پھلوں کا تین روزہ بائیکاٹ

عوام نے اپنی طاقت سبھی پر عیاں کر دی.

عوام نے اپنی طاقت سبھی پر عیاں کر دی.۔ فوٹو: ایکسپریس/فائل

دنیا بھر میں رواج ہے کہ کوئی مقدس مذہبی تہوار آئے تو مختلف کمپنیاں، ادارے اور تنظیمیں اپنی مصنوعات و خدمات(سروسز) کی قیمتیں احتراماً کم کردیتے ہیں۔ مثلاً کرسمس،ایسٹر اور دیگر مذہبی مواقع پر امریکا و برطانیہ میں بہت سی اشیاء آدھی سے بھی کم قیمتوں پر فروخت ہوتی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جو لوگ عموماً مہنگی اشیا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ بھی انہیں خرید سکیں اور بیچنے والوں کو اس نیکی کا اجر مل جائے۔

پاکستان میں مگر خصوصاً رمضان آتے ہی پہلے کھانے پینے کی اشیاء مہنگی ہوتی ہیں اور پھر عیدین سے قبل ملبوسات، جوتے وغیرہ مہنگے کردیئے جاتے ہیں۔ گویا وطن عزیز میں ماہ رمضان نیکی و بھلائی نہیں کمائی کرنے کا مہینہ بن چکا، صد افسوس!اس بار بھی رمضان سے قبل ہی اشیائے خورو نوش خاص طور پر پھلوں و سبزیوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا۔ مثال کے طور پر عید سے قبل ایک درجن آڑو کی قیمت 80 تا 100 روپے تھی، وہ اب 120 تا 180 روپے تک جاپہنچی۔ ماہرین معاشیات نے دعویٰ کیا کہ ہول سیلر یا آڑھتی پھل ذخیرہ کررہے ہیں تاکہ مارکیٹ میں کم سپلائی کرکے ان کی قیمت بڑھاسکیں۔

31 مئی سے اچانک سوشل میڈیا (فیس بک، وٹس ایپ، ٹویٹر) میں یہ پیغام گھومنے لگا کہ پاکستانی قوم 2 تا 4 جون تین دن پھلوں کا بائیکاٹ کرکے مصنوعی مہنگائی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے۔ چونکہ شہروں میں انٹرنیٹ استعمال کرنے پاکستانیوں کی تعداد زیادہ ہے لہٰذا کراچی، لاہور اور راولپنڈی، اسلام آباد میں دیکھتے ہی دیکھتے یہ پیغام ''وائرل'' ہوگیا۔ ان تینوں شہروں کی ممتاز سرکاری، سماجی اور سیاسی شخصیات نے بھی اس تین روزہ پھل بائیکاٹ مہم کی حمایت کا اعلان کردیا۔

اس پھل بائیکاٹ مہم کو ملے جلے تاثرات سے نوازا گیا۔ تنقید کرنے والے پاکستانیوں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ اس مہم سے عام پھل فروشوں کو نقصان پہنچے گا۔ ان غریبوںکا تو پھل گل سڑ جائے گا جبکہ مصنوعی مہنگائی جنم دینے کے اصل ذمے داروں... ہول سیلروں کا بال بیکا نہیں ہوگا۔ جبکہ بعض پاکستانیوں نے دعویٰ کیا کہ عام پھل فروش بھی مصنوعی مہنگائی بڑھانے کے ذمے دار ہیں۔ وجہ یہ کہ وہ لالچ و ہوس کے باعث منڈی سے کم قیمت پر خریدے پھلوں کی قیمت دگنی تگنی طلب کرتے ہیں۔ گویا عام پھل فروش بھی من مانی قیمتیں مقرر کرکے گاہکوں کو لوٹتے ہیں۔

سبزی منڈی میں انجمن آڑھتیاں اور حکومت کے نمائندے مل کر پھلوں و سبزیوں کی قیمتیں مقرر کرتے ہیں۔ کراچی کی سبزی منڈی میں انجمن آڑھتیاں کے نائب صدر، آصف احمد شاہ نے اخبار، ایکسپریس ٹریبیون کو انٹرویو دیتے ہوئے قیمتیں تعین کرنے کا طریق کار واضح کیا۔آصف احمد بتاتے ہیں کہ رمضان سے قبل کمشنر کراچی کے دفتر میں آڑھتیوں اور حکومتی نمائندوں کی میٹنگ ہوئی۔ اس میں طے پایا کہخوردہ فروشوں،ٹھیلے والوں، پھیری والوں وغیرہ کا منافع 10 فیصد رکھا جائے۔ پھلوں سبزیوں کا ایک فیصد حصّہ گل سڑ جاتا ہے چناںچہ اس مد میں 10 فیصد رقم رکھی گئی ۔جبکہ 10 فیصد رقم ٹرانسپورٹ اور لیبر اخراجات کے لیے مختص ہوئی۔

