پیرس معاہدہ امریکا کی بڑھتی ہوئی عالمی تنہائی
پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے تمام ملکوں نے کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے اپنے منصوبے جمع کرائے تھے
ہر سال 5 جون کو دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر میں آگہی سرگرمیوں کا انعقاد ہوتا ہے جس میں سیمینار، کانفرنسیں، واک سمیت مختلف پروگرام منعقد ہوتے ہیں جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بڑی تعداد میں شریک ہو کر موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا عزم کرتے ہیں۔ ماحولیات کے عالمی دن کا ایک موضوع بھی دیا جاتا ہے۔ رواں سال کا موضوع ''لوگوں کو فطرت سے وابستہ کرنا '' ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسان کو کائنات کے پوشیدہ رازوں تک رسائی دی تو دوسری جانب وہ فطرت سے دور ہوتا گیا۔ انسان نے سائنسی ترقی کے نام پر فطرت کے تفویض کردہ نظام کو تہہ و بالا کرڈالا جس کے نتیجہ میں آج کی ترقی یافتہ دنیا موسمیاتی وماحولیات تبدیلیوں کے تباہ کن خطرات سے دوچار ہے۔
ترقی یافتہ ممالک ہوں، ترقی پذیر یا غریب ملک، موسمیاتی تبدیلیاں ہر جگہ تباہی پھیلا رہی ہیں۔ دنیا کی حکومتوں نے کرئہ ارض کو لاحق سب سے بڑے خطرے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے 2015ء میں پیرس میں ماحولیاتی تحفظ کا عالمی معاہدہ جسے پیرس کلائمیٹ ڈیل کے نام سے جانا جاتا ہے منظور کیا جس میں زہریلی گیسوں کے فضا میں ہونے والے اخراج کو 2 ڈگری سے کم رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس عالمی معاہدے پر دنیا کے 197 ملکوں میں سے 195 ملکوں نے دستخط کیے، شام اور نکاراگوا نے دستخط نہیں کیے۔ ماحولیاتی تحفظ کا یہ تاریخی معاہدہ گزشتہ سال 4 نومبر کو نافذ ہوا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے زمانے سے ہی موسمیاتی تبدیلیوں سے انکار کرنے والے واحد عالمی رہنما کے طور پر دنیا کے سامنے آچکے تھے۔ انھوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کو ''فریب'' قرار دیتے ہوئے پیرس معاہدے سے علیحدہ ہونے کی خبر اپنی انتخابی مہم کے زمانے میں ہی دنیا کو پہنچا دی تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے ملک میں موسمیاتی و ماحولیاتی قوانین کو ختم کرنا شروع کیا خاص طور پر امریکی ماحولیاتی اور توانائی کی ایجنسی کو۔اس عمل نے واضح کردیا کہ وہ پیرس معاہدے سے علیحدہ ہونے کے لیے تیار ہیں۔ مئی کے آخری ہفتے میں ہونے والی جی سیون گروپ کی سربراہی کا نفرنس میں گروپ کے سربراہوں نے انھیں معاہدہ سے علیحدہ نہ ہونے پر قائل کرنے کی کوشش کی جو بار آور ثابت نہ ہوسکی۔ یاد رہے کہ جی سیون گروپ پچھلے ایک عشرے کے دوران متعدد بار کرئہ ارض کو موسمیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات کو تسلیم کرچکا ہے۔
ماحولیات کے عالمی دن سے صرف چار دن پہلے یکم جون کو وہائٹ ہاؤس کے روزگارڈن میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے پیرس معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور کہا کہ ''ہم اس معاہدے سے باہر آرہے ہیں'' انھوں نے کہا کہ ''ایسا معاہدہ طے پائے جو امریکی ٹیکس دہندگان کے لیے بہتر ہو''۔ ٹرمپ نے گرین کلائمیٹ فنڈ کی رقم کو روکتے ہوئے کہا کہ امریکا کی بہت بڑی رقم ضایع ہورہی ہے۔ واضح رہے کہ امریکا کو اس ضمن میں 2020ء تک 3 ارب ڈالرکی امداد غریب ملکوں کو دینی تھی۔
دنیا بھر میں امریکی صدر کے اس اقدام پر افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے۔ امریکا کی 3 ریاستوں واشنگٹن، نیویارک اور کیلی فورنیا نے پیرس معاہدے سے علیحدگی کے اعلان کو مسترد کردیا ہے اور مظاہروں کا آغاز ہوچکا ہے۔ عالمی سطح پر فرانس، جرمنی اور اٹلی نے فوری رد عمل دیتے ہوئے پیرس معاہدے پر امریکا سے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل، چین کے صدر سمیت مختلف عالمی رہنماؤں کی جانب سے مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔
رواں سال منائے جانے والے عالمی ماحولیات کے میزبان ملک کینیڈا کے صدر جسٹن ٹروڈو نے اس عمل کو انتہائی دل شکنی سے تعبیر کیا۔ خبر رساں ادارے رائٹر کے مطابق چین اور یورپی یونین کے رہنما پیرس معاہدے کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے ایک مشترکہ سیریز کا اعلان آیندہ چند دنوں میں کریں گے۔ عالمی یوم ماحولیات کے موقعے پر دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ گوگل، ایپل اور وال مارٹ سمیت امریکا کی متعدد کثیر الاقوامی کمپنیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ پیرس معاہدے کو برقرار رکھیں۔ 500 بڑے کاروباری اداروں اورکارپوشنز نے بھی ایک خط کے ذریعے ٹرمپ انتظامیہ کو ماحولیاتی تحفظ کے معاہدے پر عملدرآمد کرنے کے لیے کہا۔ یو ایس ڈائریکٹر آف نیشنل انٹییجنس آفس کی جانب سے رواں سال 9 جنوری کو جاری کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلیاں امریکا کے لیے سیکیورٹی رسک بن چکی ہیں۔
بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی 5 ویں تجزیاتی رپورٹ جو 2013/14ء میں جاری کی گئی میں واضح طور پر دنیا کو متنبہ کیا تھا کہ کہ زمینی درجہ حرارت میں ہونے والا اضافہ اسی طرح جاری رہا تو 2100ء تک عالمی درجہ حرارت میں 2 سے 6 ڈگری سیلسیس کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جس کے باعث بڑے پیمانے پر سیلاب، نقل مکانی اور بھوک کے خطرات میں اضافہ ہوجائے گا۔ تازہ ترین اندازوں کے مطابق کاربن کے فضا میں جمع ہونے کی رفتار رواں صدی میں دگنی ہوجائے گی جو کہ 5 کروڑ سالوں میں سب سے بلند سطح ہوگی۔ اب تک ریکارڈ کیے جانے والے درجہ حرارت کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں 0.8 ڈگری کا اضافہ پچھلے 100 برسوں میں ہوا، جس میں سے 0.6 ڈگری کا اضافہ گزشتہ 3 عشروں میں ہوا 2014/15/16ء تاریخ کے مسلسل گرم ترین سال قرار پائے۔
پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے تمام ملکوں نے کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے اپنے منصوبے جمع کرائے تھے۔ زہریلی گیسوں کا اخراج کرنے والے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک امریکا کو پیرس معاہدے کے مطابق 2025ء تک گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 26 سے 28 فیصد تک کمی لانی تھی۔ عالمی موسمیاتی تنظیم کے سیکریٹری جنرل کے مطابق گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے باعث موسموں میں جس طرح کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں،اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آرگنائزیشن آف اکنامک کو آپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق عالمی معیشت میں 2021ء تک 3 فیصد کی شرح سے اضافہ ہونے کا ندازہ ہے لیکن اگر ایسی پالیسیاں اختیارکی جائیں جس سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی واقع ہو سکے تو پھر یہ شرح نمو 2050ء تک بڑھ کر 5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
پیرس معاہدہ کے ممبر ممالک کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ اس معاہدے کو چھوڑ سکتے ہیں جس کے لیے انھیں 3 سال کا عرصہ گزار نا ہوگا۔ پیرس معاہدے سے علیحدگی کے عمل نے امریکا کو پوری دنیا سے الگ کردیا ہے ۔ ٹرمپ کے فیصلے کے اثرات اور عالمی پالیسی سازوں کا تفصیلی رد عمل اور اس ضمن میں اقوام متحدہ سمیت دنیا کی حکومتوں کا لائحہ عمل بہت جلد سامنے آئے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکی عوام کی اکثریت معاہدے کو برقرار رکھنے کی زبردست حامی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی کرئہ ارض کو لاحق سب سے بڑے خطرے سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے معاہدے کو دنیا کی حکومتیں اورکرئہ ارض پر بسنے والی عوام اس کو سبوتاژکرنے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ آج کی دنیا موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک آواز ہوچکی ہے۔