بدلتی دنیا ـــ اورہم
اور اب جب خلیجِ فارس کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جار ہا ہے
ہم جس عہد سے گزر رہے ہیں، ایک ایسا دور ہے کہ جب انسان ٹیکنالوجی کی بلندیوں کو چْھو رہا ہے۔ نِت نئی دریافتوں کا خزینہ اْس کے پاس سِمٹ رہا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان، انسانیت کے بلند اقدار سے پستی پر آیا ہے۔ یہ نِیوگلوبل زمانہ ہے اور نِیو لبرل معیشت کا سکہ رائج الوقت ہے۔ جو بھی تھی سرد جنگ، مگر انسانیت کے اقدار اتنے پست نہ تھے نہ قیادت کا بْحران تھا۔
اب کی بار جو رسم چلی ہے کہ یہ نیو لِبرل کی دنیا کی قیادت، خود غرضی میں اپنا مقام رکھتی ہے، تو دوسری طرف اِس کے سائے تلے جس تیزی سے دنیا میں تضادات پیدا ہو رہے ہیں، خَطوں کے اندر اور بین الاقوامی طور پر بھی، اْس نے ورلڈ آرڈر کے اسٹیٹیس کو چیلنج کر دیا ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد معرضِ وجود میں آیا تھا جب کہ تیسری طرف ماضی سے بلکل ہٹ کر ایک نیا بڑا چیلنج بنی نوع انسان کے لیے اْبھر رہاہے، وہ ہے ماحولیاتی آلودگی۔ چوتھی طرف جو حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ سرد جنگ میں جو دنیا Bi-pollar دو قطبی ہوا کرتی تھی اور جو''فْوکو یاما'' کا عظیم مفروضہ، جس نے سرد جنگ کے خاتمے کو جس کوْزے میں سمایا تھاـ ''End of History" کے بعد جو دنیا یک قطبیUni-pollar ہوئی تھی جس کو نیو ورلڈآرڈر بھی کہا گیا۔ تجارت کے لیے سرحدیں کْھل گئیں اور سرمائے کی حرکت کے لیے بھی کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ فرد آزاد ہوا ۔ یورپ ایک ہوا۔ امیر ملکوں کے باشندوں کے لیے ویزے کی پابندی نہ رہی۔
معیشت کے منفی اصول تحفظ پسندی protectionism سے دنیا نکل کر معیشت کے مثبتی اصول Comparative Advantage میںداخل ہوئی۔ اور اِس اصول پر جو دنیا میں نئی طاقت اْبھری وہ چین تھا۔ یعنی فری مارکیٹ نے صارف Consumer کو بہت آزادی Freedom دی۔
چین دنیا کی ـــنئی ''ورلڈ فیکٹری'' بن گیا۔ اْس کی بنیادی وجہ چین کے پروڈکٹس جو بہت سستے اور معیاری تھے۔ یورپ و امریکا ہائی ٹیک انڈسٹری کی طرف بڑھ گیا۔
Globalization ,Silicon Valley, Information technology وغیرہ وغیرہ اِن کی میراث بنی۔ اور چین کپڑوں سے لے کر جوتوں تک ان کو سب کچھ بنا کر دیتا تھا ۔ امریکا اوریو رپ کی وہ انڈسٹری جوLabour intensive تھی، وہ بند ہوئی۔ اْن کا مقامی مزدور بیروزگار ہوا۔
اور جو ہائی ٹیکنالوجی والیCapital Intensive یا ہْنر ہے اْس میں ایشیاء کے لوگ آ گئے۔ یعنی ہماری طرف سے Human Capital Flight ہوئی اور اْن کی Hi-Tech Industryکو تقویت ملی، پچیس سال کے اس تمامProcess میں جو غور طلب بات ہے وہ یہ ہے کہ ایشیاء Central Stage پر آیا۔ اور خود ایشیاء میں ، چین سب سے آگے۔ یہاں تک کہ اِس نیو ورلڈ آرڈر یا معیشت کے بنیادی اصول Comparative Advantage میں یا یوں کہئے کہ آزاد تجارت نے، چین کو آج تیسری بڑی معیشت کے زینے پر کھڑا کر دیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جو دو بڑی معیشتیں ہیں یعنی European Union اور امریکا اْن کا شرح نمو دو سے ڈھائی فیصد مشکل سے ہو گا۔ اور چین کا شرح نمو10% اوسطاً بڑھ رہا ہے۔ اور اس طرح 2030ء تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت چین ہو گا۔
