انتخابات کے لیے جوڑ توڑ شروع

سندھ کی سطح پر انتخابی اتحاد، جوڑ توڑ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا شور بھی سنائی دے رہا ہے۔


Arif Aziz January 29, 2013
سندھ میں مسلم لیگ(ن)، فنکشنل لیگ اور جماعت اسلامی کے درمیان سیاسی قربت بڑھ رہی ہے۔ فوٹو : فائل

عام انتخابات سے متعلق سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پچھلے کئی دنوں سے مظاہروں، احتجاج اور سوگ کا رنگ غالب ہے، جب کہ کراچی میں حلقہ بندیوں اور ووٹر لسٹوں کی تصدیق جیسے اہم معاملے پر ایک مرتبہ پھر سیاسی جماعتوں کا احتجاج سامنے آیا ہے۔

دوسری طرف سندھ کی سطح پر انتخابی اتحاد، جوڑ توڑ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا شور بھی سنائی دے رہا ہے۔ پچھلے دنوں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کراچی میں نئی حلقہ بندیاں نہ کرنے اور انتخابی فہرستوں کی تصدیق کے عمل میں فوج کے اہل کاروں کی عدم موجودگی پر صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا گیا۔ اس موقع پر مقررین نے اپنے خطاب میں کہاکہ الیکشن کمیشن (سندھ) عدالت کے نہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے احکامات پر عمل کر رہا ہے۔ قبل از انتخابات دھاندلی نہ روکی گئی تو بدامنی کے ذمے دار چیف الیکشن کمشنر ہوں گے۔

اس دھرنے کے شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے، جن پر جعلی ووٹر لسٹیں نامنظور اور دیگر نعرے درج تھے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی پاکستان (سندھ) کے امیر معراج الہدی صدیقی، کراچی کے امیر محمد حسین محنتی، برجیس احمد، نصراللہ شجیع، پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سلیم ضیاء، پاکستان تحریک انصاف کے سیف الرحمن، حفیظ الدین ایڈووکیٹ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا محمد غیاث، جمعیت علمائے اسلام (س) کے غلام مصطفی فاروقی، سنی تحریک کے مطلوب اعوان، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ، خواجہ نوید، عوامی تحریک کے مظہر راہجو، سندھ ترقی پسند پارٹی کے گلزار سومرو اور دیگر نے خطاب کیا۔ معراج الہدیٰ صدیقی نے کہاکہ ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے لیے دھرنا کراچی کے عوام کے تحفظ کی جنگ ہے۔

پاکستان کے عوام کو عدالت کے احکامات سمجھ آتے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن کو نہیں آئے۔ کراچی میں فوج کے اہل کاروں کی عدم موجودگی میں ووٹر لسٹوں کی تصدیق کی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ سید جلال محمود شاہ نے کہا کہ سندھ کے سیاسی نظام کو یر غمال بنا یا گیا ہے۔ یہاں دہشت گردی کی جاتی ہے۔ زبردستی اور جعل سازی کے ذریعے تیار کی جانے والی ووٹر لسٹیں قبول نہیں ہیں۔ سلیم ضیاء نے کہاکہ فخرالدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر بنایاگیا تھا تو ہمارے سر فخر سے بلند ہوگئے تھے کہ ایک بہادر اور جرات مند شخص آیا ہے، لیکن انھوں نے قوم کو مایوس کیا۔ عدالتی احکامات کے باوجود فوج اور ایف سی کا کوئی اہل کار عملے کے ساتھ نظر نہیں آتا۔ چیف الیکشن کمشنر نے معلوم نہیں کن عوامل کی وجہ سے نئی حلقہ بندیوں کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔

پچھلے دنوں پاکستان مسلم لیگ فنکشنل اور جماعت اسلامی نے سندھ میں عام انتخابات میں مل کر حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے کو مزید بڑھاتے ہوئے سندھ کی دیگر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے گریڈ الائنس کا قیام بھی عمل میں لانے کا ارادہ ہے۔ یہ بات فنکشنل لیگ کے راہ نما امتیاز احمد شیخ اور جماعت اسلامی سندھ کے امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ نے ایک اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے اسداﷲ بھٹو، پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے خدابخش راجڑ، فقیر جادم منگریو، جام مدد علی، شہر یار مہر، میر اصغر پہنور، قاسم سراج سومرو، ند یم مرزا، گلزار فیروز، شمع منشی اور دیگر موجود تھے۔