آصف احمد شاہ کا کہنا ہے کہ تعین قیمت کے درج بالا مکینزم کی رو سے اگر ہول سیل ریٹ پر ایک کلو آم کی قیمت 70 روپے ہے، تو اس کی خوردہ یا ریٹیل قیمت زیادہ سے زیادہ 91 روپے ہونی چاہیے۔ آصف احمد بتاتے ہیں ''29 مئی کو کمشنر کے دفتر سے پھل و سبزی کی قیمتوں کی جو فہرست جاری ہوئی، اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ اس میں ہول سیل ریٹ پر 70 روپے کلو والے آم کی ریٹیل قیمت 103 روپے درج تھی۔''


اس ثبوت کی بنا پر آصف احمد نے پھلوں کی قیمتیں بڑھنے کا ذمے دار حکومت سندھ کو قرار دیا۔ گویا موصوف کہنا چاہتے ہیں کہ بعض آڑھتی حکومتی نمائندوں کی مٹھی گرم کرتے ہیں تاکہ وہ من مانی قیمتیں مقرر کرسکیں۔ حکومت سندھ ہی نہیں تمام صوبوں کی حکومتوں کو اس الزام کے سلسلے میں تفتیش کرنی چاہیے۔ عوام الناس کا بھی دعویٰ ہے کہ سبزی منڈیوں میں آڑھتی اور حکومتی نمائندے ملی بھگت سے اشیائے خورونوش کی زیادہ قیمتیں مقرر کررہے ہیں۔

پھل بائیکاٹ مہم سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ کراچی اور دیگر شہروں میں پھلوں کی قیمتیں ''50 فیصد'' تک کم ہوگئیں۔ تاہم بعض ماہرین معاشیات کے نزدیک یہ قیمتیں بائیکاٹ مہم کی وجہ سے کم نہیں ہوئیں ۔ان کی رو سے وجہ یہ ہے کہ جب ایک شے کی طلب کم ہوجائے، تو اس کی قیمت خود بخود گرجاتی ہے۔ مگر جب منڈی میں وہ شے نایاب ہو، تو قدرتاً اس کی قیمت بڑھنے لگتی ہے۔

لاہور میں رمضان سے ایک ہفتہ قبل تک کیلا فی درجن پچاس ساٹھ روپے میں بک رہا تھا۔ پھر اچانک کیلے کی قیمت 100 روپے تک جاپہنچی۔ میں نے ایک پھیری والے سے قیمت بڑھنے کا سبب دریافت کیا۔ وہ کہنے لگا '' صاحب، پنجاب میں کیلا سندھ سے آتا ہے۔ چونکہ ابھی نئی فصل نہیں آئی، لہٰذا بچا کھچا کیلا مہنگا ہوگیا ۔'' یہ حقیقت ہے کہ جو پھل یا سبزی باافراط دستیاب ہو، اس کی قیمت بھی کم ہوجاتی ہے۔

اشیائے خورونوش کی بلند ہوتی قیمتوں کا ایک سبب بڑھتی آبادی بھی ہے۔ جب 1947ء میں وطن عزیز آزاد ہوا، تو یہاں سوا تین کروڑ انسان آباد تھے۔ اب پاکستان کی آبادی اکیس بائیس کروڑ تک پہنچچکی۔ ظاہر ہے ان سب کو پیٹ بھرنے کے لیے کھانا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے کسان زراعت چھوڑ کر دوسرے پیشے اپنا چکے۔ اس لیے مخصوص فصلوں کو چھوڑ کر پھل و سبزی اگانے والے کاشت کاروں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ یہ امر بھی پھل و سبزی کی قیمتیں بڑھنے کا ایک سبب ہے۔

بہرحال حالیہ پھل بائیکاٹ نے پھر یہ حقیقت اجاگر کر دی کہ سوشل میڈیا ایسا وسیع پلیٹ فارم بن چکا جہاں متناقص مکتب ہائے فکر کے لاکھوں لوگ بھی جمع ہو کر بڑے پُرامن انداز میں کوئی احتجاجی مہم یا تحریک چلا سکتے ہیں۔سوشل میڈیا کی خرابیاؓں اپنی جگہ،مگر یہ فوائد بھی رکھتا ہے۔ایک فائدہ اسی بائیکاٹ کی صورت ظاہر ہوا کہ وہ لاکھوں عام پاکستانیوں کی توانا احتجاجی آواز بن گیا۔اس نے سبھی پر عام شہریوں کے حقوق بھی واضح کر دئیے۔

پھل فروشوں کی اکثریت نے عوام کی بائیکاٹ مہم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب آڑھتی انہیں مہنگے داموں پھل دیں گے، تو انہوں نے بھی اسی حساب سے فروخت کرنے ہیں۔ ایک غریب پھل فروش، ناصر کہتا ہے:''اس ملک میں ہر شے کی قیمت بڑھا چڑھا کر رکھی جاتی ہے۔ طاقت ور مافیاز کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتا، لوگوں کا زور بس ہم غریبوں پر ہی چلتا ہے۔ پانچ دس روپے کی خاطر ہم پھل فروشوں سے لڑنے والے کئی مردوزن روزمرہ اخراجات پر ہزارہا روپے خرچ کر ڈالتے ہیں، مگر ہمارا حق دیتے ہوئے ان کی جان جاتی ہے۔''n
Load Next Story