اس سارے پسِ منظر میں بلخصوص امریکا اوریورپ منفی سوچ میں مبتلا ہو گیا، وہ سمجھتے ہیں اور وہاں اب یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ آزاد تجارت میں اور سرمائے کی آزادنہ حرکت ہمارے مقامی لوگوں کو بیروزگار کر دے گی۔ اور باہر سے آئے ہوئے لوگ جو کہ اب اْن کے ملک کے شہری بن چکے ہیں اور خصوصاً مسلمانوں نے ان کے سماجی اقدار کو ٹھیس پہنچائی۔
اور اس بات کا اظہار انھوں نے ٹرمپ کو اپنا صدر بنا کر کیا۔ وہ امریکا جو دنیا کا لیڈر تھا اور نیو ورلڈ کو یقینی بنانے کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہا تھا اب وہ خود داخلیت پرستی کا شکار ہو گیا ہے اور اپنے لیڈر ہونے کے کردار سے دستبردار ہو گیا ہے۔ وہ اتنا پست ہوا کہ کچھ سال قبل ٹرمپ سے پہلے صدر اوباما کی ذمے دارانہ سوچ وامریکا کے اعلیٰ اقدار کے ترجمان ہونے کے ناتے جو Paris Climate Agreement سائن کرایا تھا آج اْس سے، ٹرمپ کی قیادت میں امریکا دستبردار ہو گیاہے۔
اور وقت کے بدلتے حالات میں، جس ملک کو ماحولیاتی آلودگی میں آگے جا کر صفِ اول میں کھڑا کیا تھا یعنی کے چین، وہ خود اِس ماحولیاتی جنگ کا رہبر ہوتا جا رہاہے۔ یعنی 2030ء تک چین کی توانائی ضروریات میں لگ بھگ 30% حصہ شمسی توانائی سے ہو گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایشیاء کا دوسرا بڑا لیڈر معاشی اعتبار سے ہندوستان ہو گا، چین اور ہندوستان میں جو مشترکہ بات ہے وہ یہ ہے کہ آبادی کے اعتبار سے دونوں دنیا کے بڑے ملک ہیں۔ یعنی اب معاشی اصول یہ ہے کہ جتنی بڑی آبادی ہوگی، اتنی ہی بڑی مضبوط معیشت ہوگی اور اتنا ہی شرح نمو بڑھے گا۔ پاکستان آبادی کے اعتبار سے یا مجموعی پیداوار کے حساب سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جب کہ معاشی اعتبار سے یا مجموعی پیداوار کے حساب سے پاکستان کا نمبر پچھترواں (75th) ہے۔ اْس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست بن کر رہ گیا ہے جب کہ چین بھی ایک لحاظ سے نظریاتی ریاست ہے، مگر چین نے بہت سارے پہلوؤں کو نظر انداز کیا ۔ معیشت کو مارکیٹ فورسز کے تابع رکھا اور ریاست کو مذہب سے الگ رکھا ۔ چین اتنی بڑیFederationبھی نہیں ہے جس طرح سے ہندوستان یا پاکستان۔
پاکستان ، دنیا کی چند فطری ، وفاقی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی بد نصیبی یہ ہے کہ پاکستان کو پہلے دن سے بھر پور اور بے لوث قیادت نہ مِل سکی ۔ جس کا نتیجہ یہ نِکلا کہ ہم اپنی غیر جانبدار حیثیت بر قرار نہ رکھ سکے۔ ایک طرف امریکا نے ہمیں مفادات کے لیے استعمال کیا اور دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ کے تضادات سے ہم غیر فطری اور غیر ضروری طور پر وابستہ رہے۔
اور اب جب خلیجِ فارس کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جار ہا ہے، بالخصوص قطر کے بحران کے بعد، ہمارے لیے ضروری ہو گا کہ ہم اپنی وابستگی کو محدود رکھیں۔ ہمارے لیے اس بحران میں یو ٹرن لینا آساں تو نہ ہوگا مگر اب وہ وقت بہت قریب آگیا جب ہمیں ایک واضح لکیر کھینچنی ہوگی۔ اِس بدلتی دنیا میں جو سب سے بڑا چیلنج پاکستان کے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ۔ پاکستان کی بنیادی قومی سلامتی National security کا سوال اس وقت پاکستان کی معیشت سے جْڑا ہوا ہے۔ اور پاکستان کی معاشیات کا سوال تجارتی خسارے سے جْڑا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کونسی پیداوارمیں ہمیں تقابلی نفع اندوزی Comparative Advantage حاصل ہے اور جب یہ معمہ حل ہو جائے تو حکومت کو ایسی ہی پالیسیاں بنائی ہونگی کہ جس سے ہم اپنی درامدات بڑھائیں اوربیرونی سرمایہ کمائیں۔
اب کی بار جو رسم چلی ہے کہ یہ نیو لِبرل کی دنیا کی قیادت، خود غرضی میں اپنا مقام رکھتی ہے، تو دوسری طرف اِس کے سائے تلے جس تیزی سے دنیا میں تضادات پیدا ہو رہے ہیں، خَطوں کے اندر اور بین الاقوامی طور پر بھی، اْس نے ورلڈ آرڈر کے اسٹیٹیس کو چیلنج کر دیا ہے جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد معرضِ وجود میں آیا تھا جب کہ تیسری طرف ماضی سے بلکل ہٹ کر ایک نیا بڑا چیلنج بنی نوع انسان کے لیے اْبھر رہاہے، وہ ہے ماحولیاتی آلودگی۔ چوتھی طرف جو حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ سرد جنگ میں جو دنیا Bi-pollar دو قطبی ہوا کرتی تھی اور جو''فْوکو یاما'' کا عظیم مفروضہ، جس نے سرد جنگ کے خاتمے کو جس کوْزے میں سمایا تھاـ ''End of History" کے بعد جو دنیا یک قطبیUni-pollar ہوئی تھی جس کو نیو ورلڈآرڈر بھی کہا گیا۔ تجارت کے لیے سرحدیں کْھل گئیں اور سرمائے کی حرکت کے لیے بھی کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ فرد آزاد ہوا ۔ یورپ ایک ہوا۔ امیر ملکوں کے باشندوں کے لیے ویزے کی پابندی نہ رہی۔
معیشت کے منفی اصول تحفظ پسندی protectionism سے دنیا نکل کر معیشت کے مثبتی اصول Comparative Advantage میںداخل ہوئی۔ اور اِس اصول پر جو دنیا میں نئی طاقت اْبھری وہ چین تھا۔ یعنی فری مارکیٹ نے صارف Consumer کو بہت آزادی Freedom دی۔
چین دنیا کی ـــنئی ''ورلڈ فیکٹری'' بن گیا۔ اْس کی بنیادی وجہ چین کے پروڈکٹس جو بہت سستے اور معیاری تھے۔ یورپ و امریکا ہائی ٹیک انڈسٹری کی طرف بڑھ گیا۔
Globalization ,Silicon Valley, Information technology وغیرہ وغیرہ اِن کی میراث بنی۔ اور چین کپڑوں سے لے کر جوتوں تک ان کو سب کچھ بنا کر دیتا تھا ۔ امریکا اوریو رپ کی وہ انڈسٹری جوLabour intensive تھی، وہ بند ہوئی۔ اْن کا مقامی مزدور بیروزگار ہوا۔
اور جو ہائی ٹیکنالوجی والیCapital Intensive یا ہْنر ہے اْس میں ایشیاء کے لوگ آ گئے۔ یعنی ہماری طرف سے Human Capital Flight ہوئی اور اْن کی Hi-Tech Industryکو تقویت ملی، پچیس سال کے اس تمامProcess میں جو غور طلب بات ہے وہ یہ ہے کہ ایشیاء Central Stage پر آیا۔ اور خود ایشیاء میں ، چین سب سے آگے۔ یہاں تک کہ اِس نیو ورلڈ آرڈر یا معیشت کے بنیادی اصول Comparative Advantage میں یا یوں کہئے کہ آزاد تجارت نے، چین کو آج تیسری بڑی معیشت کے زینے پر کھڑا کر دیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جو دو بڑی معیشتیں ہیں یعنی European Union اور امریکا اْن کا شرح نمو دو سے ڈھائی فیصد مشکل سے ہو گا۔ اور چین کا شرح نمو10% اوسطاً بڑھ رہا ہے۔ اور اس طرح 2030ء تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت چین ہو گا۔
اس سارے پسِ منظر میں بلخصوص امریکا اوریورپ منفی سوچ میں مبتلا ہو گیا، وہ سمجھتے ہیں اور وہاں اب یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ آزاد تجارت میں اور سرمائے کی آزادنہ حرکت ہمارے مقامی لوگوں کو بیروزگار کر دے گی۔ اور باہر سے آئے ہوئے لوگ جو کہ اب اْن کے ملک کے شہری بن چکے ہیں اور خصوصاً مسلمانوں نے ان کے سماجی اقدار کو ٹھیس پہنچائی۔
اور اس بات کا اظہار انھوں نے ٹرمپ کو اپنا صدر بنا کر کیا۔ وہ امریکا جو دنیا کا لیڈر تھا اور نیو ورلڈ کو یقینی بنانے کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہا تھا اب وہ خود داخلیت پرستی کا شکار ہو گیا ہے اور اپنے لیڈر ہونے کے کردار سے دستبردار ہو گیا ہے۔ وہ اتنا پست ہوا کہ کچھ سال قبل ٹرمپ سے پہلے صدر اوباما کی ذمے دارانہ سوچ وامریکا کے اعلیٰ اقدار کے ترجمان ہونے کے ناتے جو Paris Climate Agreement سائن کرایا تھا آج اْس سے، ٹرمپ کی قیادت میں امریکا دستبردار ہو گیاہے۔
اور وقت کے بدلتے حالات میں، جس ملک کو ماحولیاتی آلودگی میں آگے جا کر صفِ اول میں کھڑا کیا تھا یعنی کے چین، وہ خود اِس ماحولیاتی جنگ کا رہبر ہوتا جا رہاہے۔ یعنی 2030ء تک چین کی توانائی ضروریات میں لگ بھگ 30% حصہ شمسی توانائی سے ہو گا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایشیاء کا دوسرا بڑا لیڈر معاشی اعتبار سے ہندوستان ہو گا، چین اور ہندوستان میں جو مشترکہ بات ہے وہ یہ ہے کہ آبادی کے اعتبار سے دونوں دنیا کے بڑے ملک ہیں۔ یعنی اب معاشی اصول یہ ہے کہ جتنی بڑی آبادی ہوگی، اتنی ہی بڑی مضبوط معیشت ہوگی اور اتنا ہی شرح نمو بڑھے گا۔ پاکستان آبادی کے اعتبار سے یا مجموعی پیداوار کے حساب سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جب کہ معاشی اعتبار سے یا مجموعی پیداوار کے حساب سے پاکستان کا نمبر پچھترواں (75th) ہے۔ اْس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست بن کر رہ گیا ہے جب کہ چین بھی ایک لحاظ سے نظریاتی ریاست ہے، مگر چین نے بہت سارے پہلوؤں کو نظر انداز کیا ۔ معیشت کو مارکیٹ فورسز کے تابع رکھا اور ریاست کو مذہب سے الگ رکھا ۔ چین اتنی بڑیFederationبھی نہیں ہے جس طرح سے ہندوستان یا پاکستان۔
پاکستان ، دنیا کی چند فطری ، وفاقی ریاستوں میں سے ایک ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی بد نصیبی یہ ہے کہ پاکستان کو پہلے دن سے بھر پور اور بے لوث قیادت نہ مِل سکی ۔ جس کا نتیجہ یہ نِکلا کہ ہم اپنی غیر جانبدار حیثیت بر قرار نہ رکھ سکے۔ ایک طرف امریکا نے ہمیں مفادات کے لیے استعمال کیا اور دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ کے تضادات سے ہم غیر فطری اور غیر ضروری طور پر وابستہ رہے۔
اور اب جب خلیجِ فارس کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جار ہا ہے، بالخصوص قطر کے بحران کے بعد، ہمارے لیے ضروری ہو گا کہ ہم اپنی وابستگی کو محدود رکھیں۔ ہمارے لیے اس بحران میں یو ٹرن لینا آساں تو نہ ہوگا مگر اب وہ وقت بہت قریب آگیا جب ہمیں ایک واضح لکیر کھینچنی ہوگی۔ اِس بدلتی دنیا میں جو سب سے بڑا چیلنج پاکستان کے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ۔ پاکستان کی بنیادی قومی سلامتی National security کا سوال اس وقت پاکستان کی معیشت سے جْڑا ہوا ہے۔ اور پاکستان کی معاشیات کا سوال تجارتی خسارے سے جْڑا ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کونسی پیداوارمیں ہمیں تقابلی نفع اندوزی Comparative Advantage حاصل ہے اور جب یہ معمہ حل ہو جائے تو حکومت کو ایسی ہی پالیسیاں بنائی ہونگی کہ جس سے ہم اپنی درامدات بڑھائیں اوربیرونی سرمایہ کمائیں۔