ٹیکسٹائل سیکٹر نے بجٹ مسترد کردیا حکومتی پالیسیوں پر نظرثانی کا مطالبہ
صنعت کیلیے کچھ نہیں،برآمدکم ہورہی ہے،بجلی گیس ٹیرف حریفوں کے برابر کیے جائیں،ویلیوایڈڈسیکٹرکے ساتھ پریس کانفرنس
آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عامر فیاض نے کہاہے کہ 2013میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی ایکسپورٹ 25ارب ڈالر تھی جو 20ارب ڈالر رہ گئی، وزیر اعظم کی جانب سے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے 180ارب کا پیکیج پیش کیا گیا لیکن آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس پیکیج کے تحت صرف4 ارب روپے رکھے گئے جو ایکسپورٹر کے ساتھ مذاق ہے، ہم ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے بجٹ سے انتہائی مایوس ہیں۔
اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کر تے ہوئے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عامر فیاض کا کہنا تھا کہ تمام ٹیکسٹائل یونینز کو اس بجٹ سے مایوسی ہوئی ہے، اس بجٹ میں ایکسپورٹ گروتھ اور انڈسٹری کیلیے کوئی سہولت نہیں دی گئی، اگر 12مہینے کی پروجیکشن کی جائے تو ہماری مجموعی درآمدات 52 ارب ڈالر کی ہوں گی جبکہ برآمدات 20ارب ڈالر کی ہوں گی، 32ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہو گا، ہماری وزیر اعظم کے ساتھ 4 ملاقاتیں ہوئیں، ہم سب نے وزیراعظم اور وزیر خزانہ کو کہا کہ دیگر ممالک نے برآمدات کو بڑھا کر اپنی معیشت بہتر کی،2013میں ہماری برآمدات 25ارب ڈالر تھیں جو آج 20ارب ڈالر رہ گئی ہیں، اس طرح برآمدات 5ارب ڈالر گری ہیں، برآمدات کا گرنا اور قرضے لینا ملکی معیشت کے لیے اچھا نہیں ہے۔
عامر فیاض نے کہاکہ وزیراعظم نے 180ارب کے ایکسپورٹ گروتھ پیکیج کا اعلان کیا تھا لیکن حال ہی میں جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں ایکسپورٹ پیکیج کے تحت 4ارب روپے رکھے گئے ہیں جو ایکسپورٹ سیکٹر کے ساتھ کسی مذاق سے کم نہیں ہے، جب تک حکومت اقدامات نہیں لے گی ملکی برآمدات گرتی رہیں گی، تجارتی خسارے کو ختم کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ ملکی برآمدات کو بڑھایا جائے، وزیر خزانہ سے ہماری گزار ش ہے کہ وزیراعظم پیکیج کے تحت اس بجٹ میں رقم رکھیں۔
چیئرمین اپٹما نے کہاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے گزشتہ 2سال سے 100ارب روپے سے زائد کے سیلز ٹیکس ری فنڈز رکے ہوئے ہیں، ری فنڈز پیمنٹ آرڈر کو رول بیک کر دیا گیا، ہمیں بجلی ساڑھے 10روپے واٹ جبکہ ہمارے مدمقابل ممالک میں 7روپے واٹ کے حساب سے دی جا رہی ہے، ساڑھے 3روپے سرچارج بھی ہم پر ڈالا جا رہا ہے، چوری کوئی کرے اور بھرے کوئی، ہمارے سیکٹر کے لائن لاسز صفر ہیں جبکہ پنجاب میں ہم 1000روپے ایم ایم بی ٹی یو گیس لے رہے ہیں اور ہمارے مد مقابل ممالک میں 400روپے ایم بی ٹی یو گیس دی جا رہی ہے، حکومت بجلی اور گیس کے نرخ مدمقابل ممالک کے برابرکر ے۔
اس موقع پر پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین اعجاز کھوکھر نے کہاکہ ٹیکسٹائل پالیسی میں جو مراعات رکھی گئی ہیں وہ وزارت خزانہ نے نہیں دیں، اگر ریفنڈز نہیں ملیںگے تو انڈسٹری کیسے ترقی کرے گی، گزشتہ ساڑھے 3سال سے ٹیکسٹائل سیکٹر کے وزیر کی تعیناتی ہی نہیں کی گئی، کیا 350سے زائد کے ایوان میں کوئی ایسا ممبر نہیں ہے جو ٹیکسٹائل کی وزارت میں لگایا جا سکے، حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث ایکسپورٹ گر رہی ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے حکومتی پالیسیاں اگر کام نہیں کر رہی تو ان کو ریوائز کیا جائے۔
علاوہ ازیں پاکستان بیڈویئر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اظہر مجید شیخ نے کہاکہ اس ملک کا فوکس ایکسپورٹ کی طرف نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ 52 ارب ڈالر کی درآمدات اور 20ارب ڈالر کی برآمدات ہو رہی ہیں، پاکستان برآمدات کا 60 فیصد ٹیکسٹائل سیکٹر سے آرہا ہے، حکومت کو اس سیکٹر کی ترقی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کر تے ہوئے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عامر فیاض کا کہنا تھا کہ تمام ٹیکسٹائل یونینز کو اس بجٹ سے مایوسی ہوئی ہے، اس بجٹ میں ایکسپورٹ گروتھ اور انڈسٹری کیلیے کوئی سہولت نہیں دی گئی، اگر 12مہینے کی پروجیکشن کی جائے تو ہماری مجموعی درآمدات 52 ارب ڈالر کی ہوں گی جبکہ برآمدات 20ارب ڈالر کی ہوں گی، 32ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہو گا، ہماری وزیر اعظم کے ساتھ 4 ملاقاتیں ہوئیں، ہم سب نے وزیراعظم اور وزیر خزانہ کو کہا کہ دیگر ممالک نے برآمدات کو بڑھا کر اپنی معیشت بہتر کی،2013میں ہماری برآمدات 25ارب ڈالر تھیں جو آج 20ارب ڈالر رہ گئی ہیں، اس طرح برآمدات 5ارب ڈالر گری ہیں، برآمدات کا گرنا اور قرضے لینا ملکی معیشت کے لیے اچھا نہیں ہے۔
عامر فیاض نے کہاکہ وزیراعظم نے 180ارب کے ایکسپورٹ گروتھ پیکیج کا اعلان کیا تھا لیکن حال ہی میں جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں ایکسپورٹ پیکیج کے تحت 4ارب روپے رکھے گئے ہیں جو ایکسپورٹ سیکٹر کے ساتھ کسی مذاق سے کم نہیں ہے، جب تک حکومت اقدامات نہیں لے گی ملکی برآمدات گرتی رہیں گی، تجارتی خسارے کو ختم کرنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ ملکی برآمدات کو بڑھایا جائے، وزیر خزانہ سے ہماری گزار ش ہے کہ وزیراعظم پیکیج کے تحت اس بجٹ میں رقم رکھیں۔
چیئرمین اپٹما نے کہاکہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے گزشتہ 2سال سے 100ارب روپے سے زائد کے سیلز ٹیکس ری فنڈز رکے ہوئے ہیں، ری فنڈز پیمنٹ آرڈر کو رول بیک کر دیا گیا، ہمیں بجلی ساڑھے 10روپے واٹ جبکہ ہمارے مدمقابل ممالک میں 7روپے واٹ کے حساب سے دی جا رہی ہے، ساڑھے 3روپے سرچارج بھی ہم پر ڈالا جا رہا ہے، چوری کوئی کرے اور بھرے کوئی، ہمارے سیکٹر کے لائن لاسز صفر ہیں جبکہ پنجاب میں ہم 1000روپے ایم ایم بی ٹی یو گیس لے رہے ہیں اور ہمارے مد مقابل ممالک میں 400روپے ایم بی ٹی یو گیس دی جا رہی ہے، حکومت بجلی اور گیس کے نرخ مدمقابل ممالک کے برابرکر ے۔
اس موقع پر پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین اعجاز کھوکھر نے کہاکہ ٹیکسٹائل پالیسی میں جو مراعات رکھی گئی ہیں وہ وزارت خزانہ نے نہیں دیں، اگر ریفنڈز نہیں ملیںگے تو انڈسٹری کیسے ترقی کرے گی، گزشتہ ساڑھے 3سال سے ٹیکسٹائل سیکٹر کے وزیر کی تعیناتی ہی نہیں کی گئی، کیا 350سے زائد کے ایوان میں کوئی ایسا ممبر نہیں ہے جو ٹیکسٹائل کی وزارت میں لگایا جا سکے، حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث ایکسپورٹ گر رہی ہے، ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے حکومتی پالیسیاں اگر کام نہیں کر رہی تو ان کو ریوائز کیا جائے۔
علاوہ ازیں پاکستان بیڈویئر ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اظہر مجید شیخ نے کہاکہ اس ملک کا فوکس ایکسپورٹ کی طرف نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ 52 ارب ڈالر کی درآمدات اور 20ارب ڈالر کی برآمدات ہو رہی ہیں، پاکستان برآمدات کا 60 فیصد ٹیکسٹائل سیکٹر سے آرہا ہے، حکومت کو اس سیکٹر کی ترقی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