عمران خان کے سیاسی فیصلوں کی غلط ٹائمنگ

وہ سارے ایشوز جن پر خان صاحب سیاست کر رہے تھے‘ ان کے ہاتھ سے نکل کر طاہر القادری کے پاس چلے گئے ہیں۔


January 29, 2013
کہا جارہا ہے کہ عمران خان کی سمت درست ہے لیکن ٹائمنگ غلط ہے۔ فوٹو: اے پی پی/فائل

طاہر القادری نے لاہور میں جلسہ کیا تو شرکاء کی تعداد تجزیہ نگاروں کی توقعات سے بہت زیادہ تھی اور میڈیا نے بھی اسے 30 اکتوبر2011 کے سونامی جلسے سے زیادہ کوریج دی' یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جب پنجاب میں عمران خان کے امیج میں پہلی دراڑ پڑی۔

طاہر القادری کے جلسے نے عمران خان کے اسی مقام پر جلسے کا سحر توڑ دیا' عوام کو احساس ہوا کہ تنہا عمران خان نہیں بلکہ طاہر القادری بھی سیاسی میدان میں موجود ہے۔ ایسا ہی ردعمل پیپلز پارٹی' مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کا تھا' اس سے اگلا مرحلہ لانگ مارچ اور دھرنا تھا۔ طاہر القادری کے لئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا اس ملک میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف ہی ایسی سیاسی شخصیات ہیں جنہوں نے لانگ مارچ کئے' باقی کسی نے لانگ مارچ کیا بھی تو وہ برائے نام ہی تھا۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ طاہر القادری لاہور سے اسلام آباد تک پہنچ سکیں گے لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ طاہر القادری اسلام آباد پہنچے اور وہاں کامیاب دھرنا دیا اور حکومت کو مذاکرات پر مجبور کر کے ایک معاہدہ بھی کرلیا۔

اس سارے کھیل میں تحریک انصاف محض ایک تماشائی بنی رہی' وہ سارے ایشوز جن پر خان صاحب سیاست کر رہے تھے' ان کے ہاتھ سے نکل کر طاہر القادری کے پاس چلے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طاہر القادری نے عمران خان کے لئے سجائے گئے سیاسی اسٹیج پر قبضہ کر لیا ہے اور خان صاحب کے پاس سوائے نظارہ کرنے کے کوئی آپشن نہیں ۔ بلاشبہ تحریک انصاف ایک سیاسی طاقت بن چکی ہے' طاہر القادری کی عوامی تحریک کی نسبت تحریک انصاف کے پاس الیکشن لڑنے والے امید وار بھی موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کس ایشو پر سیاست کرے گی؟اگر وہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے خلاف تبراکرتے ہیں تو ووٹر ایک بار یہ ضرور سوچے گا کہ اگر خاں صاحب واقعی ان دونوں کے سخت خلاف ہیں اور انہیں پاکستان کے مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہیں تو انہوں نے طاہر القادری کی طرح حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیوں نہیں کیا' وہ کرپٹ اور بدعنوان حکومت کے خاتمے کے لئے لانگ مارچ کرکے اسلام آباد پہنچنے کے بجائے ڈرون حملوں کیخلاف لانگ مارچ کرنے وزیرستان کیوں چلے گئے۔

ووٹر یہ بھی ضرور سوچے گا کہ طاہر القادری اچھے ہیں یا برے' انہوں نے مارچ کر کے اور دھرنا دے کر عوام میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں کرپشن ہی نہیں کر رہی ہیں بلکہ آئندہ انتخابات چرانے کے لئے اپنی مرضی کا نگران سیٹ اپ بھی لا رہی ہیں' یوں دیکھا جائے تو طاہر القادری کا لانگ مارچ اور دھرنا ایک مقصد لئے ہوا تھا جبکہ عمران خان کی سیاست محض نعرے بازی تک محدود رہی' اس میں کوئی مقصد یا ٹارگٹ نظر نہیں آیا۔ تحریک انصاف کی محبت میں گرفتارلوگ چاہتے ہیں کہ خان صاحب اپنی شخصیت اور منصوبہ بندی میں رچی ''افسانیت پسندی''کو نکال کر ایشوز کو اپنے کنٹرول میں رکھیں تاکہ کوئی اور انہیں چھین نہ لے۔ نگران سیٹ اپ کے حوالے سے طاہر القادری سٹیک ہولڈر بن چکے ہیں حالانکہ یہ اسٹیٹس خان صاحب کو حاصل ہونا چاہیے تھا' اب صوبوں کے ایشو پر خان صاحب نے درست موقف اختیار کیا ہے۔

