آصف زرداری سمجھ داری کی سیاست

آصف زرداری کی سیاسی ذہانت اور فہم و فراست ہی قرار دی جا سکتی ہے


مزمل سہروردی June 06, 2017
[email protected]

ملک میں سیاسی گروہ بندی شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایک دوسرے کا موقف سننے اور سمجھنے کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پتہ نہیں ایسا کیوں ہو رہا ہے کہ ہم سب مخالف سمت بیٹھے شخص کو چور مانے بیٹھے ہیں۔ ہر کوئی اپنی مرضی کی بات کو ہی سچ منوانے پر بضد ہے۔ شاید معاشرہ میں ڈائیلاگ ختم ہوتاجا رہا ہے۔

تحریک انصاف والے تمام ن لیگ کو چور ٹھہرانے پر بضد ہیں اور ن لیگ والے پوری تحریک انصاف کو جمہوریت کا دشمن ٹھہرانے پر بضد ہے۔ مجھے اپنے قارئین سے جو فیڈ بیک ملتا ہے وہ بھی بہت دلچسپ ہے انھیں میرے کالم میں کسی خاص نقطہ نظر پر اعتراض نہیں ہے بلکہ انھیں صرف اور صرف یہ اعتراض رہتا ہے کہ آپ فلاں فریق کے حق میں اور فلاں کے خلاف کیوں لکھتے ہیں شاید اس سیاسی گرہ بندی میںدلیل اور رائے اتنی اہم نہیں رہی ۔

لیکن ایک بات بہت مزہ کی ہے۔ وہ یہ ہے ایک طرف جب لڑتے لڑتے ہوگئی گم ایک کی چونچ اور دوسرے کی دم کے مصداق عمران خان اور میاں نواز شریف دونوں پر نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ایسے میں آصف زرداری نے خود کو اور اپنی تمام جماعت کو اس گروہ بندی اور طوفان سے دور کر لیا ہے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ سیاسی سین میں پیپلزپارٹی اہم نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی تو ہے کہ اس وقت ایک دوسرے کو نااہل قرار دلوانے کی جو ریس شروع ہے آصف زرداری نے خود کو اور اپنی جماعت کو اس سے بچا لیا ہوا ہے۔ کیا حیران کن بات نہیں کہ میاں نواز شریف اور عمران خان پر تو نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے ۔ لیکن آصف زرداری محفوظ ہیں، نہ صرف وہ بلکہ ان کی پوری جماعت محفوظ ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر عاصم باہر آگئے ہیں۔ ان کی چپ بھی ٹوٹ گئی ہے۔

آپ دیکھیں شرجیل میمن ملک واپس آگئے ہیں اور خوب بیانات دے رہے ہیں ۔ شرجیل میمن کو یہ یاد نہیں کہ وہ کتنا عرصہ باہر رہے ہیں لیکن اب وہ سب کو انصاف کا درس دے رہے ہیں۔ راجہ پرویز اشرف بھی ڈٹ کر بول رہے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی بھی ختم ہو گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ پنجاب سے کچھ بڑے نام پیپلزپارٹی سے تحریک انصاف میں جا رہے ہیں۔ لیکن شاید پیپلزپارٹی کو ان کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ پیپلزپارٹی کی موجودہ پنجاب کی سیاست میں پیپلزپارٹی پر سیاسی بوجھ تھے۔ یہ پیپلزپارٹی کو کوئی سیٹ جیت کر دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔اس لیے ان کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پیپلزپارٹی کے لیے تو اس وقت وہ ہی اہم ہے جو پنجاب میں اپنے بل بوتے پر پیپلزپارٹی کو سیٹ جیت کر دے سکے۔ جیتنے والے گھوڑے اہم ہیں۔ ان کی کوئی اہمیت نہیں جو جیتنے کے لیے پارٹی کے ووٹ بینک کے محتاج ہوں۔ اسی لیے جو گئے ہیں وہ اہم نہیں تھے۔کہا جا رہا ہے کہ فردوس عاشق اعوان اپنی سیٹ اپنے بل بوتے پر نہیں جیت سکتی تھیں۔ اسی طرح باقی کی بھی یہی صورتحال ہے۔ دوسری طرف فیصل صالح حیات کی شمولیت کو بڑی کامیابی اس لیے قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی سیٹ جیتنے کے لیے پیپلزپارٹی کے محتاج نہیں۔ سیٹ وہ آزاد بھی جیت سکتے ہیں۔ اس لیے وہ پارٹی کے لیے اہم ہیں۔ ایسے لوگوں کی مزید تلاش جاری ہے۔

