توانائی بحران شدید تر
کراچی کے شہری شب بھر برقی رو کی عدم دستیابی کے باعث نیم خوابیدہ آنکھوں سے فقط پانی کے متلاشی ہوتے ہیں
حقیقی جمہوریت کا ایک اصول ہے کہ جہاں جہاں کوئی حکمران اپنے اچھے کاموں کا کریڈٹ لیتے ہیں، وہیں وہ اپنی ناکامیوں کا بھی کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں کہ ہاں اس معاملے میں مجھ سے غلطی یا کوتاہی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ میں اس نام نہاد جمہوریت کی بات نہیں کر رہا جس میں الیکشن کے نام پر ڈراما رچایا جاتا ہے اور سرمایہ دار سیاست کو بھی تجارت سمجھتے ہوئے اپنے انتخابی حلقے میں الیکشن کے دنوں میں کروڑوں روپے خرچ کرتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ کیا ایسے سیاست دانوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ کبھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں گے ممکن امر ہے؟ چنانچہ اسی سلسلے میں آج کی نشست میں ہم تذکرہ کریں گے توانائی بحران کا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ توانائی بحران 2007ء میں جنم لے چکا تھا، چنانچہ اس دورکے وزیر اعظم شوکت عزیزکے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا کہ وزیراعظم صاحب یہ توانائی کا بحران کیونکر پیدا ہوا؟ تو شوکت عزیز نے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے جواب اس حقیقت کے برعکس دیا کہ چونکہ ہمارے دور حکومت میں لوگوں کا معیار زندگی بہت زیادہ بلند ہو چکا ہے ہر گھر میں برقی رو سے چلنے والی اشیا وافر مقدار میں آچکی ہیں جس کے باعث برقی روکی عارضی قلت ہے مگر فکر کی کوئی بات نہیں اس عارضی قلت پر ہم بہت جلد قابو پالیں گے۔ درآمد شدہ وزیراعظم کو ملکی مسائل سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی؟ چنانچہ کوئی تین برس و چند ماہ کی اپنی وزارت عظمیٰ کی مدت شوکت عزیز نے پوری کی اور حسب روایت بیرون ملک چلے گئے۔ ہمارے ملک کے اکثر سیاستدان ایسا ہی کرتے ہیں کہ اپنے اقتدارکی مدت وطن عزیزمیں پوری کرو، جیسے ہی اقتدار کی مدت پوری ہو، بیرون ممالک کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ایسا ہی شوکت عزیز نے کیا۔
بہرکیف 18 فروری 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو حکومت سازی کا حق ملا، مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑے گا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں اس توانائی بحران پر قابو نہ پاسکی بلکہ پیپلزپارٹی کے وزراء تو توانائی بحران کا ذمے دار اپنے پیشرو مشرف حکومت کو قرار دیتے رہے جب کہ حقیقت بھی یہی تھی کہ توانائی بحران کی ذمے دار مشرف حکومت تھی، البتہ اس وقت کی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی ترتیب نہ دے سکی اور اپنی پانچ سالہ حکومتی مدت پوری کی اور رخصت ہوگئی، البتہ یہ ضرور ہوا کہ اس وقت کے اور آج کے دور کے بھی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف وفاقی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اکثر فرماتے کہ بس ہماری یعنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت آجائے پھر اگر چھ ماہ میں توانائی بحران پر قابو نہ پایا تو میرا نام بدل دینا۔ پھر وزیر اعلیٰ پنجاب یہ مدت چھ ماہ سے بڑھا کر ایک برس دو برس آخر میں تین برس کہتے رہے۔ ظاہر ہے اس قسم کی زبان کو ہمارے سماج میں بے زبانی کہا جاتا ہے اور شرفا میں اس قسم کی زبان کو ناپسند ہی کیا جاتا ہے۔ بہرکیف مارچ 2013ء میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی حکومتی مدت پوری کی اور 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کو وفاق میں حکومت سازی کا حق حاصل ہوا۔
پانچ جون 2017ء کو مسلم لیگی حکومت چار سال مکمل کرچکی ہے مگر توانائی بحران کا عالم یہ ہے کہ گویا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ آج پاکستانی مانچسٹر، فیصل آباد کی صنعتی شعبے میں صورتحال یہ ہے کہ وہاں کے اکثر سرمایہ دار اپنا سرمایہ و مشینری بیرون ممالک منتقل کرچکے ہیں۔ ان ممالک میں بنگلہ دیش وسری لنکا کا نام سرفہرست ہے۔ کراچی میں توانائی بحران کا عالم یہ ہے کہ کورنگی صنعتی ایریا کی اگر بات کریں تو میں پوری ذمے داری سے کہہ سکتا ہوں کورنگی صنعتی ایریا میں اس وقت 9 سے 10 گھنٹے برقی رو بندش کا سامنا ہے۔ رہائشی علاقوں کا تو ذکر ہی کیا کیونکہ کراچی میں برقی رو بندش کے گھنٹے لامحدود ہوچکے ہیں جس کے باعث دیگر مسائل یا بحرانوں نے جنم لے لیا ہے اہم مسئلہ ہے پانی کی سپلائی کا، مطلب یہ برقی رو ہو تو پانی کی سپلائی ہوسکے۔ چنانچہ برقی روکی روانی کا دورانیہ انتہائی قلیل ہے جس کے باعث پانی کی سپلائی شدید متاثر ہو رہی ہے اور کراچی کے شہری ایک ایک بوند پانی کے لیے ترس رہے ہیں البتہ ان حالات میں ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی ہے جوکہ منہ مانگے داموں پانی فروخت کر رہے ہیں۔ پانی کے پرچون کی فروخت کا ذکر کیا جائے تو 25 لیٹرکین پانی کی قیمت ہے 25 روپے یعنی پینے کا پانی گویا ایک لیٹر 1 روپے دستیاب ہے وہ بھی حاصل کرنے کے لیے مجھ جیسے آدمی کو پانی کے کین ہاتھ کی ٹرالی چلاتے ہوئے لانے پڑتے ہیں۔
گویا کراچی کے شہری شب بھر برقی رو کی عدم دستیابی کے باعث نیم خوابیدہ آنکھوں سے فقط پانی کے متلاشی ہوتے ہیں تاکہ فقط منہ دھوکر اپنے روزمرہ کاموں پر روانہ ہوسکیں۔ ان حالات میں جن شہریوں کو غسل کرنے کے لیے پانی دستیاب ہوگیا جان لو کہ وہ شہری خوش قسمت لوگوں میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ اس توانائی بحران کے باعث چھوٹے کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ اب بڑی صنعتیں بھی بحرانی کیفیت سے دوچار ہوچکی ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ مشرف حکومت پھر زرداری حکومت اور اب مسلم لیگی حکومت بھی توانائی بحران پر قابو پانے میں ناکام ہی نظر آتی ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں چند روز ہوئے ایک وفاقی وزیر سے سوال کیا گیا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے چھ ماہ ایک برس دو برس آخر میں تین برس توانائی بحران پر قابو پانے کے دعوے کیے تھے ان کا کیا ہوا؟ تو محترم وفاقی وزیر نے ارشاد فرمایا کہ وہ تو وزیر اعلیٰ پنجاب نے جوش خطابت میں ایسے دعوے کردیے تھے عملاً ایسا ممکن ہی نہیں جب کہ یہ وفاقی وزیر یہ نوید بھی دے چکے ہیں کہ توانائی بحران 2018ء تک بھی ختم نہیں ہوگا مگر آخر میں نہایت ادب سے ہم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ موجودہ مسلم لیگی حکومت کے معیشت کے ترقی کے دعوے فقط دعوے ہی ہیں کیونکہ معاشی ترقی مشروط ہے توانائی کے حصول سے اور توانائی کے بحران پر موجودہ حکومت ناکام ہے تو پھر معاشی ترقی کیسی؟ البتہ موجودہ حکومت اگر معاشی ترقی کے دعوے کرتی ہے تو یہ محض سیاسی مبالغہ آرائی ہی ہوسکتی ہے۔
جیسے کہ جمعۃ المبارک 2 جون 2017ء کو سرکاری ریڈیو کے نیوز بلیٹن میں بیان کیا جا رہا تھا کہ جاپان کے ایک میگزین میں ایک مضمون چھاپا گیا ہے کہ پاکستان معاشی ترقی کر رہا ہے، چنانچہ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ہماری معیشت ترقی کر رہی ہے۔اب اس قسم کی خبر سن کر بندے کا ''ہاسا'' ہی تو نکل جاتا ہے۔ ہم اتنا عرض کیے دیتے ہیں ترقی کا واسطہ ہوتا ہے سماج میں عام آدمی کی ترقی سے کہ سماج میں عام آدمی کا معیار زندگی کیا ہے؟ مگر کیفیت یہ ہے کہ ہر آدمی دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر باں باں کر رہا ہے۔ کیونکہ بیروزگاری، مفلسی، بھوک، جہالت، موسمی امراض، عام شہریوں کا مقدر بن چکا ہے چنانچہ ہم مسلم لیگی حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں سے یہ عرض کریں گے کہ عام آدمی کے مسائل پر توجہ دیں جن میں اس وقت اہم مسئلہ توانائی کا شدید بحران ہے۔ جوکہ حکمرانوں کی پوری توجہ کا طالب ہے۔