ظہیر عباس نظر میں آ گئے
نوآموز کرکٹر کی داستان ِزندگی کا ورق
ایشین بریڈ مین کے خطاب سے مشہور، سیدظہیر عباس کرمانی کا شمار ممتاز پاکستانی بلے بازوں میں ہوتا ہے۔آپ پہلے ایشائی بیٹسمین ہیں جس نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں ایک سو سنچریاں بنائیں۔ذیل میں معروف مبصر،مرحوم منیر حسین نے ظہیر عباس سے ایک انٹرویو میں ماضی کی یادیں تازہ کی ہیں۔
میں آپ کو ایک چھوٹی سی بات یاد دلاؤں گا۔ آپ کرکٹ میں کبھی سفارش سے نہیں کھیلے بلکہ اپنی کارکردگی سے نمایاں ہوئے۔ آپ کو شاید چھوٹا سا واقعہ یاد ہو، یہ بڑا پرانا واقعہ ہے۔ اس وقت تک آپ فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کھیلے تھے۔اس دن جم خانہ گراؤنڈ پر کے سی اے(کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن) کا ایک کیمپ لگا ہوا تھا۔ایم ایس بلوچ (مرحوم) وہاں کوچنگ کررہے تھے کہ میں وہاں اپنی گاڑی پر آپہنچا۔
اس وقت دراصل بی وی ایس گراؤنڈ پر پارسی جم خانہ کے سامنے عیسیٰ جعفر الیون اور صدر کے سی اے، مظفر حسین الیون کا ایک نمائشی میچ ہورہا تھا۔ اتفاق سے ہمارے صدر کی ٹیم ہار رہی تھی۔پریشان ہو کر انہوں نے مجھے بھیجا کہ آپ جائیے اور کیمپ سے کسی اچھے سے لڑکے کو پکڑ کر لائیے۔ میں جب جم خانہ آیا تو آپ اس وقت بیٹنگ کررہے تھے۔ میں اس وقت آپ کو بالکل نہیں جانتا تھا۔ آپ بڑے زوردار قسم کے اسٹروکس کھیل رہے تھے۔ میں نے دل میں سوچا، یہ لڑکا بالکل ٹھیک رہے گا۔ اس کو لے کر چلتے ہیں۔
میں نے بلوچ صاحب سے پوچھا ''یہ کیسا لڑکا ہے؟'' انہوں نے کہا، اس کا نام ظہیر عباس ہے اور بہت اچھا کھیلتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ فوراً اس کا کھیل ختم کریں اور اس کو بلائیں۔ جب آپ ہماری طرف آئے تو میں نے کہا ،جناب آپ ذرا گاڑی میں بیٹھ جائیے۔ آپ ایسے ہی پیڈز باندھے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ جب ہم بی وی ایس گراؤنڈ پہنچے تو ہمارے صدر کی حالت بڑی خراب تھی۔ ان کی ٹیم کے سات کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے اور وہ بڑے غصّہ میں تھے۔ میں نے ان سے کہا، یہ لیجئے۔ یہ لڑکا آگیا ہے جو یقیناً ''فتح گر'' ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا ،اسے فوراً بیٹنگ کے لیے بھیجو۔ لہٰذا جیسے ہی ایک کھلاڑی آؤٹ ہوا، آپ میدان میں گئے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے وہاں 49 رنز بنائے۔ جب آپ کھیل کر آئے تو مظفر حسین صاحب نے مجھ سے پوچھا ،جن کو ہمارا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا کہ ہم نے ان کو ایسا بہترین لڑکا لاکر دیا'' اس لڑکے نے قائداعظم ٹرافی کھیلی ہے؟'' میں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ کے سی اے پر گرم ہوگئے کہ یہ لوگ اچھے کھلاڑیوں کو کیوں کھلائیں گے،وہ تو سفارشیوں کو کھلاتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس لڑکے کو قائداعظم ٹرافی کھلانی چاہیے۔ اس طرح آپ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے ۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ واقعہ ہو تو آپ کو یاد آئے گا۔
ظہیر عباس:۔ جی ہاں مجھے یہ واقعہ یاد ہے۔ ان دنوں آپ کے پاس چھوٹی فیٹ گاڑی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس سے پہلے میرے مہربان دوست، سعادت علی جوکہ سی اے کے ممبر تھے، انہوں نے بھی مجھے کے سی اے(کراچی ) کی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے بڑا زور لگایا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس زمانے میں سنگل وکٹ چیمپئن شپ ہوئی تھی۔ جم خانہ میں اس میں شاہد محمود بھی کھیلے تھے۔
آج کل وہ نیویارک میں انشورنس بزنس کررہے ہیں۔ ماشاء اللہ وہاں بڑے خوش ہیں۔ مجھے ان کا جملہ آج تک یاد ہے۔ ''جا بیٹا! تم ینگسٹر ہو ،میں تمہیں بیٹنگ کرواتا ہوں کیونکہ کافی اندھیرا ہورہا ہے۔ اس صورت حال میں کھیلنے کا تمہیں کافی تجربہ ہے۔ اس لیے میں تمہیں پہلے بیٹنگ کروا رہا ہوں۔''
مجھے سارے واقعات یاد ہیں کہ کس نے کیونکر مجھے سپورٹ کیا تھا۔ تقریباً ہر انسان کی زندگی میں ایسے مددگار لوگ آتے رہتے ہیں۔ مجھے ابھی تک اس زمانے کی سپورٹس مین اسپرٹ بھی یاد ہے۔ آپ کو علم ہے، میں ایوب زونل ٹرافی کھیلا تھا جس میں انتخاب عالم کا بھائی آفتاب عالم بھی کھیلا تھا۔ اس میں میرا نمبر چھ تھا اور آفتاب عالم کا سات ۔ جب پہلا میچ ہوا تو میں نے اس میں 67 رنز کیے تھے۔
آفتاب عالم نے 100 کیے تو میرا نمبر 7 ہوگیا اور ان کا نمبر چھ ہوگیا تھا۔ لیکن دوسرا میچ ہوا تو میں نے 100 کردیا اور آفتاب عالم جلد آؤٹ ہوگیا۔یوں پھر میرا نمبر اوپر ہوگیا۔ منیر بھائی! ترقی رب کائنات کی مہربانی سے ملتی ہے۔انسان البتہ جان لڑا دے۔ میں جس محنت سے کھیلا ، اللہ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس کا پھل بھی دیا۔
میں آپ کو ایک چھوٹی سی بات یاد دلاؤں گا۔ آپ کرکٹ میں کبھی سفارش سے نہیں کھیلے بلکہ اپنی کارکردگی سے نمایاں ہوئے۔ آپ کو شاید چھوٹا سا واقعہ یاد ہو، یہ بڑا پرانا واقعہ ہے۔ اس وقت تک آپ فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کھیلے تھے۔اس دن جم خانہ گراؤنڈ پر کے سی اے(کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن) کا ایک کیمپ لگا ہوا تھا۔ایم ایس بلوچ (مرحوم) وہاں کوچنگ کررہے تھے کہ میں وہاں اپنی گاڑی پر آپہنچا۔
اس وقت دراصل بی وی ایس گراؤنڈ پر پارسی جم خانہ کے سامنے عیسیٰ جعفر الیون اور صدر کے سی اے، مظفر حسین الیون کا ایک نمائشی میچ ہورہا تھا۔ اتفاق سے ہمارے صدر کی ٹیم ہار رہی تھی۔پریشان ہو کر انہوں نے مجھے بھیجا کہ آپ جائیے اور کیمپ سے کسی اچھے سے لڑکے کو پکڑ کر لائیے۔ میں جب جم خانہ آیا تو آپ اس وقت بیٹنگ کررہے تھے۔ میں اس وقت آپ کو بالکل نہیں جانتا تھا۔ آپ بڑے زوردار قسم کے اسٹروکس کھیل رہے تھے۔ میں نے دل میں سوچا، یہ لڑکا بالکل ٹھیک رہے گا۔ اس کو لے کر چلتے ہیں۔