آپ مانیں یا نہ مانیں۔ لیکن یہ آصف زرداری کی سیاسی ذہانت اور فہم و فراست ہی قرار دی جا سکتی ہے کہ جب ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ وہ آرام سے باہر بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ اس لڑائی میں فریق نہیں ہیں۔ نہ تحریک انصاف سے لڑنا چاہتے ہیں اور نہ ہی ن لیگ ان سے لڑنا چاہتی ہے۔ ن لیگ کی بھی خواہش ہے کہ وہ اس نازک مرحلہ پر نیوٹرل رہیں اور عمران خان کی بھی خواہش ہے کہ وہ نیوٹرل رہیں۔

ایک وقت تھا کہ آصف زرداری پر کرپشن کے بے پناہ الزامات تھے، ان کے ساتھی بھی کرپشن الزامات میں پھنس چکے تھے۔ بعد ازاں وہ خود اور ان کے قریبی ساتھی بیرون ملک چلے گئے تھے۔ چند پکڑے گئے تھے باقیوں کے پکڑے جانے کا ڈر تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آصف زرداری اور ان کی پارٹی کرپشن کی دلدل میں ایسی پھنس گئی ہے کہ نکلنا مشکل ہو گا۔ ایان علی کا مسئلہ فیثا غورث کا مسئلہ بن گیا تھا کہ حل ہی نہیں ہو رہا تھا۔ لیکن پانامہ تو پیپلزپارٹی کے لیے رحمت بن کر آیا ہے۔

دیکھیں پانامہ کی لڑائی کیا شروع ہوئی آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں پر رحمت کی بارشیں شروع ہو گئی ہیں۔ سب مسٹر کلین ہو گئے ہیں۔آپ یقین کریں کہ آصف زرداری پر ملک کی کسی عدالت میں کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے۔ ان پر نا اہلی کی کوئی تلوار نہیں ہے، وہ صاف ستھرے نہلائے دھلائے ایک نئی اننگ کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سب کیس فارغ، سب الزام ختم، نہ کوئی جے آئی ٹی نہ کوئی مقدمہ۔

اس وقت عجیب صورتحال ہے کہ تحریک انصاف خوش ہو جاتی ہے اگر پیپلزپارٹی ن لیگ پر تنقید کرے۔ لیکن ن لیگ کو پیپلزپارٹی کے تیر بھی پھول لگتے ہیں... '' اپنا مارے چھاویں مارے'' کے مصداق پیپلزپارٹی کی تنقید بری نہیں لگتی۔جب خورشید شاہ کہتے ہیں کہ عمران خان اور نواز شریف ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں تو ن لیگ بھی خوش ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بلاول اور آصف زرداری جب عمران خان پر تنقید کرتے ہیں تو ن لیگ خوش ہو جاتی ہے۔ اس طرح پیپلزپارٹی اس وقت دونوں متحارب دھڑوں کو خوش کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے اور اس میں سے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ اس پالیسی سے آصف زرداری نے اپنے لیے اور اپنے مشکل میں پھنسے ساتھیوں کے لیے ریلیف حاصل کر لیا ہے ۔وہ اور ان کے ساتھی اگلے انتخابات لڑنے کے لیے تیار ہیں۔آصف زرداری اپنی اس پالیسی سے مزید فوائد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ تحریک انصاف کے ساتھ بھی محدود سی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کی چند سیٹیں محفوظ ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح وہ ن لیگ سے بھی پنجاب میں چند سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کرنے کے لیے کوشاں ہیں جس سے ان کی پنجاب میں دو تین سیٹیں محفوظ ہو سکیں۔

اس ضمن میں ن لیگ کی یہ خواہش ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنی سیاسی سرگرمیوں میں تیزی کرے تا کہ تحریک انصاف کا فری ہینڈ ختم کیا جا سکے۔لیکن شائد پیپلز پارٹی کے لیے آگے دونوں جماعتوں سے فوائد سمیٹنا ممکن نہ رہے، یہ مزے یہیں تک تھے۔ اب ایک طرف ہونا پڑے گا۔ لیکن آصف زرداری ایک سیاسی جادو گر ہیں، وہ ناممکن کو ممکن بنانے کا فن جانتے ہیں۔ وہ اگلے انتخابات کے بعد ایک hung پارلیمنٹ میں خود کو وزیر اعظم دیکھ رہے ہیں۔ یہ کس حد تک ممکن ہے۔ یہ قبل از وقت ہے۔ لیکن آصف زرداری نے خود کو تیار کر لیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