ٹھہریں خودکشی سے پہلے یہ پڑھ لیں

افراد یا کسی گھر کی غربت کا ذمے دار کون ہو سکتا ہے


Sajid Ali Sajid June 08, 2017
[email protected]

حکومت نے اس بات کی تحقیقات کے لیے کہ لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں، ایک کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی سفارشات کی روشنی میں وہ حالات دورکرنے کی کوشش کی جائے گی جو بعض بدقسمت افراد کو خودکشی پر مجبورکرتے ہیں۔

اگرچہ کسی بھی معاملے پرکمیشن بنانے کا عام طور پر مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی اہم مسئلے کو قالین کے نیچے سرکا دیا جائے تاکہ سرے سے مسئلے کا وجود ہی نظر نہ آئے اور لوگ اس کے حل کے لیے پریشان نہ کریں۔

اس سلسلے میں اخبارات میں دور دراز علاقوں کے حوالے سے تقریباً روزانہ جو ایک دو خبریں شایع ہوتی ہیں ان کے مطابق عام طور پر لوگ غربت کی وجہ سے خودکشی کرتے ہیں، اکثر کوئی ماں جب غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کی پرورش نہیں کر پاتی تو بچوں سمیت دریا یا نہر میں کود جاتی ہے۔

عشق و محبت بھی بسا اوقات خودکشی کا باعث بنتے ہیں اور اکثر کوئی نوجوان دوشیزہ اپنے محبوب کی بے وفائی کی وجہ سے زہر کھا لیتی ہے کبھی کبھار کوئی نوجوان بھی اپنی محبوبہ کی بے وفائی کی وجہ سے اگر گاؤں میں ہو تو دریا میں اور اگر کراچی جیسے شہر میں ہو تو سمندر میں کود کے جان دے دیتا ہے۔

ہمیں سچی بات ہے خودکشی کرنے والوں کو طنز و مزاح کا نشانہ بناتے ہوئے خاصی شرمندگی محسوس ہو رہی ہے کیونکہ اگر ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ لوگ خاصے بہادر لوگ ہیں کیونکہ خودکشی کرنا کسی پست ہمیں کا کام نہیں ہے۔ بلکہ بہت سے لوگ تو سستی و کاہلی کی وجہ سے خودکشی کرنے سے رہ جاتے ہیں کہ کون بس میں بیٹھے اتنا لمبا سفر طے کر کے کیماڑی جائے اور پھر سمندر میں کودے جب کہ بیشتر کے پاس اتنی دور جانے کے لیے رکشہ ٹیکسی کا کرایہ بھی نہیں ہوتا۔ بہرکیف خودکشی کرنے والوں یا اس قسم کا خطرناک ارادہ کرنے والوں سے معذرت۔ کیونکہ ہم نے جیسا پہلے کہا کہ اس موضوع پر لکھنے اور ایسے لوگوں کا مذاق اڑانے پر ہمارا خاصا دل دکھ رہا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے خودکشی کرنے والوں اور ان کے لواحقین پر جو کچھ گزرتی ہو گی اس کا محض تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔

بہرحال ایسے لوگوں کی خودکشی کے بہت سے ایسے لوگ ذمے دار ہوتے ہیں جو ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جن کی وجہ سے لوگ اپنی جان دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مثلاً شوہر حضرات اپنی بیویوں کے لیے ایسے گھریلو حالات پیدا کرتے ہیں کہ بے چاری عورت ان حالات کی وجہ سے خودکشی پر مجبور ہو جاتی ہے یا ڈھیر سارے بچے ماں کے حوالے کر دیتے ہیں کہ جا ان بچوں کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کر اور اگر نہ کر سکے تو بچوں سمیت دریا میں کود جا۔ ہمیں نجانے کیوں بچوں سمیت کودنے والی ماں کے اس طرح جان دینے کا سب سے زیادہ دکھ ہوتا ہے اور خود خودکشی کرنے کا جی چاہنے لگتا ہے کیونکہ وہ حالات جن کی وجہ سے ماں خودکشی کر رہی ہے شوہر کے پیدا کردہ ہیں اور اس سلسلے میں ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے اور اس وقت ان بچوں کے چہروں پرکیا تاثرات ہوتے ہوں گے یہ سوچ کر کم ازکم ہمارا دل لرز جاتا ہے۔

افراد یا کسی گھر کی غربت کا ذمے دار کون ہو سکتا ہے۔ وہ ادارہ یا معاشرہ جس نے کسی شخص کو بے روزگار کر دیا ہے۔ وہ شوہر جس نے اپنی بیوی کو گھر کا خرچہ دینا بند کر کے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

ایسے حالات کی ذمے داری قبول کرنے کے سلسلے میں کہیں دوردراز جا کر سہی حکومت اور حکمرانوں کا نام بھی آ جاتا ہے۔ بظاہر ہمارے حکمرانوں نے ایسے ایشوز پر شتر مرغ کی طرح آنکھیں بندکر رکھی ہیں۔ ابھی تک شاذونادر ہی ہماری نظر سے کوئی ایسی خبر گزری ہے کہ کہیں کسی شخص نے خودکشی کی ہو اور وہ حالات دیکھنے جس نے اس بدنصیب کو خودکشی پر مجبورکیا ہو، کوئی وزیراعظم، وزیراعلیٰ، متعلقہ وزیر یا ایم این اے، ایم پی اے متاثرہ اہل خانہ سے ملنے گئے ہوں۔ حکمرانوں کے نزدیک یہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہے، ایسے خودکشی کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور اکثریت ان لوگوں کی ہے جو مردانہ وار حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

بہرحال اگر یہ خبر صحیح ہے تو یہ بات خوش آیند ہے کہ حکومت کی طرف سے ان حالات کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو کسی شخص کو خودکشی کرنے پر مجبور کرتے ہیں یہ طے کرنے کے لیے کہ ایسے حالات پیدا کرنے میں حکومت کا ہاتھ کہاں تک ہوتا ہے اور انھیں دورکرنے کے لیے حکومت کی طرف سے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔

اس کے علاوہ سرکاری و نجی اداروں کی انتظامیہ کو بھی اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی ہو گی اور اپنے ملازمین کے گھریلو حالات میں جھانکنا ہو گا یہ پتہ چلانے کے لیے کہ برطرفی کا کوئی اقدام کسی بے روزگار شخص کوکہیں خودکشی پر تو مجبور نہیں کرے گا۔

اس سلسلے میں جو لوگ ''بارڈر لائن'' پر ہیں ان کو کسی سمندر یا دریا میں کودنے سے روکنے کے لیے صرف حکمرانوں پر ہی نہیں بلکہ ایسے افراد کے قریبی رشتے داروں اور محلے داروں پر بھی اہم ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں جو انھیں محسوس بھی کرنی چاہئیں۔ انھیں اس بارے میں باخبر رہنا چاہیے کہ ان کے آس پاس کے لوگ کہاں اورکس حال میں ہیں۔

ایسے فون نمبر بھی Create کیے جا سکتے ہیں جہاں ایسے افراد جو خودکشی کرنے پر آمادہ ہوں یہ انتہائی قدم اٹھانے سے پہلے رابطہ قائم کر سکتے ہوں اور جہاں ایسے ماہرین مامور ہوں جو ایسے بدنصیب افراد کو سمجھا سکیں اور یہ باور کرا سکیں کہ خودکشی بزدلی کی علامت ہے اور خودکشی ہمارے مذہب میں حرام ہے۔ اگر آپ واقعی ایسے حالات سے دوچار ہیں تو تھوڑا صبر کر لیں یہ معاشرہ آپ کو خود ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے ذریعے قبرستان تک پہنچا دے گا، آپ بلاوجہ کیوں یہ الزام اپنے سر لیتے ہیں جو لوگ اس کام پر مامور ہیں انھیں اپنا کام کرنے دیں۔ تھوڑا سا انتظار کر لیں یہ معاشرہ خود خودکشی کے لیے درکار طوق آپ کی گردن میں ڈال دے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں