مختار مسعود ایک مقبول مصنف

راجہ محمود آباد جو ملک کی سیاست سے دل برداشتہ تھے

ISLAMABAD/BARA:
مختار مسعود کئی کتابوں کے مصنف ہیں،ان کا انتقال پچھلے دنوں ہوا۔ ان کی وجہ شہرت ان کی بے مثال کتاب ''آواز دوست'' ہے۔ یہ کتاب جنوری 1973ء میں منظر عام پر آئی اور اب تک پینتیس مرتبہ چھپ چکی ہے جو ان کے مقبول ہونے کا بین ثبوت ہے۔

میں مختار مسعود سے ذاتی طور پر واقف نہیں تھا لیکن یہ علم تھا کہ وہ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ اور سول سروس کے ان افسروں میں سے ہیں جنھیں پاکستان بننے کے دو تین سال بعد ہی ملک کی خدمت کے لیے چنا گیا اور جب انھوں نے یہ کتاب لکھی تو ملازمت کے بائیس سال سے اوپر ہوچکے تھے۔ انھوں نے کئی جمہوری، نیم جمہوری، غیر جمہوری اور فوجی حکمرانوں کو گرتے اور چڑھتے دیکھا۔ لامحالہ توقع تھی کہ وہ ملک، حکمرانوں اور اپنے ساتھیوں کا بھی ذکر کریں گے کہ تاریخ ان کی سند حاصل کرسکے۔

مختار مسعود نے مینار پاکستان سے اپنی کتاب شروع کی ہے لیکن اس کی کڑیاں سرسید، علی گڑھ کالج سے جا ملتی ہیں۔ علی گڑھ سے ان کا تعلق پہلی جماعت سے شروع ہوکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تک رہا جہاں سے وہ فارغ التحصیل ہوکر نکلے۔ والد کے کہنے پر انھوں نے علی گڑھ سے چھ آنے کا نیلا آٹوگراف البم بھی خریدا۔ عمر بھر اس نے ساتھ دیا۔ یہ اتفاق تھا کہ انھیں مینار پاکستان کی تعمیراتی کمیٹی کا صدر حکومت وقت نے بنایا اور وہ اس کی تکمیل تک اس سے وابستہ رہے بلکہ یہ کہا جائے کہ کتاب مکمل ہونے تک...

''آواز دوست'' ایک بہت اہم کتاب ہے۔ وہ نشاندہی کرتی ہے اس زمانے کی جب ہندوستان کا تخت و تاج برطانیہ کے ہاتھ آچکا تھا اور غالبؔ ''جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق'' کہتے ہوئے صبر کرتے تھے یا جھنجھلاہٹ اور بے بسی میں کہتے ''ہائے دلی والے دلی بھاڑ میں جائے دلی'' انگریز کو آئے ہوئے دس سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ سرسید نے اندازہ لگالیا کہ اب ہندو مسلم اتحاد قائم ہوتا نظر نہیں آتا اور آنے والا زمانہ مسلمانوں کے لیے کٹھن ہوگا۔ ان کو اپنا تشخص جیسا بھی ہے برقرار رکھنا ہوگا اور پرانی راہداری سے کچھ ہٹ کر عہد نو سے ہم کنار ہونا ہوگا۔

حکومت نے ''مینار پاکستان'' کا تعمیراتی کام جو مختار مسعود کو دیا تھا وہ انھوں نے خوش اسلوبی سے انجام دیا اور تعمیر پایہ تکمیل تک پہنچ گئی اور بقول ان کے ''یادوں کا ایک تلاطم لے کر آئی اور پھر دنیا میں کہیں کسی قرارداد کو منظور کرانے کی یاد اس طرح نہیں منائی جاتی کہ جلسہ گاہ میں ایک مینار تعمیر کر دیا جائے۔'' انھوں نے ماہر تعمیرات سے پوچھا کہ ''بنیادیں کتنی گہری ہیں۔'' اس نے وہی جواب دیا جو متوقع تھا لیکن وہ سوچتے رہے کہ ''بنیاد کی گہرائی سے محض یادوں کی گیرائی تھی'' اور جب 2 جنوری 1877ء میں علی گڑھ کالج کی بنیاد سرسید کے ہاتھوں رکھی جا رہی تھی تو گویا اس دن ''مینار پاکستان'' کی بنیادیں بھی بھری گئیں۔

اس موقعے پر ایک انگریز افسر مسٹرکین نے کہا کہ آج ایک وسیع اور اہم تحریک کی ابتدا ہے، جو تاریخ میں جگہ پائے گی۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ مختار مسعود کے مطابق ''1917ء میں اسٹاک ہولم سوشلسٹ انٹرنیشنل کانفرنس میں خیری برادران نے تقسیم ہند کی تجویز پیش کی۔'' چھوٹے بھائی پروفیسر ستار خیری تھے جنھوں نے 1937ء میں علی گڑھ میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی۔مختار مسعود نے کہا ''میں نے مینار سے نیچے کی طرف نظر ڈالی، ہر شے اس بلندی سے پست نظر آئی، بڑے لوگ یہاں سے چھوٹے چھوٹے نظر آئے'' کتاب کا دوسرا حصہ ''قحط الرجال'' ہے اور یہاں انھوں نے بہت سی باتیں اشارے اور کنائے میں کہی ہیں۔

آٹو گرافٹ البم کی مختلف شخصیات، ملکی و غیر ملکی وہ تھے جو ان کی مشکل پسند طبیعت سے ہم کنار ہوسکیں یادوں کی ''گیرائی'' میں انھیں بہادر یار جنگ یاد آئے جن کے دل میں سارے جہاں کے مسلمانوں کا درد تھا اور ان کی یگانگت کے خواب دیکھتے تھے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر

حمید اللہ خان نواب بھوپال جنھوں نے گاندھی، جناح مذاکرات کیے۔ اور گاندھی جی سے کہلوادیا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت ہے۔ مولانا حسرت موہانی جن کا دماغ سیاست میں، دل شاعری میں اور جبیں عبادت میں تھی۔ بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان جنھوں نے مولانا حسرت موہانی کی طرح انگریز کے خلاف جہاد کیا اور بارہ تیرہ سال ان کی طرح جیل میں کاٹے یا ان لوگوں میں تھے جنھوں نے انگریز کے خلاف مکمل آزادی کا نعرہ لگایا۔

دونوں علی گڑھ کے پروردہ تھے۔ ملاواحدی مشہور و معروف ادیب نے لکھا۔ ''بولنے لکھنے اور ہر کام سے پہلے یہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ اس سے دین یا دنیا کا کوئی فائدہ ہوگا یا نہیں۔'' ای ایم فوسٹر شہرۂ آفاق مصنف جس نے بے مثال ناول A Passage to India لکھا ہے۔ اس کا تجسس اسے علی گڑھ لایا اور اس نے اپنا ناول سرراس مسعود کو منسوب کیا۔ بلبل ہند سروجنی نائیڈو قائد اعظم کی زبردست فین جس کا علی گڑھ میں والہانہ استقبال کیا گیا۔

راجہ محمود آباد جو ملک کی سیاست سے دل برداشتہ تھے۔ عطا اللہ شاہ بخاری جن کی خطابت بے مثال تھی لیکن ووٹ حاصل نہیں کرسکتی تھی۔ ماؤزے تنگ جس سے ملاقات تو درکنار جس کے دستخط کی مختار مسعود تمنا ہی کرسکے۔ اوٹھانٹ سیکریٹری جنرل یو این او جو ایک کھوکھلا اور کمزور شخصیت کا مالک تھا مگر اپنی ماں کے قدموں پر گر کر اس نے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا تھا۔ مشہور زمانہ تاریخ داں اور مفکر ٹائن بی جس نے پاکستان کا دورہ کیا اور ابن خلدون کی طرح ملکوں اور حکومتوں کے عروج و زوال کی داستان رقم کی۔ پھر انھیں یاد آیا کہ ''ایک رات جاگ کرگزاری تو اس رات آزادی کی نعمت ہمارے حصے میں آئی۔''

یہ اگست 1947ء کی بات ہے پھر ایک اور رات سو کر اٹھے تو دنیا ہی بدلی ہوئی پائی۔ مجلس قانون ساز کو لاقانون قرار دیا جاچکا تھا اور آئین سے وفاداری کا حلف اٹھانے والے اسے منسوخ کرچکے تھے۔ یہ اکتوبر 1958ء کی بات ہے۔ تاریخ نے ہماری ایک نہ چلنے دی۔ تاریخ نے اپنا رشتہ ہمارے اعمال کے ساتھ استوار کرلیا اور ایک دن ہمیں ڈھاکہ ریس کورس میں لاکھڑا کیا۔ یہ دسمبر 1971ء کی بات ہے۔''

مختار مسعود کا قلم جامد ہوگیا لیکن اقبال نے کہا ہے کہ ''ہر نازک مرحلے پر اسلام نے مسلمانوں کو بچایا نہ کہ مسلمانوں نے اسلام کو۔'' بنگلہ دیش تو بن گیا لیکن نہ وہ گریٹر بنگال کا حصہ بنا نہ ہندوستان کا، اپنا مسلم تشخص قائم رکھا۔ دیگر روح کی کسک تھی اور دل کو قرار نہیں تھا۔ آنسو اندر ہی اندر گر رہے تھے۔ فیضؔ نے کہا تھا:

خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

سرسید یاد آئے، علی گڑھ یاد آیا، قائد اعظم یاد آئے، اسلام دہشتگردوں کی لپیٹ میں ہے۔ ہم ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ قتل و غارت گری سے لاشوں کے مینار بنا رہے ہیں۔ ان میں مرد ، عورتیں اور بچے سب شامل ہیں۔ نماز جنازہ پر بھی قتل گاہ بنایا گیا، کیا سرسید اور علی گڑھ تحریک ان دہشتگردوں کے لیے تھی یا قائد اعظم کے ذہن میں کسی خاص مسلک کے لوگ تھے جو ملک کی باگ ڈور سنبھالتے۔ قائد اعظم سے کسی نے پوچھا ''آپ کا مسلک کیا ہے؟''

قائد اعظم نے پوچھنے والے سے الٹا سوال کیا۔ ''رسول پاکﷺ کا مسلک کیا تھا؟'' سوال کرنے والا لاجواب ہوگیا۔ خالد بن ولید، ایک معرکہ سر کر کے آئے حضورؐ سے فرمایا ''آج میں نے ایک کافر پر تلوار اٹھائی تو اس نے ڈر کے مارے کلمہ پڑھ لیا لیکن میں نے اس کا سر قلم کردیا کیونکہ وہ دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا۔ حضورؐ ناراض ہوئے اور پوچھا کہ کیا تم نے اس کا سینہ چیر کے دیکھا تھا اور فرمایا کہ میرے بعد صرف وہ مسلمان جو کھل کر کفر کریں مسلمان نہیں ہوں گے، قران بھی یہ کہتا ہے کہ ''جس نے بلاجواز کسی انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔''
Load Next Story