قطر سعودیہ کشیدگی ٹرمپ ثالثی کیلیے تیار

شاہ سلمان کو فون، قطر کی تنہائی دہشت گردی کے خاتمے کا نقطہ آغاز ہوسکتی ہے، ٹرمپ

کشیدگی قطر میں امریکی ایئربیس پراثر انداز نہیں ہوگی، پینٹاگان، اردن، آسٹریلیا نے پروازیں منسوخ کردیں۔ فوٹو: فائل

لاہور:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان کو فون کر کے قطر سے حال ہی میں شروع ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کیلیے کہہ دیا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤ س کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے شاہ سلمان سے بات چیت کے دوران کہا کہ متحد خلیجی تعاون کی تنظیم کیلیے دہشتگردی کے خاتمے اور خطے کا استحکام مشکل ہے۔ وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے سربراہان نے دہشت گردوں کی مالی امداد کو روکنے اور خطے کے کسی بھی ملک کی جانب سے شدت پسندی کو فروغ دینے کو ختم کرنے کے لیے اقدامات پر بات چیت کی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ قطر اور عرب ممالک کے درمیان سفارتی کشیدگی کو کم کرنے کیلیے امریکا ثالثی کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا تھا کہ امریکا کشیدگی کو حل کرنے کیلیے کام کر رہا ہے اور یقین دلاتا ہے کہ امریکا اور اس کے عرب اتحادی دہشت گردی اور شدت پسندی کیخلاف متحد ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کے مشرق وسطیٰ کے حالیہ دورے کے موقع پر خطے کے ملکوں کے لیڈروں نے قطر کو دہشت گردی کیلیے رقوم مہیا کرنے کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔

میڈیارپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ نے قطر اور عرب خلیجی ممالک کے درمیان حالیہ تنازع کے تناظر میں سلسلہ وار ٹویٹس کی ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ میں نے سعودی عرب کے شاہ سلمان اور 50 مسلم رہ نماؤں سے ملاقات کی تھی، ان سے جب میں نے کہا کہ سخت گیر نظریے کے لیے کوئی رقوم مہیا نہیں کی جائیں گی تو ان سب نے قطر کی جانب اشارہ کیا تھا۔صدر ٹرمپ لکھتے ہیںکہ ان لیڈروں نے کہا تھا کہ وہ انتہا پسندی کے لیے رقوم مہیا کرنے والوں کے بارے میں سخت موقف اختیار کریں گے ۔

شاید یہ ( قطر کو سفارتی تنہائی کا شکار کرنا) دہشت گردی کے خاتمے کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا۔ قطر کے حالیہ جارحانہ اقدامات کے ردعمل میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مصر نے اس کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ یمن ، لیبیا کی مشرقی حکومت اور مالدیپ نے بھی قطر کے ساتھ سفارتی اور سیاسی تعلقات منقطع کر لیے ہیں ۔ یمنی حکومت نے قطر پر اپنے دشمنوں حوثی شیعہ باغیوں کیساتھ مل کر کام کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

ادھر پینٹاگان کا کہنا ہے کہ قطر سے جاری سفارتی کشیدگی وہاں قائم امریکی ایئر بیس پر اثر انداز نہیں ہوگی۔ امریکا کے8 ہزار کے قریب فوجی قطر کے العدید ایئربیس میں موجود ہیں۔ امریکا کے ائیرفورس کے سیکرٹری ہیتھر ولسن نے سینیٹ کو بتایا کہ امریکی ائیربیس کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور امریکی کارروائی بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔


رپورٹ میں کہا گیا کہ سعودی عرب نے اس جھوٹی خبر کو بنیاد بناتے ہوئے قطر کے ساتھ سفارتی اور معاشی تعلقات ختم کر دیئے تھے امریکی میڈیا کے مطابق قطری حکومت نے واضح کیا کہ 23مئی کو قطری امیر سے منسوب کی جانے والی ایک خبر جھوٹ پر مبنی ہے ۔قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس پورے معاملے کا آغاز ایک من گھڑت خبر سے ہوا جسے ہماری قومی نیوز ایجنسی پر شائع کیا گیا ۔

محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ قطر نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پیش رفت کی ہے مگر اسے مزید کام کرنا ہو گا۔ ادھر عرب ملکوں اور قطر کے تنازع پر امریکی صدر اور وائٹ ہاؤ س کے بیانات میں تضاد سامنے آگیا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا عرب ممالک اور قطر کے درمیان یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی ہے جب ہمیں باہمی اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اور یہ صورتحال کسی بھی ملک کے مفاد میں نہیں۔

فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے امیر قطر سے کہاہے کہ خلیجی ممالک کی سلامتی تمام چیزوں پر مقدم ہے۔ فرانس قطر اور اس کے پڑوسی ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے کوششوں میں ہرممکن معاونت کرے گا۔ روسی حکومت نے ان الزامات کو رد کر دیا ہے کہ قطر سے متعلق بحران کی وجہ روسی ہیکرز بنے۔

امریکی حکام کی جانب سے جاری بیاں میں کہا گیا تھا کہ روسی ہیکروں نے قطر سے متعلق ایک جھوٹی خبر پھیلائی تھی جو اس سارے بحران کی وجہ بنی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق سعودی عرب ،بحرین ، مصر ، یو اے ای اور موریتانیا کے بعد بالآخر اردن نے بھی قطر کیساتھ تمام تر سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا جبکہ آسٹریلیا نے بھی قطر کیلیے پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔

آسڑیلیا کی ایئر لائن قنطاس نے قطری شہریوںکو متحدہ عرب امارات لیجانے پر پابندی عائد کر دی۔ مصری ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب کی فورس امیرِ قطر کے محل کے اندر ان کی حفاظت کر رہی ہے۔ مصر کی تاریخی درس گاہ جامعہ الازہر نے بعض عرب رہنماؤں کی جانب سے قطری حکومت کے ساتھ تعلقات توڑنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عرب اقوام کے اتحاد اور استحکام کیلیے یہ اقدام ضروری تھا۔

جامعہ الازہر نے جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ گزشتہ چند روز کے دوران میں خطے میں ہونے والی پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس نے عرب ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔
Load Next Story