرل، اسکندر مرزا کی خواب گاہ میں داخل ہوئے اور انھوں نے اسکندر مرزا سے استعفیٰ کے خط پر دستخط لے لیے اور جنرل ایوب خان بلاشرکت غیرے اقتدار کے مالک بن گئے اور پھر 25 مارچ 1969 کو جنرل یحییٰ خان ایوب خان کے دفتر میں داخل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ مار شل لا لگانے کا وقت آگیا ہے، اس کے جواب میں ایوب خان کہتے ہیں مجھے تمہاری تجویز منظور ہے۔
5 جون 1977 کو جنرل ضیاء نے اپنے محسن وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر شہید کردیا گیا۔ 16 نومبر 1988 کو عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور 2 دسمبر 1988 کو محترمہ بینظیر بھٹو نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ 6 اگست 1990 کو صدر اسحاق خان نے آئین کی دفعہ (2) 58 بی کا استعمال کرتے ہوئے اپنی محسن محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا۔
اکتوبر 1990 میں ہونیوالے عام انتخابات کے نتیجے میں میاں نواز شریف نے 6 نومبر 1990 کو وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ 18 جولائی 1993 کو ایک بار پھر صدر اسحاق خان نے حکومت برطرف کردی۔ 6 اکتوبر 1993 کو ہونیوالے انتخابات کے نتیجے میں 19 اکتوبر کو محترمہ بینظیر بھٹو نے دوسری مرتبہ وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ محترمہ نے اپنی پارٹی کے پرانے وفادار فاروق لغاری کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا۔ 5 نومبر 1996 کو صدر فاروق لغاری نے اپنی محسن محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو جھوٹے الزامات لگا کر برطرف کردیا۔ 3 فروری 1997 کو ہونیوالے انتخابات کے نتیجے میں 17 فروری 1997 کو میاں نواز شریف نے دوسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور 12 اکتوبر 1999 کی شام جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کردی۔ اس جائزے کے بعد نیکی کا انجام اچھا ہوتا ہے یا برا؟ فیصلہ کرنے کا اختیار آپ کے پاس ہے۔