مستقبل کی تپتی دھوپ سے بچنا ہے تو درخت لگائیں
کیا خدا روٹھ گیا اِن گلیوں سے؟ جہاں اب گھانس کا ایک تنکا تک نہیں، بس اینٹوں اور پتھروں کے مکان ہیں۔
کیا خدا روٹھ گیا اِن گلیوں سے؟ جہاں اب گھانس کا ایک تنکا تک نہیں، بس اینٹوں اور پتھروں کے مکان ہیں۔ کچے صحن پر بھی سنگِ مرمر نے قبضہ کرلیا، گُل دوپہری کے گلابی پھولوں سے لدے دو چار گملے جو ہر آنگن کی شان ہوا کرتے تھے اب کہیں نظر نہیں آتے۔ کسی اور سے کیا گلہ کیجئے، یہ جو میرا مکان ہے اِس کے صحن میں ایک کیاری ہوا کرتی تھی، جس میں لہسن، دھنیا، پودنیہ تو ہوتا ہی تھا۔ ہم بینگن اور گوبھی کے بھی کچھ پودے لگا دیا کرتے تھے، ایک فالسہ اور ایک میٹھے اناروں کے پیڑ کیاری کے دونوں کونوں پر براجمان تھے پھر ہم نے سرکنڈوں کی چھت سے بنا کچن گرایا اور گھر کا سارا صحن ہی پختہ کردیا۔ کیاری، پھلواری، پھل، سبزیاں سب کچھ اِس پکے فرش میں دفن ہوکر رہ گیا۔
اب کتنے لوگ جانتے ہیں کہ ایک گلی پیچھے، کونے پر ایک آموں کا باغ ہوا کرتا تھا جس کے کچے آم ہم چرایا کرتے تھے اور ٹھیک جس جگہ ہمارا گھر ہے یہاں بھی آموں کے پیڑ ہوا کرتے تھے۔ اگر آپ محلے کی دس گلیاں چھوڑ کر ذرا آگے جائیں تو یہاں پر سبزیوں کے کھیت ہوا کرتے تھے۔ پھر آبادی کے عفریت نے اِن سب کھیتوں کو نگل لیا اور اب اِن پتھریلی گلیوں میں کسی پودے کا نشان تک باقی نہیں۔
گھاس کا ایک تنکا تک نہیں ہے، کسی دیوار کے پیچھے سے جھانکتا ہوا کوئی آموں کا پیڑ باقی نہیں ہے، اور تو اور گل دوپہری کا ایک آدھ گملا بھی نظر نہیں آتا۔
اپنے گھر اور گلی کے خیال میں لکھی ہوئی یہ چند باتیں، بھوٹان کے وزیراعظم کے ٹیڈ پلیٹ فارم پر خطاب کو سن کر پھر سے تازہ ہوگئیں۔
بھوٹان ابھی دنیا کا واحد کاربن نیوٹرل ملک ہے، جس کے قانون کے مطابق ملک میں کم از کم 60 فیصد رقبے پر جنگلات ہونا ضروری ہیں، جس نے طے کر رکھا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ نہیں ہونے دیں گے۔ اپنی ضرورت کی بجلی وہ قدرتی ذرائع سے بنا رہے ہیں۔ گھر میں بجلی کی فراہمی آسان اور ارزاں کی گئی ہے تاکہ کسی کو لکڑی نہ جلانی پڑے۔ عام کاروں کے بجائے الیکٹرک کاروں کو فروغ دیا گیا ہے، اور سب سے خوبصورت خیال یہ لگا کہ سارے کا سارا ملک قدرتی گزرگاہوں کے توسط سے ایک دوسرے سے جوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی آپ جنگل جنگل چلتے ہوئے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ سکتے ہیں۔
کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر سماجی اور پُر مزاح ویڈیوز بنانے والے جنید اکرم کے صفحہ سے پتہ چلا کہ وہ پاکستان میں پودے لگانے کی کسی مہم کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اِس پر میں نے بھی اپنے پروجیکٹ کی بابت بتایا کہ ہم بھی پاکستان میں پھلدار درخت لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال ہمارے اِس پراجیکٹ کی طرف سے فیصل آباد میں تین سو پودے لگائے گئے ہیں۔ گوکہ میری ذاتی زندگی کی الجھنوں کی وجہ سے میں اِس سال بہت سے پودے نہیں لگا سکا لیکن میری پودے لگانے کی خواہش اُسی طرح سے زندہ ہے۔ ایسے ہی ہمارے فیس بک کے دوست ساجد اقبال سندھو صاحب نے اپنی فیس بک کی دیوار پر لکھا کہ وہ اپنی زندگی میں لاکھ سے زائد درخت لگانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔
اِس سے پہلے ہمارے جامعہ کے استاد محترم شہزاد بسرہ صاحب بھی ہر سال کی طرح ماہِ اگست میں شجر کاری کی مہم کا حصہ بننے کو تیار نظر آتے ہیں۔ ایگری ٹورزم کے بانی طارق تنویر بھی کمر بستہ ہیں کہ وہ باغ محبت کے نام سے لوگوں کو اپنے پیاروں کی یاد میں ایک پودا لگانے کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔
فیس بک پر اپنے احباب کی مثالوں سے مراد یہ مقصود ہے کہ ہم سب پاکستانی اپنی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے اپنے حصے کا سبزہ اور پودا اگانے کی طرف قدم بڑھائیں۔ وہ طاقت جو سوشل میڈیا میں ہے جس کا مظاہرہ کچھ روز پہلے فروٹ بائیکاٹ کی صورت سب نے دیکھا ہے، اُس طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ہم سب آگے بڑھیں اور اِس سال اپنے نام کا ایک پودا لگا ہی دیں، اگر وہ پودا مرجھا جائے تو اُس کی جگہ ایک اور پودا لگائیں، جب تک زندہ ہیں اپنے حصے کے پودے کو مرنے نہ دیں۔
کوپن ہیگن کی مثالوں سے آپ کو بور کرنا نہیں چاہتا لیکن مومن کا گم گشتہ مال یہاں بکھرا پڑا ہے۔ کل ایک دوست نے بتایا کہ بیٹی کے اسکول والوں نے بلایا تھا کہ آئیے آج بچے اور اُن کے والدین پودے لگائیں گے۔ شاید آپ کو پاکستان میں کوئی نہ بلائے کہ آئیے آج پودے لگائے جائیں گے، اس لئے اٹھیے اپنے حصے کا پودا خود ہی لگانے کی تیاری کریں۔ میری خواہش ہے کہ سوشل میڈیا کے سبھی ایکٹوسٹ اکٹھے ہوکر اِس سال ماہ اگست کو پاکستان میں شجر کاری کے لئے مثال بنا دیں، اور وہ پودے اُن گلیوں میں واپس لوٹ آئیں جہاں اُن کے سائے میں مستقبل کی گرم دھوپ کاٹی جا سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب کتنے لوگ جانتے ہیں کہ ایک گلی پیچھے، کونے پر ایک آموں کا باغ ہوا کرتا تھا جس کے کچے آم ہم چرایا کرتے تھے اور ٹھیک جس جگہ ہمارا گھر ہے یہاں بھی آموں کے پیڑ ہوا کرتے تھے۔ اگر آپ محلے کی دس گلیاں چھوڑ کر ذرا آگے جائیں تو یہاں پر سبزیوں کے کھیت ہوا کرتے تھے۔ پھر آبادی کے عفریت نے اِن سب کھیتوں کو نگل لیا اور اب اِن پتھریلی گلیوں میں کسی پودے کا نشان تک باقی نہیں۔
گھاس کا ایک تنکا تک نہیں ہے، کسی دیوار کے پیچھے سے جھانکتا ہوا کوئی آموں کا پیڑ باقی نہیں ہے، اور تو اور گل دوپہری کا ایک آدھ گملا بھی نظر نہیں آتا۔
اپنے گھر اور گلی کے خیال میں لکھی ہوئی یہ چند باتیں، بھوٹان کے وزیراعظم کے ٹیڈ پلیٹ فارم پر خطاب کو سن کر پھر سے تازہ ہوگئیں۔
بھوٹان ابھی دنیا کا واحد کاربن نیوٹرل ملک ہے، جس کے قانون کے مطابق ملک میں کم از کم 60 فیصد رقبے پر جنگلات ہونا ضروری ہیں، جس نے طے کر رکھا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ نہیں ہونے دیں گے۔ اپنی ضرورت کی بجلی وہ قدرتی ذرائع سے بنا رہے ہیں۔ گھر میں بجلی کی فراہمی آسان اور ارزاں کی گئی ہے تاکہ کسی کو لکڑی نہ جلانی پڑے۔ عام کاروں کے بجائے الیکٹرک کاروں کو فروغ دیا گیا ہے، اور سب سے خوبصورت خیال یہ لگا کہ سارے کا سارا ملک قدرتی گزرگاہوں کے توسط سے ایک دوسرے سے جوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی آپ جنگل جنگل چلتے ہوئے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ سکتے ہیں۔
[fb-post-embed url="https://www.facebook.com/vivekshettyn/videos/455125924692768/"]
ویسے تو اِس تقریر کے ہر فقرے سے ہمیں سیکھنے کے لئے کچھ نہ کچھ ملتا ہے لیکن جس بات پر مجھے بات کرنی ہے وہ پاکستان میں درختوں، پودوں اور ہریالی کے لئے فروغ کے لئے تحریک کے فروغ کی ضرورت ہے۔
کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر سماجی اور پُر مزاح ویڈیوز بنانے والے جنید اکرم کے صفحہ سے پتہ چلا کہ وہ پاکستان میں پودے لگانے کی کسی مہم کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ اِس پر میں نے بھی اپنے پروجیکٹ کی بابت بتایا کہ ہم بھی پاکستان میں پھلدار درخت لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال ہمارے اِس پراجیکٹ کی طرف سے فیصل آباد میں تین سو پودے لگائے گئے ہیں۔ گوکہ میری ذاتی زندگی کی الجھنوں کی وجہ سے میں اِس سال بہت سے پودے نہیں لگا سکا لیکن میری پودے لگانے کی خواہش اُسی طرح سے زندہ ہے۔ ایسے ہی ہمارے فیس بک کے دوست ساجد اقبال سندھو صاحب نے اپنی فیس بک کی دیوار پر لکھا کہ وہ اپنی زندگی میں لاکھ سے زائد درخت لگانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔
اِس سے پہلے ہمارے جامعہ کے استاد محترم شہزاد بسرہ صاحب بھی ہر سال کی طرح ماہِ اگست میں شجر کاری کی مہم کا حصہ بننے کو تیار نظر آتے ہیں۔ ایگری ٹورزم کے بانی طارق تنویر بھی کمر بستہ ہیں کہ وہ باغ محبت کے نام سے لوگوں کو اپنے پیاروں کی یاد میں ایک پودا لگانے کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔
فیس بک پر اپنے احباب کی مثالوں سے مراد یہ مقصود ہے کہ ہم سب پاکستانی اپنی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنے اپنے حصے کا سبزہ اور پودا اگانے کی طرف قدم بڑھائیں۔ وہ طاقت جو سوشل میڈیا میں ہے جس کا مظاہرہ کچھ روز پہلے فروٹ بائیکاٹ کی صورت سب نے دیکھا ہے، اُس طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ہم سب آگے بڑھیں اور اِس سال اپنے نام کا ایک پودا لگا ہی دیں، اگر وہ پودا مرجھا جائے تو اُس کی جگہ ایک اور پودا لگائیں، جب تک زندہ ہیں اپنے حصے کے پودے کو مرنے نہ دیں۔
کوپن ہیگن کی مثالوں سے آپ کو بور کرنا نہیں چاہتا لیکن مومن کا گم گشتہ مال یہاں بکھرا پڑا ہے۔ کل ایک دوست نے بتایا کہ بیٹی کے اسکول والوں نے بلایا تھا کہ آئیے آج بچے اور اُن کے والدین پودے لگائیں گے۔ شاید آپ کو پاکستان میں کوئی نہ بلائے کہ آئیے آج پودے لگائے جائیں گے، اس لئے اٹھیے اپنے حصے کا پودا خود ہی لگانے کی تیاری کریں۔ میری خواہش ہے کہ سوشل میڈیا کے سبھی ایکٹوسٹ اکٹھے ہوکر اِس سال ماہ اگست کو پاکستان میں شجر کاری کے لئے مثال بنا دیں، اور وہ پودے اُن گلیوں میں واپس لوٹ آئیں جہاں اُن کے سائے میں مستقبل کی گرم دھوپ کاٹی جا سکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