لاپتہ افراد کے حوالے سے ہمارے ہاتھ بندھے ہیں اٹارنی جنرل
تحویل قانون کے مطابق ہے،متعلقہ متنازع حقائق حل ہونے چاہئیں،رہائی کی درخواست دی جاسکتی ہے،عرفان قادر
سپریم کورٹ نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے حراستی مراکز میں ملزمان کو رکھنے کے بارے میں مقدمے کی سماعت چار فروری تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹھوس ثبوت اور مقدمہ چلائے بغیر لوگوںکو حراستی مراکز میں رکھنا غیر قانونی ہے۔ اڈیالہ جیل سے اٹھائے گئے قیدیوں کو حراستی مراکز سے رہا کرانے کیلیے دائر درخواست پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے گزشتہ روز چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کو بتایا کہ یہ افراد فرنٹیئرکرائم ریگولیشن(ایف سی آر)کے تحت زیر حراست ہیں، اگر ان افراد کی رہائی کیلیے درخواست دی جائے تو اس پر غورکیا جا سکتا ہے، ریگولیشن فارایکشن ان سول ایڈ میں میں اتنی گنجائش ہے کہ درخواست آنے کی صورت میں10 سے15 دن میں اس پر غورکیا جائے۔
درخواست گزار طارق اسد نے بتایا کہ رہائی کیلیے پہلے بھی دو مرتبہ درخواست دی جاچکی ہے لیکن دونوں مرتبہ درخواستیں مستردکر دی گئیں۔ سیکریٹری فاٹا جمال ناصر نے بھی اس کی تصدیق کی اورکہا کہ ان سے برآمدگی ہوئی ہے اس لیے درخواتیں مسترد کی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا درخواست اس معاملے کا حل نہیں، درخواست تیسری مرتبہ بھی مسترد ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت آئین کی خلاف ورزی کسی صورت نہیں ہونے دے گی تاہم اس کیس میں فنی پیچیدگیوںکو دیکھنا ہوگا کہ فاٹا میں سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
طارق اسد نے بتایا عدالت عظمٰی نے متعدد مقدمات میں فاٹا اور پاٹا تک اپنا دائرہ اختیاروسیع کیا ہے، درخواست گزارکی درخواست پر مزید سماعت ملتوی کر دی گئی۔ ثناء نیوزکے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو حراستی مرکز میں قید افرادکے بنیادی حقوق اور آزادی سے متعلق تشویش ہے لیکن آئینی پیچیدگیوں کو دیکھنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں اٹارنی جنرل کیا مدد کر سکتے ہیں،عرفان قادرکا کہنا تھا کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، صرف قانونی مشورہ دے سکتا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انھوں نے اڈیالہ جیل والے قیدیوں کے معاملے کا دوبارہ جائزہ لیا ہے، انکی تحویل قانون کے مطابق ہے، حراستی مرکز میں قید افراد یا اہلخانہ رہائی کی درخواست دے سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کیس سے متعلق متنازع حقائق حل ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹھوس ثبوت اور مقدمہ چلائے بغیر لوگوںکو حراستی مراکز میں رکھنا غیر قانونی ہے۔ اڈیالہ جیل سے اٹھائے گئے قیدیوں کو حراستی مراکز سے رہا کرانے کیلیے دائر درخواست پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے گزشتہ روز چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کو بتایا کہ یہ افراد فرنٹیئرکرائم ریگولیشن(ایف سی آر)کے تحت زیر حراست ہیں، اگر ان افراد کی رہائی کیلیے درخواست دی جائے تو اس پر غورکیا جا سکتا ہے، ریگولیشن فارایکشن ان سول ایڈ میں میں اتنی گنجائش ہے کہ درخواست آنے کی صورت میں10 سے15 دن میں اس پر غورکیا جائے۔
درخواست گزار طارق اسد نے بتایا کہ رہائی کیلیے پہلے بھی دو مرتبہ درخواست دی جاچکی ہے لیکن دونوں مرتبہ درخواستیں مستردکر دی گئیں۔ سیکریٹری فاٹا جمال ناصر نے بھی اس کی تصدیق کی اورکہا کہ ان سے برآمدگی ہوئی ہے اس لیے درخواتیں مسترد کی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہا درخواست اس معاملے کا حل نہیں، درخواست تیسری مرتبہ بھی مسترد ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا عدالت آئین کی خلاف ورزی کسی صورت نہیں ہونے دے گی تاہم اس کیس میں فنی پیچیدگیوںکو دیکھنا ہوگا کہ فاٹا میں سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
طارق اسد نے بتایا عدالت عظمٰی نے متعدد مقدمات میں فاٹا اور پاٹا تک اپنا دائرہ اختیاروسیع کیا ہے، درخواست گزارکی درخواست پر مزید سماعت ملتوی کر دی گئی۔ ثناء نیوزکے مطابق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو حراستی مرکز میں قید افرادکے بنیادی حقوق اور آزادی سے متعلق تشویش ہے لیکن آئینی پیچیدگیوں کو دیکھنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں اٹارنی جنرل کیا مدد کر سکتے ہیں،عرفان قادرکا کہنا تھا کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، صرف قانونی مشورہ دے سکتا ہوں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انھوں نے اڈیالہ جیل والے قیدیوں کے معاملے کا دوبارہ جائزہ لیا ہے، انکی تحویل قانون کے مطابق ہے، حراستی مرکز میں قید افراد یا اہلخانہ رہائی کی درخواست دے سکتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کیس سے متعلق متنازع حقائق حل ہونے چاہئیں۔