نئی صف بندیاں شروع

گھوٹکی میں ہر امیدوار ابھی سے عوام کی تقدیر بدلنے کا خواب دل میں سمائے ہوئے ہیں۔

گھوٹکی میں پیپلز پارٹی کے دو رہنما سیف اللہ دھاریجو اور مہر خاندان ٹکٹ کے حصول کیلئے ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں۔ فوٹو : فائل

پیپلز پارٹی کی حکومت پہلی مرتبہ اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے جا رہی ہے، جسے مقامی قیادت پی پی کے کوچیئرمین آصف علی زرداری کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔

ابھی تک ملک میں باقاعدہ عام الیکشن کا اعلان نہیں ہوا، اس کے باوجود ضلع گھوٹکی میں سیاسی حوالے سے ابھی سے نئی صف بندیاں شروع ہو گئی ہیں۔ ضلع کے بڑے قبائل اور اہم سیاست داں مہر بھائیوں کی پی پی پی میں شمولیت کے بعد گھوٹکی میں پی پی پی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے اور این اے201، پی ایس 8 پر پی پی کا اب کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ این اے 201 کے حلقے سے اس سے قبل بھی سابق وزیر اعلیٰ سندھ علی محمد خان مہر کام یاب ہوئے تھے جب کہ حلقہ پی ایس۔صوبائی حلقہ 8، خان گڑھ بھی مہر بھائیوں کا آبائی حلقہ ہے جس سے ان کے اتحادی سردار رحیم بخش بوزدار فنکشنل لیگ کی سیٹ پر کام یاب ہوئے تھے۔

اب پی ایس8 خان گڑھ پر صورت حال مختلف ہے، مہر بھائیوں کی پی پی میں شمولیت کے بعد اب وہ اپنے اتحادی سردار کی حمایت نہیں کر سکیں گے۔ ضلع گھوٹکی میں پی پی کے متوقع امیدواروں کی تعداد میں اضافے کے بعد پی پی کی قیادت کو ٹکٹ کی تقسیم کے معاملے پر احتیاط سے کام لینا ہوگا ورنہ کئی قبائلی سردار اور موجودہ منتخب ممبران مخالف کیمپ میں جانے کو ترجیح دیںگے۔ اس سلسلے میں ان قبائلی سرداروں اور منتخب ممبران کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں، جب کہ بعض کے تو مختلف سیاسی پارٹیوں سے ٹکٹ دینے کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں اور وہ پی پی کی قیادت کی جانب سے الیکشن بورڈ کے فیصلے اور نگران سیٹ اپ آنے کے انتظار میں ہیں، جس کے بعد کئی لوگ پی پی کے کیمپ سے کوچ کر جائیں گے۔

اس حوالے سے سابق ایم این اے میر خالد احمد لوند، سردار فیاض، ان کے چھوٹے بھائی میر بابر لوند، میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ ان میں سے کسی کو ٹکٹ نہ دینے پر وہ کسی بھی حلقہ سے الیکشن کے لیے امیدوار ہو سکتے ہیں، کیوںکہ پی ایس۔8 خان گڑھ میں گزشتہ عام انتخابات میں میر بابر لوند نے پی پی کے امیدوار کے طور پر مخالف امیدوار کا مقابلہ کیا تھا۔ اسی طرح ان کے بڑے بھائی سردار فیاض خان نے این اے۔201 پر سابق وزیراعلیٰ سندھ علی محمد خان مہر سے مقابلہ کیا تھا لیکن وہ ہار گئے تھے۔ این اے 200 پر میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو نے سابق وزیر مملکت میر خالد احمد کو شکست سے دو چار کیا تھا لیکن اب مہر بھائیوں کے پی پی میں آنے کے بعد متوقع پی پی امیدوار کون ہو سکتے ہیں، اس کا خود امیدواروں اور گھوٹکی کے عوام کو انتظار ہے۔


گھوٹکی میں پی پی میں اختلافات کی وجہ سے پی پی کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا اور ضلع کے تمام قبائلی سرداروں کو اکٹھے رکھنا ہوگا ورنہ ضلع میں زبردست سیاسی ہلچل دیکھنے میں آئے گی۔ گھوٹکی ضلع میں چھوٹے قبائل اور مختلف سیاسی تنظیموں جے یو آئی، مسلم لیگ (ن)، قوم پرست جماعتوں کے کارکن بھی الیکشن لڑنے کے لیے ابھی سے تیاری کر رہے ہیں، جس کے باعث خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس الیکشن میں نئے چہرے بھی سامنے آکر اپنی قسمت آزمائیں گے اور مختلف سیاسی پارٹیوں اور قوم پرست تنظیموں کے درمیان اتحاد بھی ممکن ہے۔

اس سلسلے میں جے یو آئی ضلع گھوٹکی کے پریس ترجمان حافظ سراج احمد چنہ اور مسلم لیگ(ن) سندھ کے نائب صدر حافظ صادق سمیجو، قیصر خان پٹھان نے بھی ضلع گھوٹکی کے تمام حلقوں پر امیدواروں کے نام تجویز کر کے پارٹی کی صوبائی قیادت کو ارسال کردیے ہیں اور انہوں نے آپس میں اتحاد کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ دوسری طرف پی پی کے دو گروپوں دھاریجو اور مہروں میں پی ایس 6 کی سیٹ کا تنازع چل رہا ہے جس کے باعث پی پی کے دونوں گروپوں نے ایک دوسرے کے خلاف تنقید کے تیر برسانے کے بعد احتجاج بھی کیا تھا۔ پی پی کی مرکزی قیادت نے دونوں میں صلح کرادی تھی، لیکن اب ایک ماہ کے بعد دونوں گروپ ایک دوسرے کے خلاف پھر بیان بازی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

گھوٹکی کے پی ایس 6 کے متوقع امیدوار سابق وزیر مملکت سردار علی نواز عرف راجا خان مہر ابھی سے گھوٹکی میں اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر کے عوامی اجتماعات منعقد کر رہے ہیں اور لوگوں کو پی پی میں دھڑادھڑ شامل کر رہے ہیں۔ راجا خان مہر کی سیاست پہلے سے وکھری ٹائپ ہو چکی ہے اور انہوں نے گھوٹکی کی سیاست میں نوجوانوں کو متحرک کر کے سیاست میں عملی طور پر کنارہ کش ہونے والے نوجوانوں کو ایک بار پھر متحرک کردیا ہے۔ انہوں نے اپنی رہائش گاہ، رحموں والی اور خان گڑھ، کے دروازے کھول دیے ہیں، اور وہ خود بھی گھوٹکی کی سیاست میں عملی طور پر کافی سرگرم ہوگئے ہیں، جس کے باعث ان کے بنگلے پر رونق رہتی ہے۔

اس سلسلے میں راجا خان مہر نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاست اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ گھوٹکی کے غریب عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہے۔ ہم اس موجودہ حکومت میں آخری ماہ میں پی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی انہوں نے اپنی سی ایم شپ کے دور میں گھوٹکی کو میگا پروجیکٹ دے کر شہر کو خوب صورت بنایا لیکن منتخب ہونے والے نمائندوں کی نا اہلی کے باعث آج شہر کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ہم منتخب ہونے کے بعد اقتدار میں آکر گھوٹکی کے عوام کی تقدیر بدل دیں گے۔

بہرحال گھوٹکی میں ہر امیدوار ابھی سے عوام کی تقدیر بدلنے کا خواب دل میں سمائے ہوئے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کون امیدوار آنے والے الیکشن میں کام یاب ہوکر عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کرے گا۔
Load Next Story