اسی سلسلے کی ایک اور کڑی فنکشنل لیگ اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کا سندھ میں عام انتخابات کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ ہے، جس کا اعلان فنکشنل لیگ کے راہ نما امتیاز احمد شیخ اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ جلال محمود شاہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر فنکشنل لیگ کے راہ نما خدا بخش راجڑ، پپو شاہ، ڈاکٹر رفیق بھابھن، نصرت سحر عباسی، قاسم سراج سومرو اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی کی جانب سے سید شاہ محمد شاہ، میر امان اللہ شاہ، زین شاہ، قمر الزماں اور دیگر موجود تھے۔ ان راہ نماؤں کا کہنا تھا کہ سندھ میں عام انتخابات کے لیے بڑا اتحاد بنائیں گے، جو سندھ دشمن قوتوں کے خلاف ہوگا۔ اس سلسلے میں دیگر جماعتوں سے بھی رابطہ کررہے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ق (سندھ) کے صدر اور رکن قومی اسمبلی سردار غوث بخش خان مہر اپنے صاحب زادوں اور دیگر ساتھیوں سمیت فنکشنل لیگ میں شامل ہو گئے ہیں۔ غوث بخش خان مہر ، شہریار خان مہر اور عارف خان مہر کے ساتھ پچھلے دنوں ق لیگ کے 47 اراکین نے حُروں کے روحانی پیشوا اور فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی کی موجودگی میں ان کی جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر پیر پگارا نے کہا کہ موجودہ سیاسی حالات میں پیپلز پارٹی کی کام یابی مشکل نظر آرہی ہے، ہم وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور اچھا راستہ منتخب کریں گے، غوث بخش مہر سے دس ماہ سے رابطہ تھا۔ تاہم ہم نے یہ طے کیا تھا کہ جلدی میں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔ غوث بخش مہر نے کہا کہ پیر پگارا نے سندھ کے مسئلے پر آواز اٹھائی ہے اور ہم اسی لیے ان کے ساتھ ہیں، سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے بعد مسلم لیگ (ق)کی مرکزی قیادت سے اختلافات ہوئے تھے۔

گذشتہ ہفتے بلاول ہاؤس کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی نے تنظیمی عہدوں پر انتخابات کا مرحلہ طے کیا۔ ان انتخابات میں فاروق ایچ نائیک الیکشن کمشنر، فوزیہ حبیب اور فرحت اللہ بابر الیکشن کمیشن کے اراکین تھے۔ تنظیمی انتخابات میں وفاقی اور صوبائی سطح پر تمام امیدوار بلا مقابلہ کام یاب قرار پائے۔ نتائج کے مطابق مخدوم امین فہیم پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر اور راجا پرویز اشرف سیکریٹری جنرل کے عہدے پر کام یاب ہوئے۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر پیپلز پارٹی کے تنظیمی سیٹ اپ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔

پیر کے دن سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ اور دیگر سیاسی راہ نماؤں نے چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم سے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔ اس موقع پر جلال محمود شاہ نے کراچی میں انتخابی فہرستوں کی تصدیق سے متعلق تحفظات پیش کرتے ہوئے کہا کہ پورا سسٹم یرغمال ہے، ووٹر سہما ہوا ہے، کراچی کے عوام کے ساتھ انصاف کیا جائے، کراچی میں فوج کے بغیر بوگس تصدیق ہو رہی ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیاکہ کراچی میں ووٹروں کی تصدیق کا عمل درست کیا جائے، حلقہ بندیاں کی جائیں اور انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے تحفظات دور کرانے کی یقین دہانی کرائی۔

کراچی میں گھرگھر ووٹر لسٹوں کی تصدیق سے متعلق پاک فوج کی طرف سے پیر کے دن الیکشن کمیشن سندھ کے دفتر میں کوآرڈیشن سیل قائم کردیاگیا ہے، جس کا مقصد سیکیورٹی کے معاملات کو مزید فعال بنانا ہے۔ صوبائی الیکشن کمشنر محبوب انور کے مطابق کراچی میں گھر گھر ووٹر لسٹوں کی تصدیق کا عمل 44 فی صد مکمل ہوچکا ہے۔ یہ مہم یکم فروری تک مکمل کرنی ہے اور تصدیق کا عمل مقررہ وقت پر نہ ہوا تو تاریخ میں مزید توسیع کردی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں