نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے پر احتجاج کا دائرہ وسیع

اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی الیکشن کمیشن کے بعض اقدامات پر تحفظات کا اظہار کررہی ہے۔

کراچی میں نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے کے خلاف احتجاج کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے۔ فوٹو : فائل

MULTAN:
حکومت اگرچہ یہ کوشش کررہی ہے کہ الیکشن کمیشن کو متنازعہ نہ بنایا جائے تاکہ عام انتخابات کے نتائج سب کے لئے قابل قبول ہوں اور انتقال اقتدار کا عمل پر امن طور پر مکمل ہوجائے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی یہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہی ہیں۔

اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی الیکشن کمیشن کے بعض اقدامات پر تحفظات کا اظہار کررہی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم ) کے سوا دیگر تمام سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے صوبائی الیکشن کمیشنر سندھ کے دفتر کے سامنے مسلسل تین روز تک احتجاجی دھرنا دیا۔ اس سے قبل بھی انہوں نے ایک روز دھرنا دیا تھا۔ اس طرح ایک ہفتے کے اندر چار روز تک صوبائی الیکشن کمیشنر کے دفتر کے سامنے شاہراہ مظاہرین کے قبضے میں رہی اور شہر کے مصروف ترین مرکزی علاقوں میں ٹریفک جام رہا۔ احتجاجی دھرنا دینے والوں کا مطالبہ یہ تھا کہ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں اور فوج کی نگرانی میں انتخابی فہرستوں کو از سرنومرتب کرنے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات پر عمل درآمد کیا جائے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کے فیصلے میں دیگر احکامات کے ساتھ ساتھ مذکورہ بالا احکامات بھی دیئے تھے۔ نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اور عدالت کے حکم پر یہ کام رکا ہوا ہے۔ جبکہ انتخابی فہرستوں کی تصدیق کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوج اس کام میں صرف سیکورٹی فراہم کرے گی لیکن انتخابی فہرستوں کی تصدیق کرنے والے عملے کے ساتھ فوج کہیں نظر نہیں آئی۔ دھرنا دینے والی اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ اس کام میں فوج کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ملوث نہ کرنے سے ایک سیاسی جماعت کی مداخلت بڑھ گئی ہے اور الیکشن کمیشن کا عملہ آزادانہ کام نہیں کرسکتا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر فوج کو انتخابی فہرستوں کی تصدیق کے کام میں براہ راست شامل نہیںکیا گیا تو وہ انتخابی فہرستوں کو تسلیم نہیں کریں گے۔

ان جماعتوں نے نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے پر بھی احتجاج کیاہے۔ چیف الیکشن کمیشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے احتجاج کرنے والے رہنماؤں سے اگلے روز مذاکرات کئے اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ ان کے تحفظات دور کئے جائیں گے لیکن کراچی میں انتخابی فہرستوں کی درستی اور نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس پر اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے تحفظات بھی برقرار رہنے اور ان کی طرف سے احتجاج بھی جاری رکھنے کے قوی امکانات ہیں۔

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی سرکاری محکموں میں نئی بھرتیوں سے متعلق الیکشن کمیشن کے احکامات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ سرکاری محکموں میں نئی بھرتیوں پر فوراً پابندی عائد کردے۔ حکومت خصوصاً سندھ حکومت الیکشن کمیشن کے ان احکامات پر عمل درآمد کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے ایک وفد نے چیف الیکشن کمیشنر سے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی اور انہیں درخواست کی تھی کہ وہ اپنے یہ احکامات واپس لیں لیکن ابھی تک یہ احکامات واپس نہیں لئے گئے۔


اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو اور صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن اور محمد ایاز سومرو کا کہنا ہے کہ انتخابات کے شیڈول کے اعلان سے پہلے الیکشن کمیشن کو ایسے احکامات جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ خالی اسامیوں پر بھرتی کرنا حکومت کا قانونی حق ہے۔ بھرتیوں کا عمل کافی پہلے سے شروع ہوگیا تھا اس معاملے پر حکومت اور الیکشن کمیشن کے درمیان خوشگوار تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔

کراچی میں نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے کے خلاف احتجاج کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے پارلیمنٹ پر احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دھرنا بھی کراچی میں نئی حلقہ بندیاں نہ ہونے کے خلاف اور مضبوط الیکشن کمیشن کے لئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ ن بھی الیکشن کمیشن کی اب تک کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کررہی ہے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے اس دھرنے میں شرکت کا اعلان کردیا ہے۔ توقع ہے کہ سندھ کی دیگر سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتیں بھی اس دھرنے کی حمایت کریں گی۔

اس صورتحال سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کومزید متنازع بنایا جاسکتا ہے۔ نگراں حکومت کے قیام کے لئے اب تک حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے جو نقطہ ہائے نظر سامنے آئے ہیں ان سے بھی یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ نگراں حکومت پر بھی اتفاق رائے قائم نہیں ہوسکے گا۔ چیف الیکشن کمیشنر اور الیکشن کمیشن کے دیگر ارکان کی تقرری پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین آئین میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق اتفاق رائے پایا گیا ہے اس کے باوجود الیکشن کمیشن کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اگر نگران حکومت کے معاملے پر پہلے سے اختلاف رائے پیدا ہوگیا تو یہ اور زیادہ تشویش ناک صوتحال ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل میاں رضا ربانی کے اس انتباہ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ بعض قوتیں انتخابات کا التواء چاہتی ہیں ۔

ویسے بھی سیاسی حلقوں میں یہ سوال ابھی تک موجود ہے کہ آئندہ عام انتخابات کا بروقت انعقاد ہوگا یا نہیں؟ کراچی میں بڑھتی ہوئی خونریزی کے ساتھ یہ سوال زیادہ شدت اختیار کرجاتا ہے۔ معتدد سیاسی رہنماء کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کو انتخابات کے التواء کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ الیکشن کمیشن کراچی میں نئی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی تصدیق کا کام سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نہیں کرسکا ہے اور اس پر تادم تحریر سپریم کورٹ کا ردعمل بھی سامنے نہیں آیا ہے لیکن یہ کام سپریم کورٹ کے فیصلے اور احتجاج کرنے والی اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی مرضی کے مطابق ہوبھی جائے تب بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ کراچی میں عام انتخابات پر امن فضاء میںمنعقد ہوجائیں گے۔

انتخابات سے قبل سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کو ٹارگٹ کلنگ کا شکار کیا جارہا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو انتخابات کا مرحلہ ''تصادم کی انتہاء کا مرحلہ '' ثابت ہوسکتا ہے۔ کراچی نہ صرف پاکستان کا اقتصادی مرکز ہے بلکہ ملک کے سیاسی استحکام اور جمہوری مستقبل کا کراچی پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو چاہئے کہ وہ ملک میں جمہوری تسلسل برقرار رکھنے اور پرامن انتقال اقتدار کے لئے الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کے حوالے سے بھی قومی اتفاق رائے پیدا کریں اور کراچی میں بھی قیام امن کے لئے قومی اتفاق رائے سے ہنگامی بنیاد پر حکمت عملی طے کریں،ورنہ کراچی کی بدامنی غیر جمہوری قوتوں کے عزائم کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔
Load Next Story