خیرات سے خدمت بھی اور خطرہ بھی

کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ آپکی جانب سے دی جانیوالی رقم ایک قیمتی جان بچا سکتی ہے یا بیگناہوں کی جان لے سکتی ہے؟


فہیم اختر June 07, 2017
یاد رہے کہ ہماری جانب سے دی جانے والی رقم اسکول کے طالبعلم کے لئے کئی ضروریات بھی پوری کرسکتی ہے اور ایک شرپسند کو شرپسندی کے لئے بھی بھرپور مدد دے سکتی ہے۔ فوٹو: فائل

رمضان المبارک کا مملکتِ خداداد پاکستان کے ساتھ دوہرا رشتہ ہے۔ اول یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان مکمل طور پر اسلامی ریاست ہے اور اسلام اِس ملک کا ریاستی مذہب ہے، جس کی وجہ سے اِس ملک میں بسنے والی اکثریت اِس مہینے کا احترام کرتی ہے اور دوسرا دائمی رشتہ اِس ملک کا رمضان المبارک کے ساتھ یہ ہے کہ 14 اگست 1947ء کو جس دن پاکستان دنیا کے نقشے میں ایک الگ ملک کی حیثیت سے نمودار ہوا، اِس دن بھی نہ صرف رمضان کا مہینہ تھا بلکہ رمضان المبارک کی 27ویں شب تھی اور جمعۃ المبارک کا دن تھا۔

1947ء میں آزادی کی صبح دیکھنے والے اِس ملک کے حالات مذہبی لحاظ سے مختلف اوقات میں مختلف انداز میں بدلتے رہے۔ کبھی اپنوں نے تو کبھی پرایوں نے مذہبی جذبات کو ہوا دے کر اِس ملک کو اِس نہج پر پہنچادیا کہ ایک وقت میں گمان اُٹھتا تھا کہ اب ریاست کو بچانے کا وقت آچکا ہے۔ جب بات ریاست کو بچانے کی آتی ہے تو اِس میں عوام کے فلاح و بہبود کی فکر نہیں ہوتی، بلکہ ایسے موقع پر تو کسی کو خبر تک نہیں ہوتی کہ عام آدمی اِس وقت کن حالات سے گزر رہا ہے اور اِس کے بنیادی ضروریات کیا ہیں؟ کیا اشیاء خورد و نوش اِن کی پہنچ میں ہیں یا سکت سے باہر ہیں؟ کیا اِن کو پانی، روٹی اور آسانی سے رہائش کی سہولیات میسر بھی ہیں یا نہیں؟

اِن جذبات کو اُبھار کر سب سے جو خطرناک اور عام آدمی کو حقیقت سے دور رکھ کر فوائد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اُس کا ذریعہ زکواۃ، خیرات اور صدقات کی رقومات ہوا کرتی ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر صدقات و خیرات اور زکواۃ کی رقومات سب سے زیادہ دی جاتی ہے۔

درجنوں تنظیمیں اِن رقومات کو غریب اور حقدار تک پہنچانے کی دعویدار ہیں۔ پاکستان میں اِن رقومات کی سالانہ رقم معلوم کرنا اِس لئے بھی مشکل ہے کہ ہزاروں لوگ اپنی زکواۃ، خیرات اور صدقات کی رقومات خفیہ طور پر دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ رقومات آج تک معمول کے حساب کتاب میں نہیں آئی ہیں۔

زکواۃ، عطیات، صدقات، خیرات اور عشر کی مجموعی رقم معلوم کرنے کے لئے مختلف ادوار میں محتاط سروے کئے گئے ہیں، جن میں 2001ء کے قریب یہ رقم 100 ارب کے قریب تھی۔ جبکہ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی سالانہ 554 ارب روپے خیرات کرتے ہیں۔ یہ وہ مملکت ہے جہاں پر عبدالستار ایدھی ایک روز کے لئے جھولی پھیلاتے تھے تو کچھ ہی گھنٹوں میں وہ جھولی لاکھوں روپوں سے بھر جاتی تھی۔ اِنہی رقومات سے لوگ سماجی خدمات سر انجام دیتے نظر آرہے ہیں۔ درجنوں مقامات پر اسپتال، اسکول اور بنیادی سہولیات کے فراہمی کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن یہی وہ سروے تھا جس نے اِس سوچ کو مزید توانائی بخشی کہ کیا 554 ارب روپے کی یہ رقم محفوظ ہاتھوں میں ہے یا نہیں؟

ایک عام آدمی جو معمولی رقم سمجھ کر 100 روپے خیرات کرتا ہے، اب یہ رقم اسکول کے طالبعلم کے لئے کئی ضروریات بھی پوری کرسکتی ہے اور ایک شرپسند کو شرپسندی کے لئے بھی بھرپور مدد دے سکتی ہے۔ یہ رقم آگ بھی پھیلا سکتی ہے اور آگہی بھی پھیلا سکتی ہے۔

اِسی سروے میں محتاط انداز میں اِس سوال کو بھی رقومات مہیا کرنے والے افراد کے سامنے رکھا گیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کی یہ رقم کن ہاتھوں میں جاتی ہے؟ آپ کی یہ رقم ایک قیمتی جان کو بچا بھی سکتی ہے اور بے گناہ موت مار بھی سکتی ہے؟ اِس سوال کے جواب میں 26 فیصد افراد کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اُن سے رقم لینے والے 'ہاتھ' کیا کرتے ہیں اور کہاں استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ ایک بڑی تعداد نے اِس بات کے جواب میں اثبات سے سر ہلایا کہ وہ خدشہ محسوس کررہے ہیں کہ اُن کی جانب سے دی جانے والی رقومات کو غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔

وطنِ عزیز میں ماضی کی مثالوں کو سامنے رکھیں تو معلوم پڑتا ہے کہ جو دہشتگردی پھل پھول رہی ہے، اُس کے اثرات بغیر کسی حدود کے دوسرے علاقوں تک جنگل میں آگ کی طرح پھیلتے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر شدت پسندی پھیلانے والے عناصر کے ہاتھوں میں یہ رقم چلی گئی تو آگہی اور پنسل نہیں بلکہ آگ اور کارتوس کو ہی قوت میسر آئے گی۔ اِن غلط ہاتھوں میں جرائم پیشہ افراد بھی سماجی بہبود کے ورکروں کی شکل میں ملوث ہوسکتے ہیں۔

رمضان المبارک کا مہینہ اسلامی مہینوں میں افضل ترین مہینہ ہے، یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں فلاح و بہبود کے لئے دی گئی رقومات میں حیرت انگیز حد تک اضافہ ہوتا ہے۔ پورے سال کے مقابلے میں صرف ماہِ رمضان میں یہ رقم 70 فیصد ہوتی ہے۔ اگر 554 ارب روپے کا 70 فیصد نکالا جائے تو یہ رقم 350 ارب روپے سے زیادہ بنتی ہے، گویا پاکستان میں ماہ رمضان میں زکواۃ، خیرات، صدقات و دیگر عطیات کی مد میں 350 ارب سے زائد روپے اکھٹے ہوتے ہیں۔

ہم اگر اپنی ذمہ داری پوری نہ کریں اور یہ نہ سوچیں کہ یہ رقم محفوظ ہاتھوں میں ہے یا غلط ہاتھوں میں، تو یقیناً نہ صرف مذہبی فریضہ جرم کی شکل اختیار کرجائے گا بلکہ قومی لحاظ سے بھی ہم اپنی نظروں میں مجرم ٹھہر جائیں گے۔ جب صورتحال ایسی ہوجائے کہ ہم غریب کے کاندھوں کا سہارا بننے کی کوشش کریں اور ہم اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارنے والے بن جائیں تو ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری حق حلال کی روزی جو ہم خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کررہے ہیں، کہیں یہ حق حلال کی روزی دہشت گردی کے لئے تو استعمال نہیں ہورہی؟

کیوں نہ ہم افسوسناک واقعات کے بعد افسوس اور مذمت کی رٹ لگانے سے قبل اِن واقعات کا سدباب کریں۔ کیوں نہ اپنی رقومات دیتے وقت فلاحی اداروں سے اُن کی کارکردگی اور اُن کی وابستگی کا سوال کریں؟ ہمارے یہاں یہ بات کہی جاتی ہے کہ زکواۃ، خیرات اور صدقات کی رقومات دینے کے لئے صرف نیت ٹھیک ہونا ہی شرط ہے، بلکہ موجودہ حالات میں صرف نیت کا ٹھیک ہونا ہی ضروری نہیں بلکہ 'شک' کرنا بھی ضروری ہے کہ جن لوگوں کو آپ یہ رقوم دے رہے ہیں کہیں وہ اِن رقوم کو غلط جگہ پر تو استعمال نہیں کررہے۔

اِسی سوال کے جواب کے لئے وفاقی وزارت اطلاعات کے زیر نگرانی 3 سالوں سے حق حقدار تک کی مہم جاری ہے جو مختلف سیمینارز، بینروں اور تقریبات کے ذریعے عوام میں اِس بات کا شعور دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ
'دل کھول کر دیں مگر دیکھ بھال کر دیں'

تاکہ ہماری خیرات ہمارے لئے ہی خطرہ نہ بن جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں