اسحاق ڈار کا پانچواں بجٹ
موجودہ حکومت کو تو ملک میں ایک غریب صدر مملکت ہی نظر آ رہا ہے
وزیراعظم نواز شریف کے قریبی عزیز اور انتہائی بااعتماد وزیرخزانہ محمد اسحاق ڈار نے نواز حکومت کا غالباً آخری بجٹ حسب سابق فخریہ طور پر پیش کیا جس میں ترقیاتی کاموں کے لیے سب سے زیادہ رقم مختص کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
عوامی توقعات کے مطابق پانچ سو ارب روپے کے نئے ٹیکس بھی عاید کر کے ایک بار پھر ثبوت دے دیا ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دینے پر یقین ہی نہیں رکھتے کیونکہ وہ سیاست دان نہیں، تاجر ہیں جو عوام سے نت نئے طریقوں سے ٹیکس وصول کرنے کے منصوبہ ساز ہیں۔ انھوں نے پانچ سال میں یہی کچھ کیا ہے جس پر ملک کے صنعتکار اور تاجر تک مطمئن نہیں ہوتے اور صرف وزیر اعظم ہی مطمئن ہو کر انھیں شاباشی دیتے ہیں جب کہ اس موقعے پر موجود مسلم لیگ ن کے ارکان بجٹ تقریر کو اہمیت دیتے ہیں نہ انھیں اسحاق ڈار کے بجٹ سے دلچسپی ہے۔ ایوان میں بیٹھنے پر تو مجبور ہیں مگر تالیاں بجانے پر مجبور نہیں جس کا مظاہرہ ایوان میں ہوا۔
چار سال سے ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس لے لینے والی وزارت خزانہ کے سربراہ خوشامدیوں سے تعریفیں وصول کر کے خوش ہیں اور حسب روایت بجٹ کو مسترد کرنے والی اپوزیشن مطمئن جب کہ پریشان غریب عوام ہیں جنھیں کاغذی خواب ضرور ہر بجٹ میں دکھائے جاتے ہیں مگر عملی طور پر انھیں ریلیف کبھی نہیں دیا گیا جو مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا وتیرہ رہا ہے کیونکہ ان کے بجٹ سیاسی اور مفاداتی ہوتے ہیں۔
فوجی حکومتوں کے بجٹ اکثر غیر سیاسی ہوتے ہیں اس لیے عوام ان سے بجٹ میں ریلیف کی توقع نہیں رکھتے اور عوام کو ہمیشہ لولی پوپ دینے والی سیاسی حکومتوں سے یہ توقع ہوتی ہے کہ انھیں عوام سے ووٹ لینے ہیں اس لیے شاید وہ اس بار عوام کے مجموعی مفاد کا کوئی بجٹ دے ہی دیں اور یہی توقع پہلی بار پانچوں بجٹ پیش کرنے والی موجودہ لیگی حکومت سے تھی مگر جب غیر سیاسی وزیر خزانہ جنھوں نے کبھی عوام سے ووٹ لینے کا احسان ہی نہیں کیا کیسے عوامی اور حقیقی بجٹ پیش کرسکتے تھے جس پر عوام اور تاجر برادری نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے نئے بجٹ کو الیکشن بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ میں عوام کے نہیں جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے اور زرعی شعبے کو زیادہ مراعات دی گئی ہیں۔ پانچ سو ارب روپے کے نئے ٹیکس عوام پر بوجھ بنیںگے۔ پی ٹی آئی رہنما اسد عمر کے مطابق بجٹ معیشت دوست نہیں اور بجلی اورگیس پر نئے ٹیکس لگ گئے ہیں۔
بجٹ کے روز ملک کے غریب کسان اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے اپنے نمایندوں کو اپنے حالات بتانے اور بپتا سنانے آئے تھے جو سننے کے بعد ممکن تھا سخت گرمی میں سڑک پر احتجاج کرنے والوں کو کچھ مل جاتا مگر انھیں ریڈ زون کے مقدس علاقے سے دور رکھنے کے لیے شیلنگ، لاٹھی چارج کا تحفہ دیا گیا، البتہ گرمی میں واٹر کینن سے انھیں نہلا ضرور دیا گیا۔
ٹھنڈے کمرے میں رہنے کے عادی عوام کے منتخب نمایندوں میں صرف ایک مزدور رہنما جمشید دستی ہی تنہا تھا جس کی کسی نے سننی تھی اس لیے کسانوں کے نام پر جاگیرداروں کے مفادات کے تحفظ پر مبنی بجٹ پیش کردیاگیا جس پر جاگیرداروں کی اکثریت والے ارکان نے خوب ڈیسک بجائے اور وزیر خزانہ کو داد دی۔
اس بجٹ میں عوام کو امید تھی کہ آئندہ سال الیکشن میں جانے والی مسلم لیگ ن کی حکومت عوام کے مجموعی مسائل اور مفادات کا خیال رکھے گی لیکن حیرت انگیز طور پر جاگیرداروں کے مفادات کا خیال رکھا گیا اور عوام کو ریلیف دینے کے عملی اقدام کی بجائے حسب سابق جھوٹے دعوے دہرائے گئے اور اپوزیشن کے بقول حکومت نے عوام کو اچھا خواب دکھانا بھی ضروری نہ سمجھا۔ بجٹ کو رضیہ بٹ کا ناول قرار دینے والے شیخ رشید نے بجٹ پر تنقید کرنا ہی تھی مگر سابق جاگیردار وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے بھی مطمئن نہ ہونا تھا اور انھوں نے بھی بجٹ کو کسان دشمن قرار دے دیا۔
اپنے چار سال میں سب سے زیادہ غیر ملکی قرضہ لے کر ملک کی معیشت بہتر بنانے والوں نے عوام کو سب سے زیادہ مقروض کر دینے کا ریکارڈ ضرور قائم کر دیا۔ غربت میں اضافہ کرنے والی حکومت آج بھی دعوے کرتے نہیں تھک رہی کہ اس کے دور میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بیرونی ممالک بے چین ہیں جب کہ غیر ملکی سرمایہ کاری معمولی بڑھی ہے اور اطمینان بخش ہرگز نہیں ہے۔ تنخواہیں اور پنشن بڑھانے والی اب تک کی ہر حکومت مہنگائی ضرورت سے زیادہ بڑھاتی ہے اور اضافہ صرف دس فی صد کر کے سرکاری ملازموں پر احسان کرتی ہے اور عوام کی اکثریت کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
موجودہ حکومت کو تو ملک میں ایک غریب صدر مملکت ہی نظر آ رہا ہے جس کی تنخواہ ساٹھ فی صد اضافے کے ساتھ دس لاکھ سے بڑھا کر سولہ لاکھ کر دی گئی ہے۔ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے بجٹ میں تو اضافہ حکومتی فرض ہوتا ہے مگر انھیں عوام کا حقیقی فرض کبھی یاد نہیں رہتا جس کی وجہ سے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں اور ملک کی اکثریت سب سے زیادہ پریشان ہے۔
حکومت خود عوام کو مختلف طریقوں سے لوٹنے کی عادی ہو تو ملک کے منافع خورکیسے پیچھے رہ سکتے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ ان کی منافع خوری روکنا وفاقی حکومت کا کام نہیں اور اب یہ ذمے داری صوبائی حکومتوں کی ہے اور پنجاب کے سوا اب تک چار سال میں پیپلزپارٹی کی سندھ، پی ٹی آئی کی کے پی کے اور سرداروں کی بلوچستان حکومت مہنگائی بڑھانے پر یقین رکھتی ہیں کنٹرول اور معیاری اشیا کی فراہمی چیک کرنا ان کی ذمے داری نہیں ہے۔
اب تک ہر عوام کے ذریعے منتخب ہونے والی حکومتوں نے بجٹ کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانے، مہنگائی بڑھانے، نئے ٹیکس لگانے کا طریقہ اپنایا ہوا ہے تو ہر سیاسی پارٹی کی اپوزیشن بھی عوام دشمنی میں کم نہیں بلکہ اپوزیشن ہر بجٹ پر تنقید اپنا سیاسی فرض سمجھ چکی ہے جو بجٹ کے موقع پر من مانی، بجٹ کی کاپیاں پھاڑ کر اچھالنے اور بجٹ پڑھے بغیر تنقید کے اصول پر گامزن ہے اور عوام کے ساتھ منافقت کر کے حکومتی بجٹ منظور کرا دیتی ہے یا سیاسی نمبر بڑھانے کے لیے واک آؤٹ کر جاتی ہے۔
وزیر خزانہ کے نئے بجٹ پر ایکسپریس فورم میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کو نظر انداز کر کے ہر سال ایف بی آر کے ایما پر بجٹ کی آڑ میں نئے نئے قوانین متعارف کرا دیے جاتے ہیں اور نیا بجٹ بھی عام آدمی کا بجٹ نہیں بلکہ جاگیرداروں کے مفاد کا ہے جس سے تاجر، صنعت کار اور عوام مایوس ہوئے ہیں۔ بجٹ نا اہل لوگ بناتے ہیں جن کا عوام کے حقیقی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ہر بجٹ کو عوام دوست قرار دیا جاتا ہے اور نئے بجٹ میں بھی نرم الفاظ میں عوام کو مزید جکڑا گیا ہے یہ بجٹ عوام کے نہیں بلکہ خواص کے مفاد کا بجٹ ہے۔