میں نے بلوچ صاحب سے پوچھا ''یہ کیسا لڑکا ہے؟'' انہوں نے کہا، اس کا نام ظہیر عباس ہے اور بہت اچھا کھیلتا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ فوراً اس کا کھیل ختم کریں اور اس کو بلائیں۔ جب آپ ہماری طرف آئے تو میں نے کہا ،جناب آپ ذرا گاڑی میں بیٹھ جائیے۔ آپ ایسے ہی پیڈز باندھے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ جب ہم بی وی ایس گراؤنڈ پہنچے تو ہمارے صدر کی حالت بڑی خراب تھی۔ ان کی ٹیم کے سات کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے اور وہ بڑے غصّہ میں تھے۔ میں نے ان سے کہا، یہ لیجئے۔ یہ لڑکا آگیا ہے جو یقیناً ''فتح گر'' ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا ،اسے فوراً بیٹنگ کے لیے بھیجو۔ لہٰذا جیسے ہی ایک کھلاڑی آؤٹ ہوا، آپ میدان میں گئے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے وہاں 49 رنز بنائے۔ جب آپ کھیل کر آئے تو مظفر حسین صاحب نے مجھ سے پوچھا ،جن کو ہمارا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا کہ ہم نے ان کو ایسا بہترین لڑکا لاکر دیا'' اس لڑکے نے قائداعظم ٹرافی کھیلی ہے؟'' میں نے نفی میں سر ہلایا تو وہ کے سی اے پر گرم ہوگئے کہ یہ لوگ اچھے کھلاڑیوں کو کیوں کھلائیں گے،وہ تو سفارشیوں کو کھلاتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس لڑکے کو قائداعظم ٹرافی کھلانی چاہیے۔ اس طرح آپ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلے ۔ اگر آپ کے ذہن میں یہ واقعہ ہو تو آپ کو یاد آئے گا۔
ظہیر عباس:۔ جی ہاں مجھے یہ واقعہ یاد ہے۔ ان دنوں آپ کے پاس چھوٹی فیٹ گاڑی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اس سے پہلے میرے مہربان دوست، سعادت علی جوکہ سی اے کے ممبر تھے، انہوں نے بھی مجھے کے سی اے(کراچی ) کی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے بڑا زور لگایا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس زمانے میں سنگل وکٹ چیمپئن شپ ہوئی تھی۔ جم خانہ میں اس میں شاہد محمود بھی کھیلے تھے۔
آج کل وہ نیویارک میں انشورنس بزنس کررہے ہیں۔ ماشاء اللہ وہاں بڑے خوش ہیں۔ مجھے ان کا جملہ آج تک یاد ہے۔ ''جا بیٹا! تم ینگسٹر ہو ،میں تمہیں بیٹنگ کرواتا ہوں کیونکہ کافی اندھیرا ہورہا ہے۔ اس صورت حال میں کھیلنے کا تمہیں کافی تجربہ ہے۔ اس لیے میں تمہیں پہلے بیٹنگ کروا رہا ہوں۔''
مجھے سارے واقعات یاد ہیں کہ کس نے کیونکر مجھے سپورٹ کیا تھا۔ تقریباً ہر انسان کی زندگی میں ایسے مددگار لوگ آتے رہتے ہیں۔ مجھے ابھی تک اس زمانے کی سپورٹس مین اسپرٹ بھی یاد ہے۔ آپ کو علم ہے، میں ایوب زونل ٹرافی کھیلا تھا جس میں انتخاب عالم کا بھائی آفتاب عالم بھی کھیلا تھا۔ اس میں میرا نمبر چھ تھا اور آفتاب عالم کا سات ۔ جب پہلا میچ ہوا تو میں نے اس میں 67 رنز کیے تھے۔
آفتاب عالم نے 100 کیے تو میرا نمبر 7 ہوگیا اور ان کا نمبر چھ ہوگیا تھا۔ لیکن دوسرا میچ ہوا تو میں نے 100 کردیا اور آفتاب عالم جلد آؤٹ ہوگیا۔یوں پھر میرا نمبر اوپر ہوگیا۔ منیر بھائی! ترقی رب کائنات کی مہربانی سے ملتی ہے۔انسان البتہ جان لڑا دے۔ میں جس محنت سے کھیلا ، اللہ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے اس کا پھل بھی دیا۔