مُشتری ہوشیار باش
بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹرول لائن پر باڑھ لگانے میں مصروف ہے
SUKKUR:
اس حقیقت سے تو انکار ممکن ہی نہیں ہے کہ بھارت پاکستان کا سب سے بڑا اور ازلی دشمن ہے۔ بھارت میں خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو، پاکستان کو کسی نہ کسی طور سے گزند پہنچانا اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی جزو ہے۔ گویا پاکستان کی مخالفت اور پاکستان دشمنی پر بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ بس فرق طریقہ واردات کا ہے۔
بھارت کی بانی انڈین نیشنل کانگریس کا طریقہ واردات منہ میں رام رام بغل میں چھری والا تھا جب کہ موجودہ حکمراں جماعت بی جے پی پاکستان اور مسلم دشمنی کے حوالے سے شمشیر برہنہ یا ننگی تلوار کی طرح ہے۔ بھارت کا قومی ترانہ جوکانگریس پارٹی نے ہی منظور کیا تھا اس میں ہمارے صوبہ سندھ کا حوالہ بھارت کے دیگر جغرافیائی حصوں کے ساتھ جوڑ کرکیا گیا ہے جوکہ سراسر پاکستان کی سالمیت کے خلاف اور بھارت کی بد نیتی پر مبنی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی چند روز قبل بی جے پی کے ایک بدنام زمانہ رہنما ایل کے ایڈوانی نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں سندھ کے بھارت کا حصہ نہ ہونے پر بڑا دکھ محسوس ہوتا ہے۔ اس سے بھارتی نیتاؤں کی ذہنیت صاف ظاہر ہے۔ بھارت کے قومی ترانے میں سندھ کا نام درج ذیل الفاظ میں شامل ہے ملاحظہ فرمائیں:
پنجاب' سندھ' گجرات' مرہٹہ دراوِڑ اُتکل' بَنگا
وِندھ' ہِماچل' یَمنا' گنگا' اُچھّل' جلدھی ترنگا
عجیب بات یہ ہے کہ بھارت کی اس شرانگیزی کا شاید کسی نے بھی نوٹس ہی نہیں لیا۔ اسی طرح بنگالی شدت پسند ہندو رائٹر بنکم چندر چڑجی کی ایک کتاب ''آنند مٹھ'' میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی جانب کسی نے بھی توجہ ہی نہیں کی۔ہندوستان میں مسلمان دشمنی کی آگ مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں شیواجی مرہٹہ نے بھڑکائی تھی جو ابتدائی طور پر ایک ظالم اور عیار لٹیرا تھا اور جس نے شہنشاہ اورنگ زیب کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔
چوری چھپے گھات لگا کر حملے کرنا اس کا طریقہ واردات تھا۔ پھر ایک دن وہ مغل فوج کے ہتھے چڑھ گیا اورگرفتار کرلیا گیا، مگرکچھ دنوں بعد اس مکار نے ایک زبردست چال چلی اور پھلوں کے بڑے سے ٹوکرے میں چھپ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ بھارت کی بدنام زمانہ انتہا پسند ہندو تنظیم شیوسینا اسی عیار ومکار شیواجی مرہٹے کی پیروکار ہے۔ بھارت کی انتہاپسند جماعتوں راشٹریہ سوئم، سنگھ، ہندو مہاسبھا سابقہ جُن سنگھ، بی جے پی، بجرنگ دل اور سنگھ پری وار سمیت اس قبیل کی تمام مسلم دشمن تنظیموں کے ڈانڈے اسی کے ساتھ ملتے ہیں۔
ویرساورکر، موسنجے، بال گنگا دُھرتلک، گروگول والکر، ایل کے ایڈوانی اور بھارت کے موجودہ پردھان منتری نریندر مودی وغیرہ تمام ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈین نیشنل کانگریس جو سیکیولرزم کی دعوے دار ہے اس میں بھی سردار ولبھ بھائی پٹیل، گووند ولبھ پنت اور پرشوتم داس ٹنڈن جیسے متعصب انتہا پسند ہندو شامل تھے جن سے مولانا ابوالکلام آزاد جیسے کانگریسی مسلمان رہنما کو بھی چڑ تھی۔
یہی ولبھ بھائی پٹیل تھے جنھوں نے مسلم ریاست حیدرآباد دکن پر بھارتی فوج کے ذریعے چڑھائی کرکے اسے جبراً بھارت کا حصہ بنایا تھا۔ برصغیر کے بٹوارے کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والے اثاثوں کو پاکستان کے حوالے نہ کرنے اور مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال مٹول کرنے کے پس پشت بھی ان ہی لوگوں کا ہاتھ تھا۔
1947 کے مسلم کش فسادات اور بعدازاں بھارت میں وقتاً فوقتاً ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں بھی اسی ذہنیت کے لوگ ملوث تھے۔ اور تو اور تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا الم ناک سانحہ بھی کانگریس حکومت کے دور میں ہی پیش آیا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان بھی پنڈت نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کا ہی کیا دھرا تھا۔ سکھوں کے سب سے بڑے گرودوارے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی بھی اندرا گاندھی کے دور حکمرانی میں ہوئی تھی۔
کاش بھارت کے سکھوں میں اتنی غیرت ہوتی کہ وہ اس ناقابل فراموش واقعے اور سانحے کو یاد رکھتے جب کہ پاکستان میں نہ صرف سکھ یاتریوں کی ہمیشہ خاطر تواضح کی جاتی ہے بلکہ ان کے تمام مقدس مقامات کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ افسوس کہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے فیصلہ کن موڑ پر سکھ قوم ہندو قیادت کے جھانسے میں آگئی اور اس نے قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ نہیں دیا ورنہ تو خالصتان کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا تھا۔ لیکن:
اب پچھتاوت ہووت کیا
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے پاکستان کو زک پہنچانے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور پاکستان کی مخالفت اور پاکستان سے مخاصمت اس کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان ایٹمی قوت نہ ہوتا تو بھارت اس پر کب کا حملہ آور ہوچکا ہوتا۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ اپنے اس مذموم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش بھی کرکے دیکھ لی جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی۔
ادھر گزشتہ دنوں بھارتی فوج نے خنجر سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی گاڑی کو اپنی فائرنگ کا نشانہ بناکر اپنی برہنہ جارحیت کا تازہ ترین ثبوت پیش کردیا اور بھارت کے امن پسندی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔ اقوام متحدہ کے دو فوجی مبصرین اپنی گاڑی پر نیلے رنگ کا جھنڈا لہراتے ہوئے لائن آف کنٹرول کا معائنہ کر رہے تھے۔ مقام شکر ہے کہ یہ دونوں مبصرین محفوظ رہے۔ تاہم اس سے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا۔
ادھر بھارت کی فضائیہ کے سربراہ کی گیدڑ بھبکیوں کے جواب میں پاک فضائیہ کے سربراہ سہیل امان نے خبردار کیا ہے کہ اگر دشمن نے جارحیت کی تو ایسا جواب دیں گے کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ انھوں نے کہا کہ ہم سارا سال ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔ قوم کو دشمن کے بیانات پر رتی بھر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ سرحدوں کے ساتھ کسی بھی جگہ پر کسی بھی اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ہماری عسکری قیادت ان بھارتی عزائم سے خبردار ہے جس کے تحت امریکی ڈائریکٹر ڈیفنس انٹیلی جنس لیفٹیننٹ جنرل ونسنٹ اسٹیوروٹ نے امریکی پارلیمان کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ بھارت پاکستان کو دنیا میں سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی مہم کے ساتھ ساتھ فوجی محاذ پر بھی الجھانا چاہتا ہے۔
بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹرول لائن پر باڑھ لگانے میں مصروف ہے اور دوسری جانب ڈیم بنا بناکر پاکستان کا پانی چوری کر رہا ہے جس سے پاکستان کی زراعت کے لیے سنگین خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ بھارت ایشیا کی چوہدراہٹ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے جو انشا اللہ کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
بھارت ایک جانب پاکستان کو ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری جانب اسے طرح طرح سے بہلانے پھسلانے اور رام کرنے کے حربے آزما رہا ہے جس میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مودی کی تقریب حلف برداری میں بلانا اور نواز شریف کی نواسی کی شادی میں مودی کی شرکت اور پاکستان کی سرزمین پر بھارت کے بزنس ٹائیکون جندال کی حالیہ نجی ملاقات بھی شامل ہے۔ چانکیہ کے چیلے ہر طرح کی چالیں چل رہے ہیں اور ہر حربہ آزما رہے ہیں۔ مشتری ہوشیار باش!
اس حقیقت سے تو انکار ممکن ہی نہیں ہے کہ بھارت پاکستان کا سب سے بڑا اور ازلی دشمن ہے۔ بھارت میں خواہ کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت ہو، پاکستان کو کسی نہ کسی طور سے گزند پہنچانا اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی جزو ہے۔ گویا پاکستان کی مخالفت اور پاکستان دشمنی پر بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مکمل اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ بس فرق طریقہ واردات کا ہے۔
بھارت کی بانی انڈین نیشنل کانگریس کا طریقہ واردات منہ میں رام رام بغل میں چھری والا تھا جب کہ موجودہ حکمراں جماعت بی جے پی پاکستان اور مسلم دشمنی کے حوالے سے شمشیر برہنہ یا ننگی تلوار کی طرح ہے۔ بھارت کا قومی ترانہ جوکانگریس پارٹی نے ہی منظور کیا تھا اس میں ہمارے صوبہ سندھ کا حوالہ بھارت کے دیگر جغرافیائی حصوں کے ساتھ جوڑ کرکیا گیا ہے جوکہ سراسر پاکستان کی سالمیت کے خلاف اور بھارت کی بد نیتی پر مبنی ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی چند روز قبل بی جے پی کے ایک بدنام زمانہ رہنما ایل کے ایڈوانی نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں سندھ کے بھارت کا حصہ نہ ہونے پر بڑا دکھ محسوس ہوتا ہے۔ اس سے بھارتی نیتاؤں کی ذہنیت صاف ظاہر ہے۔ بھارت کے قومی ترانے میں سندھ کا نام درج ذیل الفاظ میں شامل ہے ملاحظہ فرمائیں:
پنجاب' سندھ' گجرات' مرہٹہ دراوِڑ اُتکل' بَنگا
وِندھ' ہِماچل' یَمنا' گنگا' اُچھّل' جلدھی ترنگا
عجیب بات یہ ہے کہ بھارت کی اس شرانگیزی کا شاید کسی نے بھی نوٹس ہی نہیں لیا۔ اسی طرح بنگالی شدت پسند ہندو رائٹر بنکم چندر چڑجی کی ایک کتاب ''آنند مٹھ'' میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی جانب کسی نے بھی توجہ ہی نہیں کی۔ہندوستان میں مسلمان دشمنی کی آگ مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں شیواجی مرہٹہ نے بھڑکائی تھی جو ابتدائی طور پر ایک ظالم اور عیار لٹیرا تھا اور جس نے شہنشاہ اورنگ زیب کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔
چوری چھپے گھات لگا کر حملے کرنا اس کا طریقہ واردات تھا۔ پھر ایک دن وہ مغل فوج کے ہتھے چڑھ گیا اورگرفتار کرلیا گیا، مگرکچھ دنوں بعد اس مکار نے ایک زبردست چال چلی اور پھلوں کے بڑے سے ٹوکرے میں چھپ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ بھارت کی بدنام زمانہ انتہا پسند ہندو تنظیم شیوسینا اسی عیار ومکار شیواجی مرہٹے کی پیروکار ہے۔ بھارت کی انتہاپسند جماعتوں راشٹریہ سوئم، سنگھ، ہندو مہاسبھا سابقہ جُن سنگھ، بی جے پی، بجرنگ دل اور سنگھ پری وار سمیت اس قبیل کی تمام مسلم دشمن تنظیموں کے ڈانڈے اسی کے ساتھ ملتے ہیں۔
ویرساورکر، موسنجے، بال گنگا دُھرتلک، گروگول والکر، ایل کے ایڈوانی اور بھارت کے موجودہ پردھان منتری نریندر مودی وغیرہ تمام ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈین نیشنل کانگریس جو سیکیولرزم کی دعوے دار ہے اس میں بھی سردار ولبھ بھائی پٹیل، گووند ولبھ پنت اور پرشوتم داس ٹنڈن جیسے متعصب انتہا پسند ہندو شامل تھے جن سے مولانا ابوالکلام آزاد جیسے کانگریسی مسلمان رہنما کو بھی چڑ تھی۔
یہی ولبھ بھائی پٹیل تھے جنھوں نے مسلم ریاست حیدرآباد دکن پر بھارتی فوج کے ذریعے چڑھائی کرکے اسے جبراً بھارت کا حصہ بنایا تھا۔ برصغیر کے بٹوارے کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والے اثاثوں کو پاکستان کے حوالے نہ کرنے اور مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال مٹول کرنے کے پس پشت بھی ان ہی لوگوں کا ہاتھ تھا۔
1947 کے مسلم کش فسادات اور بعدازاں بھارت میں وقتاً فوقتاً ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں بھی اسی ذہنیت کے لوگ ملوث تھے۔ اور تو اور تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا الم ناک سانحہ بھی کانگریس حکومت کے دور میں ہی پیش آیا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان بھی پنڈت نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کا ہی کیا دھرا تھا۔ سکھوں کے سب سے بڑے گرودوارے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بے حرمتی بھی اندرا گاندھی کے دور حکمرانی میں ہوئی تھی۔
کاش بھارت کے سکھوں میں اتنی غیرت ہوتی کہ وہ اس ناقابل فراموش واقعے اور سانحے کو یاد رکھتے جب کہ پاکستان میں نہ صرف سکھ یاتریوں کی ہمیشہ خاطر تواضح کی جاتی ہے بلکہ ان کے تمام مقدس مقامات کا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ افسوس کہ ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے فیصلہ کن موڑ پر سکھ قوم ہندو قیادت کے جھانسے میں آگئی اور اس نے قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ نہیں دیا ورنہ تو خالصتان کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا تھا۔ لیکن:
اب پچھتاوت ہووت کیا
جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے پاکستان کو زک پہنچانے کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور پاکستان کی مخالفت اور پاکستان سے مخاصمت اس کی رگ رگ میں سمائی ہوئی ہے۔ اگر خدانخواستہ پاکستان ایٹمی قوت نہ ہوتا تو بھارت اس پر کب کا حملہ آور ہوچکا ہوتا۔ اس کا بس نہیں چلتا کہ پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹا دے۔ اپنے اس مذموم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش بھی کرکے دیکھ لی جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی۔
ادھر گزشتہ دنوں بھارتی فوج نے خنجر سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی گاڑی کو اپنی فائرنگ کا نشانہ بناکر اپنی برہنہ جارحیت کا تازہ ترین ثبوت پیش کردیا اور بھارت کے امن پسندی کے دعوؤں کی قلعی کھول دی۔ اقوام متحدہ کے دو فوجی مبصرین اپنی گاڑی پر نیلے رنگ کا جھنڈا لہراتے ہوئے لائن آف کنٹرول کا معائنہ کر رہے تھے۔ مقام شکر ہے کہ یہ دونوں مبصرین محفوظ رہے۔ تاہم اس سے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا۔
ادھر بھارت کی فضائیہ کے سربراہ کی گیدڑ بھبکیوں کے جواب میں پاک فضائیہ کے سربراہ سہیل امان نے خبردار کیا ہے کہ اگر دشمن نے جارحیت کی تو ایسا جواب دیں گے کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ انھوں نے کہا کہ ہم سارا سال ہر لمحہ تیار رہتے ہیں۔ قوم کو دشمن کے بیانات پر رتی بھر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ سرحدوں کے ساتھ کسی بھی جگہ پر کسی بھی اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ہماری عسکری قیادت ان بھارتی عزائم سے خبردار ہے جس کے تحت امریکی ڈائریکٹر ڈیفنس انٹیلی جنس لیفٹیننٹ جنرل ونسنٹ اسٹیوروٹ نے امریکی پارلیمان کو بریفنگ دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ بھارت پاکستان کو دنیا میں سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی مہم کے ساتھ ساتھ فوجی محاذ پر بھی الجھانا چاہتا ہے۔
بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹرول لائن پر باڑھ لگانے میں مصروف ہے اور دوسری جانب ڈیم بنا بناکر پاکستان کا پانی چوری کر رہا ہے جس سے پاکستان کی زراعت کے لیے سنگین خطرات پیدا ہوسکتے ہیں۔ بھارت ایشیا کی چوہدراہٹ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے جو انشا اللہ کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
بھارت ایک جانب پاکستان کو ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری جانب اسے طرح طرح سے بہلانے پھسلانے اور رام کرنے کے حربے آزما رہا ہے جس میں پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مودی کی تقریب حلف برداری میں بلانا اور نواز شریف کی نواسی کی شادی میں مودی کی شرکت اور پاکستان کی سرزمین پر بھارت کے بزنس ٹائیکون جندال کی حالیہ نجی ملاقات بھی شامل ہے۔ چانکیہ کے چیلے ہر طرح کی چالیں چل رہے ہیں اور ہر حربہ آزما رہے ہیں۔ مشتری ہوشیار باش!