عمران خان کی سمت درست ہے لیکن ٹائمنگ غلط ہے۔ تحریک انصاف کا پارٹی الیکشن اس وقت ہو رہا ہے جب تمام جماعتوں کے امیدوار اپنے انتخابی حلقوں میں ووٹر سے رابطے کر رہے ہیں ۔ عمران خان ویسے تو فرد واحد کے فیصلوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن کبھی کبھار وہ بھی تن تنہا فیصلے کر جاتے ہیں جیسا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کے حوالے سے منعقدہ پارٹی میٹنگ میں مرکزی و صوبائی رہنماوں کی اکثریت دھرنے میں شمولیت کی حامی تھی لیکن عمران خان نے شمولیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔اس میٹنگ میں دھرنے میں شمولیت کی مخالفت کرنے والے چوہدری اصغر گجر نے عمران خان کو یہ دلچسپ فقرہ بھی کہا تھا کہ آپ ایک گیند سے دو وکٹیں لینے کی بات کرتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب ایک بال سے تین وکٹیں گرانے آئے ہیں اور وہ تیسری وکٹ آپ خود ہیں۔

اسی طرح جب 90 فیصد سے زائد پارٹی رہنما ملکی سیاست کے اتار چڑھاو کی وجہ سے انٹرا پارٹی الیکشن موخر کرنے کے حق میں تھے تو عمران خان نے الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا جو کہ ابھی تک ٹائمنگ کے حوالے سے نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے ۔تحریک انصاف کے تنظیمی الیکشن کے حتمی نتائج کے بارے میں تو فی الوقت کوئی پشینگوئی نہیں کی جا سکتی،نظریاتی گروپ کے اعجاز چوہدری پنجاب کے صدر بننے کی پوزیشن میں بھی ہیں لیکن بظاہر دکھائی دیتا ہے کہ الیکشن میں مجموعی طور پر ''یونیٹی گروپ''کو برتری حاصل رہے گی ۔ انٹرا پارٹی الیکشن نے دو رہنماوں یونیٹی گروپ کے احسن رشید اور نظریاتی گروپ کے میاں محمود الرشید کو''ایکسپوز'' بلکہ شاید ''ڈسپوز''کر دیا ہے۔ احسن رشید اور میاں محمود الرشید دونوں کو ہی اپنی ''سیاسی بصیرت''اور اپنے ''معتقدین''پر بہت ناز تھا ۔

احسن رشید نے یونیٹی گروپ میں شامل ہوتے وقت بہت سے بلندوبانگ دعوے کیئے تھے لیکن وہ دعوے ریت کا گھروندہ ثابت ہوئے جبکہ میاں محمودالرشید کی ''مقبولیت''کواعجاز چوہدری اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے ہائی جیک کر کے کیش کروا لیا ہے۔ چند ماہ قبل مسلم لیگ(ن) کی دو انتہائی اہم ترین شخصیات نے میاں محمود الرشید کے قریبی ساتھی اور تحریک انصاف کے اہم رہنما چوہدری اصغر گجر کو مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی دعوت دی تھی اور آج بھی ن لیگ کی شدید خواہش ہے کہ تحریک انصاف لاہور میں سے چوہدری اصغر گجر اور جمشید اقبال چیمہ کو اپنے ساتھ شامل کیا جائے۔

3 فروری کو تحریک آفس مال روڑ میں یونیٹی گروپ کی جانب سے لاہور کے تنظیمی الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کا کنونشن منعقد ہورہا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ یہ ایک بڑا شو ہوگا جس میں چند ایسے لوگ بھی دکھائی دیں گے جو نظریاتی گروپ کی اندرونی رسہ کشی سے دلبرداشتہ ہو کر یونیٹی گروپ میں شامل ہوں گے۔ عبدالعلیم خان بہت مہارت کے ساتھ سیاسی کارڈز کھیل رہے ہیں اور انہوں نے نظریاتی گروپ کو اس حد تک خوفزدہ کردیا ہے کہ مصطفیٰ رشید نے الیکشن کمیشنر شاداب جعفری کو عبدالعلیم خان کے خلاف درخواست دے ڈالی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں