قائد ایوان نہ اپوزیشن لیڈربلوچستان میں نیا آئینی بحران
بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ جلد ہی بلوچستان میں گورنر راج کا خاتمہ ہوجائے گا۔
KARACHI:
بلوچستان گورنر راج کے نفاذ کے بعد چہ میگوئیوں کی زد میں ہے۔
ادھر گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کے اس بیان کے کہ اسمبلی تحلیل نہیں ہوئی ابھی تک برقرار ہے اور اس کے اجلاس بھی منعقد کئے جانے کے بعد یہ چہ میگوئیاں بڑھتی جارہی ہیں جبکہ سیاسی حلقوں میں اس حوالے سے بحث و مباحثہ بھی جاری ہے۔ قانونی و آئینی حیثیت کے حوالے سے مختلف باتیں ہورہی ہیں بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ جلد ہی صوبے سے گورنر راج کا خاتمہ ہوجائے گا؟ کیونکہ نگران سیٹ اپ کیلئے صوبے میں آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے ان حلقوں کے مطابق20 ویں ترمیم کے بعد قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہی نگران وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کا انتخاب کیا جائے گا جبکہ بلوچستان میں14 جنوری سے گورنر راج کے نفاذ کے بعد اسمبلی توبحال ہے مگر نہ قائد ایوان اور نہ ہی قائد حزب اختلاف ہے اس وجہ سے نیا آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے۔
ان حلقوں کے مطابق اس نئے آئینی بحران نے وفاقی حکومت کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس حوالے سے صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف قانونی اور آئینی ماہرین سے مشاورت کررہے ہیں کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت جو کہ 13 مارچ کو پوری ہورہی ہے اس سے قبل صوبے میں گورنر راج جو کہ دو ماہ کیلئے نافذ کیا گیا ہے کو اُٹھالیا جائے اور بلوچستان اسمبلی اپنے نئے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا انتخاب کرلے تاکہ صوبے میں پیدا ہونے والا آئینی بحران ختم ہوسکے۔
اس نئی صورتحال کے پیش نظر پی پی پی کے بعض سابق وزراء نے اسلام آباد میں مستقل ڈیرے ڈال لئے ہیں اور اس حوالے سے مشاورت اور پارٹی قیادت سے صلاح و مشورے بھی کئے جارہے ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق نئے قائد ایوان کے انتخاب کے حوالے سے جوڑ توڑ بھی ہورہا ہے، پی پی پی کے ارکان اسمبلی اس حوالے سے کافی سرگرم بھی ہیں جن میں پی پی پی کے صوبائی صدر و رکن اسمبلی صادق علی عمرانی اور سابق وزیر حاجی علی مدد جتک پیش پیش ہیں ۔
دوسری جانب سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جو آئینی پٹیشن دائر کی تھی وہ بھی واپس لے لی ہے اور ان کی جانب سے اس فیصلے کو بھی سیاسی حلقے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں ،کہا جارہا ہے کہ انہیں مرکز یا صوبے میں کوئی اہم ذمہ داری سونپی جارہی ہے۔ اسلم بھوتانی بھی بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ اور رئیسانی حکومت کی معطلی کے بعد سرگرم تھے۔
جمالی خاندان بھی اپنے امیدوار کو نگران سیٹ اپ میں''فٹ'' کرنے کیلئے اسلام آباد یاترا کیلئے پہنچ گیا ہے اور سابق وزیراعظم میر ظفر اﷲ جمالی سرگرم بھی ہوگئے ہیں ،سیاسی حلقوں کے مطابق جمالی خاندان کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں آئینی بحران کے خاتمے کے بعد جو بھی نگران سیٹ اپ آتا ہے اس کی وزارت اعلیٰ انہیں مل جائے جس کیلئے انہوں نے میر ظفر اﷲ جمالی کے بھائی اور سابق وزیر عبدالرحمان جمالی کی نامزدگی کردی ہے ۔ عبدالرحمان جمالی اس مرتبہ اپنے علاقے سے الیکشن بھی نہیں لڑیں گے توقع ہے کہ ان کی نشست پر میر فائق جمالی اس بار الیکشن لڑیں گے جبکہ دوسری نشست پر سابق وزیراعلیٰ اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ میر جان محمد جمالی امیدوار ہوں گے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان سے گورنر راج کے جلد از جلد خاتمے کیلئے سب سے زیادہ دبائو جمعیت علماء اسلام (ف) اور بی این پی (عوامی) نے ڈال رکھا ہے پی پی پی کی قیادت اپنی ان اتحادی جماعتوں سے نہ صرف رابطے میں ہے بلکہ صلاح و مشورے بھی کررہی ہے بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑی پارلیمانی جماعت (ق) لیگ سے ابھی تک پی پی پی نے مشاورت نہیں کی سیاسی حلقوں کے مطابق (ق) لیگ کی قیادت سے مشاورت کے بغیر صدر آصف علی زرداری شاید کوئی فیصلہ اس حوالے سے نہیں کر پائیں گے ۔ آئینی بحران کے خاتمے کے بعد جو بھی سیٹ اپ بنتا ہے نئے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے انتخاب کیلئے کوئی بھی فیصلہ کیا جاتا ہے تو اس میں (ق) لیگ کی مشاورت انتہائی اہم ہوگی ممکن ہے کہ یہ مشاورت ہی فیصلہ کن ثابت ہو؟۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان کی قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتیں معزول ہونے والی صوبائی مخلوط حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں اور اُن کا مطالبہ ہے کہ رئیسانی دور میں مختلف پارلیمانی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزراء ریکارڈ کرپشن کے مرتکب ہوئے ہیں صوبے میں اس دوران ترقی ایک پیسے کی نہیں ہوئی لہٰذا ان کا کڑا احتساب کیا جائے ان جماعتوں کی طرف سے تنقیدی بیانات کا بھی سلسلہ شروع ہے تاہم سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے آئندہ چند دن بہت اہمیت کے حامل ہیں اس سلسلے میں بعض اہم فیصلے سامنے آنے ہیں ان فیصلوں کے بلوچستان کی آئندہ کی سیاست اور آنے والے الیکش پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کا انتظار ہے۔
بلوچستان گورنر راج کے نفاذ کے بعد چہ میگوئیوں کی زد میں ہے۔
ادھر گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کے اس بیان کے کہ اسمبلی تحلیل نہیں ہوئی ابھی تک برقرار ہے اور اس کے اجلاس بھی منعقد کئے جانے کے بعد یہ چہ میگوئیاں بڑھتی جارہی ہیں جبکہ سیاسی حلقوں میں اس حوالے سے بحث و مباحثہ بھی جاری ہے۔ قانونی و آئینی حیثیت کے حوالے سے مختلف باتیں ہورہی ہیں بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ جلد ہی صوبے سے گورنر راج کا خاتمہ ہوجائے گا؟ کیونکہ نگران سیٹ اپ کیلئے صوبے میں آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے ان حلقوں کے مطابق20 ویں ترمیم کے بعد قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے ہی نگران وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کا انتخاب کیا جائے گا جبکہ بلوچستان میں14 جنوری سے گورنر راج کے نفاذ کے بعد اسمبلی توبحال ہے مگر نہ قائد ایوان اور نہ ہی قائد حزب اختلاف ہے اس وجہ سے نیا آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے۔
ان حلقوں کے مطابق اس نئے آئینی بحران نے وفاقی حکومت کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس حوالے سے صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف قانونی اور آئینی ماہرین سے مشاورت کررہے ہیں کہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت جو کہ 13 مارچ کو پوری ہورہی ہے اس سے قبل صوبے میں گورنر راج جو کہ دو ماہ کیلئے نافذ کیا گیا ہے کو اُٹھالیا جائے اور بلوچستان اسمبلی اپنے نئے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا انتخاب کرلے تاکہ صوبے میں پیدا ہونے والا آئینی بحران ختم ہوسکے۔
اس نئی صورتحال کے پیش نظر پی پی پی کے بعض سابق وزراء نے اسلام آباد میں مستقل ڈیرے ڈال لئے ہیں اور اس حوالے سے مشاورت اور پارٹی قیادت سے صلاح و مشورے بھی کئے جارہے ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق نئے قائد ایوان کے انتخاب کے حوالے سے جوڑ توڑ بھی ہورہا ہے، پی پی پی کے ارکان اسمبلی اس حوالے سے کافی سرگرم بھی ہیں جن میں پی پی پی کے صوبائی صدر و رکن اسمبلی صادق علی عمرانی اور سابق وزیر حاجی علی مدد جتک پیش پیش ہیں ۔
دوسری جانب سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جو آئینی پٹیشن دائر کی تھی وہ بھی واپس لے لی ہے اور ان کی جانب سے اس فیصلے کو بھی سیاسی حلقے انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں ،کہا جارہا ہے کہ انہیں مرکز یا صوبے میں کوئی اہم ذمہ داری سونپی جارہی ہے۔ اسلم بھوتانی بھی بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ اور رئیسانی حکومت کی معطلی کے بعد سرگرم تھے۔
جمالی خاندان بھی اپنے امیدوار کو نگران سیٹ اپ میں''فٹ'' کرنے کیلئے اسلام آباد یاترا کیلئے پہنچ گیا ہے اور سابق وزیراعظم میر ظفر اﷲ جمالی سرگرم بھی ہوگئے ہیں ،سیاسی حلقوں کے مطابق جمالی خاندان کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں آئینی بحران کے خاتمے کے بعد جو بھی نگران سیٹ اپ آتا ہے اس کی وزارت اعلیٰ انہیں مل جائے جس کیلئے انہوں نے میر ظفر اﷲ جمالی کے بھائی اور سابق وزیر عبدالرحمان جمالی کی نامزدگی کردی ہے ۔ عبدالرحمان جمالی اس مرتبہ اپنے علاقے سے الیکشن بھی نہیں لڑیں گے توقع ہے کہ ان کی نشست پر میر فائق جمالی اس بار الیکشن لڑیں گے جبکہ دوسری نشست پر سابق وزیراعلیٰ اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ میر جان محمد جمالی امیدوار ہوں گے۔
سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان سے گورنر راج کے جلد از جلد خاتمے کیلئے سب سے زیادہ دبائو جمعیت علماء اسلام (ف) اور بی این پی (عوامی) نے ڈال رکھا ہے پی پی پی کی قیادت اپنی ان اتحادی جماعتوں سے نہ صرف رابطے میں ہے بلکہ صلاح و مشورے بھی کررہی ہے بلوچستان میں اس وقت سب سے بڑی پارلیمانی جماعت (ق) لیگ سے ابھی تک پی پی پی نے مشاورت نہیں کی سیاسی حلقوں کے مطابق (ق) لیگ کی قیادت سے مشاورت کے بغیر صدر آصف علی زرداری شاید کوئی فیصلہ اس حوالے سے نہیں کر پائیں گے ۔ آئینی بحران کے خاتمے کے بعد جو بھی سیٹ اپ بنتا ہے نئے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے انتخاب کیلئے کوئی بھی فیصلہ کیا جاتا ہے تو اس میں (ق) لیگ کی مشاورت انتہائی اہم ہوگی ممکن ہے کہ یہ مشاورت ہی فیصلہ کن ثابت ہو؟۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بلوچستان کی قوم پرست اور دیگر سیاسی جماعتیں معزول ہونے والی صوبائی مخلوط حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں اور اُن کا مطالبہ ہے کہ رئیسانی دور میں مختلف پارلیمانی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزراء ریکارڈ کرپشن کے مرتکب ہوئے ہیں صوبے میں اس دوران ترقی ایک پیسے کی نہیں ہوئی لہٰذا ان کا کڑا احتساب کیا جائے ان جماعتوں کی طرف سے تنقیدی بیانات کا بھی سلسلہ شروع ہے تاہم سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے آئندہ چند دن بہت اہمیت کے حامل ہیں اس سلسلے میں بعض اہم فیصلے سامنے آنے ہیں ان فیصلوں کے بلوچستان کی آئندہ کی سیاست اور آنے والے الیکش پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ان کا انتظار ہے۔