ٹوپی کے اندر کیا ہے

حکمران پارٹی PPP اعلان کر رہی ہے کہ الیکشن میں ایک دن کی تاخیر بھی نہیں ہوگی۔

سوداکاری کا آزمودہ فارمولا یہ ہے کہ موت کا مطالبہ کرتے ہیں تو بخار پر سمجھوتا ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمائشوں ، مطالبوں، دباؤ ڈالنے کے ہتھکنڈوں کے درمیان یہ دیکھا جاتا ہے کہ کلیدی/ بنیادی مطالبہ کیا ہے؟ اسلام آباد دھرنے کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ایک ایسی خودمختار نگراں حکومت قائم کی جائے جس میں صرف دو بڑی پارٹیوں کی مرضی ہی نہیں بلکہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت بھی شامل ہو۔

اس ساری رام کہانی کا مقصد صرف اتنا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے لیے دستیاب قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کی گارنٹی لی جائے، جو گرد آلود قانون کی کتابوں میں سوکھے گلابوں کی طرح دفن ہیں۔ مثلاً آرٹیکل 63-62 عوامی ایکٹ 1976 کے شق 77 سے 82 تک، سپریم کورٹ کا فیصلہ 2012 وغیرہ۔ تاکہ انتخابات کو دھن، دھونس اور دھاندلی کے نرغے سے نکالا جاسکے۔ جس پر تھری ڈی سنڈیکیٹ (دھن، دھونس، دھاندلی، برادری) نے شور شرابا شروع کردیا۔ یعنی 'اگر کسی کو قائل نہیں کرسکتے تو الجھن میں ڈال دو، والے فارمولے پر عمل شروع ہوگیا۔ سب مل کر ایک ہی راگ الاپنے لگے کہ طاہرالقادری کی آمد کے پیچھے الیکشن ملتوی کرانے کی سازش نظر آتی ہے۔ کوئی ایک بھی اس نکتے پر غور کرتا نظر نہیں آتا کہ کیا ان کی باتوں میں گہرائی اور گیرائی ہے؟ کیا ان میں قائدانہ صلاحیت ہے؟ اس کے برخلاف اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ ان کے سر کے اوپر کس کا سایہ ہے؟ ان کی ٹوپی کے اندر کیا ہے؟

طاہرالقادری یقین دلا تے رہے ہیں کہ وہ الیکشن ملتوی کرانے نہیں آئے، حکمران پارٹی PPP اعلان کر رہی ہے کہ الیکشن میں ایک دن کی تاخیر بھی نہیں ہوگی۔ اپوزیشن وارننگ دے رہی ہے الیکشن ملتوی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو ہدایت دے رہی ہے کہ الیکشن کی تیاری کریں۔ تانگہ پارٹیاں دھمکا رہی ہیں اگر الیکشن ملتوی ہوئے تو ملک میں خون خرابہ بھی ہوسکتا ہے اور تو اور امریکا، برطانیہ بھی پاکستان میں الیکشن کا بروقت انعقاد چاہتے ہیں۔ ایسے میں مجھے وہ سردار جی یاد آرہے ہیں جو اپنے ایک دوست کو تیزی سے جاتا ہوا دیکھ کر دریافت کرتے ہیں ''بڑی جلدی میں ہو سردار جی! کیا گولڈن ٹیمپل جارہے ہو؟'' دوسرے سردار جی نے جواب دیا ''ناجی نا! میں تو گولڈن ٹیمپل جارہا ہوں'' پہلے سردار جی نے اطمینان کا اظہار کیا ''اچھا اچھا، میں سمجھا شاید آپ گولڈن ٹیمپل جارہے ہیں۔''

جاری نظام کی ''تبدیلی'' کے لیے بنیادی شرط عوام کی ''ذہنی'' تبدیلی ہے۔ اگر یہ واقع ہوجائے تو ''نظام'' کی تبدیلی ہوکر رہتی ہے، آج نہیں تو کل، صبح نہیں تو شام۔ انقلابی اقدامات سے نہیں تو خونیں انقلاب کے ذریعے۔


اس وقت عوام تبدیلی کے لیے پاگل ہورہے ہیں، ثبوت؟ ہر نووارد/ اجنبی کے جلسے میں ریکارڈ توڑ حاضری ہے، پہلے بات جلسے سے شروع ہوکر جلوس تک رہتی تھی۔ آج لانگ مارچ سے شروع ہوکر دھرنے تک پہنچ چکی ہے۔ کیا کبھی پاکستان نے سخت سردی اور بارش میں سانحہ کوئٹہ جیسا 86 لاشوں کے ساتھ رونگٹے کھڑے کردینے والا دھرنا دیکھا؟ کیا کبھی اسلام آباد ڈی چوک پر انسانوں کے سمندر کو (بشمول عورتوں اور شیر خوار بچوں) خون منجمد کرنے والی سردی اور بارش میں دھرنا دیتے ہوئے دیکھا؟ ان کی کامیابی کا راز یہ تھا کہ یہ لوگ پرامن تھے، منظم تھے اور ہٹ کے پکے تھے۔

طاہرالقادری اور عمران خان کا ایجنڈا ایک تھا اور حکمت عملی جدا، فارمولا Good Cop and Bad Cop والا۔ جس میں ایک پولیس والا دھمکاتا ہے، دوسرا پولیس والا چمکارتا ہے۔ 17 جنوری کو طاہرالقادری نے ڈیڑھ بجے دھرنا لپیٹنے کا اعلان کرتے ہوئے الٹی میٹم دیا کہ تین بجے تک مذاکرات کا وقت ہے اس کے بعد نئے ایکشن پلان کا اعلان کریں گے اور امن کی ضمانت ''ضبط'' کرلیں گے۔ عمران خان نے بھی سونامی پلان دینے کے لیے تین بجے پریس کانفرنس کرنے کا اعلان کردیا۔ ایک سینئر اینکر پرسن کے مطابق A مرحلے میں طاہرالقادری کے ساتھ MQM کو رہنا تھا اگر کام نہیں بنا تو B مرحلے میں PTI کو ان کی جگہ لینا تھا۔ لیکن اس سے پہلے موقعہ غنیمت جان کر پونے چار بجے حکومتی دس رکنی وفد (PPP کے امین فہیم، خورشید شاہ، کائرہ، فاروق نائیک، (ق) لیگ کے مشاہد حسین، ایم کیو ایم کے فاروق ستار اور بابر غوری، اے این پی کے افراسیاب خٹک، فاٹا کے عباس آفریدی) چوہدری شجاعت کی سربراہی میں طاہر القادری کے کنٹینر میں گھس گیا۔ عمران خان کی پریس کانفرنس پہلے ملتوی ہوئی پھر منسوخ ہوگئی۔ یوں اسلام آباد کے گملے اور کھڑکیوں کے شیشے سونامی سے محفوظ رہے۔ اگر B مرحلہ شروع ہوجاتا تو عمران خان کا سونامی اسلام آباد تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ پورے ملک میں پھیل جاتا، کیونکہ چند دن پہلے سانحہ کوئٹہ کے دھرنا دینے والوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پورے ملک کی شاہراہوں اور چوراہوں پر بیک وقت دھرنا دینے کی کامیاب ریہرسل ہوتے ہم سب نے ٹی وی پر دیکھا ہے۔

اﷲ تعالیٰ قادر مطلق ہے۔ وہ جس سے جو کام لینا چاہتا ہے لے لیتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کیا جبہ و دستار والوں کی کمی تھی جو اﷲ تعالیٰ نے تھری پیس سوٹ والے محمد علی جناح کو چنا، جو عربی تو کجا اردو کا ایک لفظ بھی صحیح تلفظ سے بول نہیں سکتے تھے۔ اس کے باوجود لاکھوں کا مجمع ان کی انگریزی تقریر سننے ہمہ تن گوش بیٹھا رہتا تھا اور ''بن کے رہے گا پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان'' کے نعرے لگاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ اگر آج کی طرح قوم اپنی آنکھوں پر لسانی، مسلکی، صوبائی، طبقاتی، گروہی تعصب کے چشمے لگا کر قائداعظم کا جائزہ لیتی تو کیا قیام پاکستان ممکن ہوتا؟ کیا آج کے بچے کچھے پاکستان کی بقا ممکن ہے؟

ہم جس پاکستان میں بیٹھ کر طاہر القادری کو آدھا پاکستانی ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں کیا وہ پورا پاکستان ہے؟ اگر ہے تو مشرقی پاکستان کہاں گیا؟ کیا وہ اصل اکثریت رکھنے والا پاکستان نہیں تھا؟ اگر وہ بنگلہ دیش بن گیا تو آخر وہ دن کب آئے گا کہ ہم حماقتوں کا جائزہ لیں گے؟ قانوناً کسی بھی پاکستانی پر دہری شہریت کی پابندی نہیں ہے۔ پابندی صرف ارکان اسمبلی پر ہے۔ 65 سال میں پہلی مرتبہ دہری شہریت رکھنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی ہوئی، کیا 65 سال کے دوران ارکان اسمبلی دہری شہریت کے حامل نہیں تھے؟ کیا ریکارڈ توڑ زرمبادلہ بھیجنے والے بیرون ملک کام کرنے والے ہنرمند کارکنوں کی اکثریت دہری شہریت نہیں رکھتی؟ ہر سیاسی پارٹی کے سیاسی پناہ حاصل کرنے والے دہری شہریت نہیں رکھتے؟ کیا صنعتکاروں، جاگیرداروں، تاجروں کی اکثریت دہری شہریت نہیں رکھتی؟ کیا امریکی ویزہ لاٹری میں کامیاب ہونے والے ہزاروں پاکستانیوں نے امریکی شہریت اختیار نہیں کی؟ آج تک کیا کسی ایک شخص نے بھی مخالفت کی؟ آج سارا تھری ڈی سنڈیکیٹ ایک آدمی کے خلاف چلا رہا ہے۔

ہم 65 سالہ پرانے بار بار کے آزمائے ہوئے، خاندانی سیاسی رہنماؤں سے بیزار بھی ہیں، ان سے نجات بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تبدیلی کے لیے پاگل بھی ہورہے ہیں، ایسے میں اگر کوئی طاہرالقادری رہنمائی کے لیے آگے آتا ہے تو اس کو ''ٹوپی ڈرامہ'' بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ طے ہے جو بھی رہنمائی کے لیے آگے بڑھے گا وہ ہم میں سے ہوگا اور ہم جیسا ہوگا۔ اب اگر اس کا جس لسانی، مسلکی صوبائی (وغیرہ) گروہ سے تعلق ہو، ان کی آنکھ کا تارا اور باقی سارے گروہوں کی آنکھ کا کانٹا ثابت ہو تو پھر کیا ہماری رہنمائی کے لیے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے؟
Load Next Story