انسانی حقوق کا احترام

اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے انسانی حقوق کے قومی اداروں کا اپنا ایک انفرا اسٹرکچر ہوتا ہے


Mahnaz Rehman June 08, 2017

مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق سے متعلق مختلف کمیشنوں کا قیام ایک طرف تو خوش آیند ہے، وہیں ان کی خود مختاری کے حوالے سے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفترکے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسانی حقوق کے قومی اداروں کو پیرس اصولوں کے مطابق مضبوط اور خود مختار بنایا جائے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1986ء سے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے قومی اداروں کے حوالے سے اہم قراردادیں پیش ہوتی رہی ہیں۔

دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے رد عمل کے طور پر 1945ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے بعد سے مذہب، زبان، جنس، نسل کے امتیاز سے قطع نظر سب کے لیے بنیادی آزادیوں اور انسانی حقوق کا احترام اور فروغ بین الاقوامی برادری کا ایک اہم ستون بن چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے منشورکے مطابق اس کے قیام کا ایک مقصد سب کے لیے بنیادی آزادیوں اور انسانی حقوق کے احترام اور فروغ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

اس زمانے کی اہم شخصیات کی حمایت کے نتیجے میں دنیا بھر کے ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 10 دسمبر 1948ء کو انسانی حقوق کا بین ا لاقوامی اعلامیہ منظورکیا۔ 10 دسمبر اب دنیا بھر میں انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس اعلامیے کا پہلا آرٹیکل انسانی حقوق کی وضاحت کرتا ہے ۔''سب انسان آزاد پیدا ہوئے ہیںاور سب عزت اور حقوق کے لحاظ سے برابر ہیں۔'' اس کے بعد آنے والے سالوں میں دو اہم معاہدے سامنے آئے۔ شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہICCPR اور اقتصادی، سماجی اور سیاسی حقوق کا عالمی معاہدہ ICESCR، ان دو معاہدوں کو ملا کر انسانی حقوق کا عالمی بل بھی کہا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قومی سطح پر ان معاہدوں پر عمل کریں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے نو عالمی معاہدے ہیں، جن پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ ہرکمیٹی میں دس سے پچیس تک خود مختارماہرین شامل ہوتے ہیں۔ جنہیں رکن ممالک چار سال کے لیے نامزد کرتے ہیں، قومی اداروں کے لیے بین ا لاقوامی طریقہ کار پر عمل کرنا اور اقوام متحدہ میں اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں کے حوالے سے پیرس اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اقوام متحدہ نے یہ اصول قومی اور ملکی اداروں کے لیے ہی بنائے ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کی وزارت قائم ہے، نیز انسانی حقوق کا ملکی کمیشن ہے جس کے چیپٹرز ہر صوبے میں ہیں اور سندھ میں سندھ ہیومن رائٹس کمیشن بھی ہے۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کا خود مختار ہونا ضروری ہے۔ اس لیے وہ وزارت کے تحت نہیں آتا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے ملکی صورتحال کے بارے میں رپورٹ تیارکرنا کمیشن کی ذمے داری ہے۔ ملک میں جہاں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو، اس کی جانب حکومت کی توجہ دلانا کمیشن کا کام ہے۔کمیشن ان رپورٹس میں بھی اپنا حصہ ڈالتا ہے جو ملکی حکومت اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کو پیش کرتی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 17 دسمبر 2015ء کو انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے قومی اداروں کے حوالے سے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں اس امر کو سراہا گیا کہ اب دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے خود مختار اور تکثیری قومی ادارے بن رہے ہیں اور مضبوط ہو رہے ہیں۔اس سے پہلے دسمبر 2014ء میں محتسب اعلیٰ اور مصالحتی اداروں کے بارے میں قرارداد منظور کی جا چکی ہے۔اقوام متحدہ خاص طور پر اس کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کی کوشش رہی ہے کہ رکن ممالک میں انسانی حقوق کے خود مختار اور موثر ادارے قائم کیے جائیں جو اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں سے رابطے میں رہیں۔

تمام انسانی حقوق آفاقی، نا قابل تقسیم، باہم مربوط ہیں۔ اس لیے سارے حقوق پر یکساں توجہ دی جائے اور سب کے ساتھ مساوی اور منصفانہ سلوک کیا جائے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ہر ملک کی اپنی قومی اور علاقائی خصوصیات اور اپنا تاریخی، ثقافتی اور مذہبی پس منظر ہوتا ہے، لیکن ہر ملک کو اپنے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی نظاموں سے قطع نظر انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے تحفظ اور فروغ کی ذمے داری پوری کرنا ہوگی۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی رابطہ کمیٹی رکن ممالک کے انسانی حقوق کے قومی کمیشنوں سے رابطہ رکھتی ہے اور ان کے اختیارات کو تسلیم کرتی ہے۔ یہ خود مختار قومی ادارے اپنی حکومتوں کے ساتھ مل کے انسانی حقوق کے فروغ کے لیے کام کرتے ہیں اور اپنی حکومت اور اقوام متحدہ کے درمیان تعاون بڑھانے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کمیشنوں یا اداروں کا مالی اور انتظامی طور پر خود مختار اور مستحکم ہونا ضروری ہے۔ ان کی علاقائی اور بین ا لاقوامی میٹنگوں کے لیے اقوام متحدہ اعانت کرتی ہے۔

ان اداروں کی تشکیل اور ارکان کی تقرری میں سول سوسائٹی کی نمایندگی ضروری ہے۔ خاص طور پر درج ذیل کی:

الف) انسانی حقوق اور نسلی امتیاز کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں، ٹریڈ یونینز، سماجی اور پیشہ ورانہ تنظیمیں جیسے وکلا، ڈاکٹرز، صحافی اور ممتاز سائنسدانوں کی تنظیمیں۔

ب) فلسفیانہ یا مذہبی سوچ کے رحجانات کی نمایندگی کرنے والے۔

ج) یونیورسٹیاں اور مستند ماہرین۔

د) پارلیمنٹ۔

ڈ) سرکاری محکموں کے نمایندے صرف مشاورتی حیثیت میں شامل ہو سکتے ہیں۔

اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے انسانی حقوق کے قومی اداروں کا اپنا ایک انفرا اسٹرکچر ہوتا ہے اور انھیںخاطر خواہ فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ دفتر لے سکیں اور عملہ رکھ سکیں اورآزادانہ طور پر اپنا کام کر سکیں۔ ان پر حکومت کا مالی کنٹرول نہ ہو تاکہ ان کی خود مختاری متاثر نہ ہو۔ اسی لیے ان کمیشنوں کا قیام قانون کے تحت عمل میں آتا ہے، یہ قانون ارکان کے دائرہء کار اور معیادکا تعین کرتا ہے۔ ان کمیشنوں کو انفرادی صورت میں شکایات اور پیٹیشنز سننے کا اختیار ہوتا ہے۔ یہ قانون کی حد میں رہتے ہوئے فریقین کے درمیان تصفیہ کرا سکتے ہیں۔ پیٹیشن دائرکرنے والے فریق کو اس کے قانونی حقوق سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ پیٹیشن دائر کرنے والے فریق کو درپیش مشکلات کے حوالے سے قوانین میں تبدیلی یا اصلاحات کے لیے مجاز حکام کو تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔

عام طور پر انسانی حقوق کے قومی ادارے حکومت کی رپورٹوں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔اس میں سرکاری رپورٹ کے بارے میں مشاورت اور تبصرہ بھی شامل ہوتا ہے۔ایک شیڈو یا کمیشن کی اپنی رپورٹ بھی تیارکی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپس کے سیشنز سے پہلے زبانی پریزینٹیشنز بھی دی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کے قومی ادارے ، غیر سرکاری تنظیمیں اور اقوام متحدہ کی ایجنسیاں ٹریٹی باڈیزکو ملکی حکومتوں کی جانب سے عالمی معاہدوں پر عمل درآمد کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں۔

بہت سے ممالک کی حکومتیں وقت پر اقوام متحدہ کو رپورٹ نہیں بھیج پاتیں ایسے میں انسانی حقوق کا قومی ادارہ رپورٹنگ کی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے حکومت کی حوصلہ افزائی کرسکتا ہے۔ حالیہ تحقیقی مطالعوں سے ثابت ہو اہے کہ وہ ممالک جہاں انسانی حقوق کے قومی ادارے کام کررہے ہیں، انھوں نے انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کی ان ممالک کے مقابلے میں ایک تہائی زیاد ہ توثیق کی ہے جہاں انسانی حقوق کے قومی ادارے نہیں ہیں۔اسی طرح قومی ادارے رکھنے والے ممالک کی رپورٹنگ کی شرح بیس فی صد زیادہ ہے۔ جب کوئی عالمی معاہدہ نافذالعمل ہوتا ہے تو اس ملک کی حکومت کو ایک سال بعد ابتدائی جامع رپورٹ جمع کرانی ہوتی ہے۔(CRC and ICESCRکے لیے دو سال بعد رپورٹ جمع کرانی ہوتی ہے)اس کے بعد متعلقہ معاہدے میں جو بھی عرصہ درج ہو اس کے مطابق رپورٹ جمع کرائی جاتی ہے۔مثال کے طور پر ICCPR, CEDAW, and CAT) )ثقافتی اور سیاسی حقوق کا معاہدہ، عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا معاہدہ اور ٹارچر کے خلاف معاہدے کی رپورٹیں ہر چار سال بعد پیش کرنا ہوتی ہیں۔

ملکی سطح پر انسانی حقوق کا قومی کمیشن مختلف اسٹیک ہولڈرز جیسے غیرسرکاری تنظیموں اور حکومتی اداروں کے ساتھ مشاورت اور مباحثے میں شریک ہو سکتا ہے، دوسری طرف حکومت بھی کمیشن اور غیر سرکاری تنظیموں کو مدعو کر سکتی ہے۔کمیشن حکومت کی رپورٹ پر اپنا فیڈ بیک دے سکتا ہے۔انسانی حقوق کے قومی کمیشن کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ حکومت کی فائنل رپورٹ میں اس کی تجاویز بھی شامل ہوں۔انسانی حقوق کی صورتحال پر تحقیق کی وجہ سے کمیشن کے پاس معلومات اور اعدادوشمار ہوتے ہیں۔ بہرحال اس سارے عمل کے دوران کمیشن کو اپنی خود مختاری ہمیشہ برقرار رکھنی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں