کراچی میں قتل وغارت کی غیر ملکی سازش
ستم رسیدہ کراچی میں قانون کی حکمرانی سر نگوں اور انسانی جانوں کی قدروقیمت کا انسانی پیمانہ بھی پیوند خاک ہوچکا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر رحمن ملک کے حالیہ انکشاف کے مطابق سرحد پار بیٹھے دشمنوں نے کراچی میں قتل وغارت کا منصوبہ بنالیا ہے، شہر قائد میں اگلے ماہ خوفناک دہشت گردی کی اطلاع ہے۔اس انکشاف سے بلاشبہ سیاسی، عسکری اور سماجی حلقوں میں کھلبلی کا مچنا فطری ہے تاہم ستم رسیدہ کراچی تو پہلے سے مقتل بنا ہوا ہے جہاں قانون کی حکمرانی سر نگوں اور انسانی جانوں کی قدروقیمت کا انسانی پیمانہ بھی پیوند خاک ہوچکا ہے۔اب تک ہزاروں بیگناہ شہری ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں ، لینڈ اور ڈرگ مافیا سمیت سیاسی جماعتوں کے عسکری دھڑوں ، گینگ وار کارندوں اور مجرمانہ سرگرمیوں میںملوث منظم گروہوں کی بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔
اب شاید رہی سہی کسر وہ بے نام اور بے چہرہ سمندر پار طاقتیں پوری کرنے کے مذموم منصوبے بنا رہی ہیں جنھیں پاکستان میں جمہوریت پسند نہیں اور اس مقصد کے لیے ملک کے معاشی اور تجارتی حب کراچی پر وحشیانہ حملے کرنے کی ٹھان چکی ہیں لیکن ابھی بھی یہ انکشافات تشنہ طلبی کے باعث مزید تفصیلات کے متقاضی ہیں تاکہ قوم جان سکے کہ قومی بحرانوں اور غیر معمولی داخلی کشت وخون میں زیب داستاں کے طور پر میڈیا میں بار بار در آنے والا یہ دیو مالائی''غیر ملکی ہاتھ''کس دلاور نما دھڑوں اور پاکستان دشمن استعماری قوتوں سے منسلک ہے ۔ مزید برآں سمندر پار قوتوں کی وفاقی وزیر داخلہ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے چونکا دینے والے انکشافات کی تھیلی سے ممکنہ حملے کی بلی کے صرف پنجے باہر نکالے ہیں، ابھی اس کی مکمل شناخت باقی ہے کہ یہ پراسرار قوتیں کیوں پاکستان سے اپنا بدلہ اتار رہی ہیں ۔
پاکستان نے ان کا کیا بگاڑا ہے، کیا پاکستان کا یہی جرم ہے کہ اس نے نائن الیون کے بعد فرنٹ لائن ملک بن کر دہشت گردی کے خلاف بے مثال جنگ لڑی اور اس کے نتیجہ میں اپنی معیشت کو اربوں ڈالر کا مقروض کیا،افرادی قوت کی تباہی دیکھی، ،سیاست،سماجی زندگی کو ان گنت روگ لگالیے۔ بہرحال یہ چشم کشا الارمنگ اور چیلنجنگ انکشاف ضرور ہے کہ سمندر پار سے کوئی نیا ''لارنس آف عربیہ'' غارتگری کے لیے بھیجا جانے والا ہے اور اسے ان ہی عالمی اسٹیک ہولڈرز کی سرپرستی حاصل ہوسکتی ہے جو کراچی کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنا چاہتے ہیں ۔اس حقیقت کا دردناک امکانی پہلو بعض داخلی قوتوں مثلاًسیاسی ، مذہبی اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خاموش رد عمل سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کررہیں کہ غیر ملکی طاقتوں کے اشارہ پر کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ پر غلبہ کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں میں بالواسطہ استعمال ہورہی ہیں ۔
ان سامراجی قوتوں پر واضح کرنا ہوگا کہ اب وطن عزیز میں کوئی میر جعفر اور میر صادق نہیں ۔ قوم کے بچے بچے کوقومی مفاد میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ان دوست نما دشمنوں کا قلع قمع ہونا بھی وقت کی ضرورت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 65 سالہ بے منزل سیاسی نظام اور غیر منضبط طرز حکمرانی کے باعث ہمارے اندر کی انتظامی خرابیوں اور پارلیمانی کوتاہیوں کا بھی کوئی شمار نہیں تاہم ایک ایٹمی ملک ہونے کے ناتے ہمیں اسٹینڈ لینا چاہیے اور دنیا کو بتادینا چاہیے کہ کوئی طاقت پاکستان کواتنا بھی کمزور نہ سمجھے کہ اس کا معاشی قلب کراچی اس سے چھین سکتی ہے۔ ملک کی معاشی شہ رگ کو چھیننے کے مفہوم کی اہل اقتدار اور تمام جمہوری اور سیاسی قوتیں جلد تفہیم کرلیں کیونکہ اس کا مطلب پاکستان کے خلاف کھلی معاشی جارحیت بھی ہے۔
وزیر داخلہ کے بیان کا یہ حصہ غور طلب ہے کہ کراچی میں طالبان دہشت گردی نہیں کررہے ۔ساتھ ہی انھوں نے خبردار کیا کہ اگر کراچی ہم سے چھن گیا تو پھرصرف حکومت پر نہیں بلکہ انٹیلی جنس اداروں پر بھی ذمے داری عائد ہوگی۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی70 فیصد توانائیاں کراچی میں صرف کریں تاکہ کوئٹہ کی طرح یہاں بھی امن وامان کی صورتحال کوبہتر بنایا جا سکے۔انٹیلی جنس ادارے صرف دہشت گردی کی رپورٹس دے کربری الذمہ ہونے کی کوشش نہ کریں بلکہ سازش کب ،کہاں اور کیسے تیار ہوئی؟ اس بھی آگاہ کریں، اس ہفتے کے اختتام پر دشمنوں کی اس سازش کے خلاف حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سنسنی خیز انکشاف کا پہلا حصہ وہ 23دسمبر2012 کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیش کرچکے تھے ،ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال 1969 اور1971 سے بھی بدترہوچکی ہے، غیر ملکی ہاتھ وطن عزیز میں دہشت گردی میں ملوث ہیں، اور بعض ''کالی بھیڑیں '' اس مذموم کام میں ان کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں جب کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اﷲ بھی غیر ملکی طاقتوں کی پشت پناہی سے دہشت گردی کو فروغ دینے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ، اس لیے تمام سیاسی جماعتیں انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہوں، اسی موقع پر پر انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ عنقریب میڈیا سے نئے انکشافات شیئر کریں گے۔
چنانچہ گزشتہ روز انھوں نے ملکی صورتحال کے اضطراب انگیز تناظر میں ملکی سالمیت کودرپیش خطرات کے پیش نظر در حقیقت ارباب اختیار اور پوری قوم کے سامنے دہشت گردی کے ہولناک سیناریو پیش کیا جو بروقت اور چشم کشا ہونے کے ساتھ ساتھ ریاستی رٹ، جمہوری نظام کی بقا ، پیچ در پیچ مسائل و اعصاب شکن ایشوز کے تسلسل اور عدم تصفیے اور خطے میں تبدیلیوں کی تہلکہ خیزیوں کے ادراک کی دعوت دیتا ہے۔رحمٰن ملک نے کہا کہ میں یہ بات انتہائی وثوق اور ذمے داری کے ساتھ کر رہا ہوں کہ فروری کے پہلے ہفتے میں کراچی میں خوفناک قسم کی دہشت گردی اورقتل و غارت کرانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس میں لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور مقامی لوگوں کو استعمال کیا جا ئے گا، دشمن جانتاہے کہ کراچی میں بدامنی کا مقصدپاکستان کی معیشت کی تباہی ہے۔
اس پورے تجزیے میں کسی بھی نکتے سے اختلاف ممکن نہیں ۔یہ وہ آئینہ ہے جس میں ارباب اختیار اور اس ملک کے 18 کروڑ عوام حقائق کو تعصبات کی عینک لگائے بغیر بخوبی دیکھ سکتے ہیں، وہ ملک میں سوشل انارکی کے عینی شاہد ہیں، میڈیا انھیں جمہوریت کو لاحق خطرات ، عالمی اسٹیک ہولڈرز کے مکروہ عزائم اور کرپشن سے لتھڑے سیاسی شب وروز ، معاشرے میں پر تشدد رجحانات کی نمواورسیاسی اخلاقیات کی گراوٹ سے بھی آگاہ کررہا ہے ، ہم سب کو سنبھلنا چاہیے، جمہوری نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی میڈیا کی پروفیشنل ذمے داری اور سماج سے کمٹمنٹ ہے، اس لیے میڈیا کو اس کے آزادانہ کردار پر مطعون کرنے کی روش مناسب نہیں ۔یہ جمہوری رویہ نہیں ہے، ہر سیاست دان کو ان عوام دشمن عناصر کا راستہ روکنا چاہیے جو ملکی سالمیت ، خود مختاری اور داخلی امن و ترقی کو بلڈوز کرنے کی تاک میں لگی ہوئے ہیں۔ ان کالی بھیڑوں کو چن چن کر نکال باہر کیا جائے اور ان سے ہمیشہ کے لیے گلو خلاصی حاصل کی جائے۔ غالباً یہی وہ عناصر ہیں جودر پردہ 3 سال کے لیے غیر آئینی سیٹ اپ لانا چاہتی ہیں۔اور ان ہی قوتوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کی وجہ سے جمہوری عمل پر تلوارلٹک رہی ہے۔
اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ پاک افواج کے نئے ڈاکٹرائن کے مطابق ملک کو سب سے بڑا خطرہ اندر کے دشمن سے ہے لیکن اب جب کہ غیر ملکی اور سمندر پار طاقتوں کی بین الاقوامی سازش کا جزوی راز کھلا ہے تو ہماری مقتدر سیاست دانوں اور خاص طور پر اپوزیشن رہنمائوں سے التماس ہے کہ وہ کراچی سمیت ہر شہر اور دیہات میں امن ،بھائی چارے ، رواداری اور خیر سگالی کا پیغام عام کریں، بہت سیاست ہوچکی ، معاملہ صرف کراچی کی مخدوش سماجی صورتحال کا نہیں جہاں ایک پورا لیاری ٹائون گینگ وار کلرز کے رحم وکرم پر ہے ، اور قانون شکن عناصر دندناتے پھرتے ہیں، اور کوئی پولیس اور رینجرز کو خاطر میں نہیں لاتا۔قانون نافذ کرنے والوں کی اس افسوس ناک نااہلی کا خاتمہ صرف بے رحمانہ کریک ڈائون سے ممکن ہے۔گزشتہ چند برسوں میںبات سیاسی انتشار، بے یقینی اور دہشت گردی کی وارداتوں سے چلی تھی مگر اب مسئلہ کراچی کے سماجی اور معاشی محاصرے کا ہے ۔اس لیے وقت آگیا ہے کہ جمہوری طاقتیں مل بیٹھ کر نہ صرف شہر قائد بلکہ جمہوری عمل کے تحفظ اور سمندر پار قوتوں سے نمٹنے کا تہیہ کرلیں۔پانی اب سر سے اونچا ہورہا ہے۔
اب شاید رہی سہی کسر وہ بے نام اور بے چہرہ سمندر پار طاقتیں پوری کرنے کے مذموم منصوبے بنا رہی ہیں جنھیں پاکستان میں جمہوریت پسند نہیں اور اس مقصد کے لیے ملک کے معاشی اور تجارتی حب کراچی پر وحشیانہ حملے کرنے کی ٹھان چکی ہیں لیکن ابھی بھی یہ انکشافات تشنہ طلبی کے باعث مزید تفصیلات کے متقاضی ہیں تاکہ قوم جان سکے کہ قومی بحرانوں اور غیر معمولی داخلی کشت وخون میں زیب داستاں کے طور پر میڈیا میں بار بار در آنے والا یہ دیو مالائی''غیر ملکی ہاتھ''کس دلاور نما دھڑوں اور پاکستان دشمن استعماری قوتوں سے منسلک ہے ۔ مزید برآں سمندر پار قوتوں کی وفاقی وزیر داخلہ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے چونکا دینے والے انکشافات کی تھیلی سے ممکنہ حملے کی بلی کے صرف پنجے باہر نکالے ہیں، ابھی اس کی مکمل شناخت باقی ہے کہ یہ پراسرار قوتیں کیوں پاکستان سے اپنا بدلہ اتار رہی ہیں ۔
پاکستان نے ان کا کیا بگاڑا ہے، کیا پاکستان کا یہی جرم ہے کہ اس نے نائن الیون کے بعد فرنٹ لائن ملک بن کر دہشت گردی کے خلاف بے مثال جنگ لڑی اور اس کے نتیجہ میں اپنی معیشت کو اربوں ڈالر کا مقروض کیا،افرادی قوت کی تباہی دیکھی، ،سیاست،سماجی زندگی کو ان گنت روگ لگالیے۔ بہرحال یہ چشم کشا الارمنگ اور چیلنجنگ انکشاف ضرور ہے کہ سمندر پار سے کوئی نیا ''لارنس آف عربیہ'' غارتگری کے لیے بھیجا جانے والا ہے اور اسے ان ہی عالمی اسٹیک ہولڈرز کی سرپرستی حاصل ہوسکتی ہے جو کراچی کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنا چاہتے ہیں ۔اس حقیقت کا دردناک امکانی پہلو بعض داخلی قوتوں مثلاًسیاسی ، مذہبی اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کے خاموش رد عمل سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو اس بات کا ادراک کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کررہیں کہ غیر ملکی طاقتوں کے اشارہ پر کسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ پر غلبہ کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں میں بالواسطہ استعمال ہورہی ہیں ۔
ان سامراجی قوتوں پر واضح کرنا ہوگا کہ اب وطن عزیز میں کوئی میر جعفر اور میر صادق نہیں ۔ قوم کے بچے بچے کوقومی مفاد میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ان دوست نما دشمنوں کا قلع قمع ہونا بھی وقت کی ضرورت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 65 سالہ بے منزل سیاسی نظام اور غیر منضبط طرز حکمرانی کے باعث ہمارے اندر کی انتظامی خرابیوں اور پارلیمانی کوتاہیوں کا بھی کوئی شمار نہیں تاہم ایک ایٹمی ملک ہونے کے ناتے ہمیں اسٹینڈ لینا چاہیے اور دنیا کو بتادینا چاہیے کہ کوئی طاقت پاکستان کواتنا بھی کمزور نہ سمجھے کہ اس کا معاشی قلب کراچی اس سے چھین سکتی ہے۔ ملک کی معاشی شہ رگ کو چھیننے کے مفہوم کی اہل اقتدار اور تمام جمہوری اور سیاسی قوتیں جلد تفہیم کرلیں کیونکہ اس کا مطلب پاکستان کے خلاف کھلی معاشی جارحیت بھی ہے۔
وزیر داخلہ کے بیان کا یہ حصہ غور طلب ہے کہ کراچی میں طالبان دہشت گردی نہیں کررہے ۔ساتھ ہی انھوں نے خبردار کیا کہ اگر کراچی ہم سے چھن گیا تو پھرصرف حکومت پر نہیں بلکہ انٹیلی جنس اداروں پر بھی ذمے داری عائد ہوگی۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی70 فیصد توانائیاں کراچی میں صرف کریں تاکہ کوئٹہ کی طرح یہاں بھی امن وامان کی صورتحال کوبہتر بنایا جا سکے۔انٹیلی جنس ادارے صرف دہشت گردی کی رپورٹس دے کربری الذمہ ہونے کی کوشش نہ کریں بلکہ سازش کب ،کہاں اور کیسے تیار ہوئی؟ اس بھی آگاہ کریں، اس ہفتے کے اختتام پر دشمنوں کی اس سازش کے خلاف حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس سنسنی خیز انکشاف کا پہلا حصہ وہ 23دسمبر2012 کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیش کرچکے تھے ،ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال 1969 اور1971 سے بھی بدترہوچکی ہے، غیر ملکی ہاتھ وطن عزیز میں دہشت گردی میں ملوث ہیں، اور بعض ''کالی بھیڑیں '' اس مذموم کام میں ان کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں جب کہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اﷲ بھی غیر ملکی طاقتوں کی پشت پناہی سے دہشت گردی کو فروغ دینے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ، اس لیے تمام سیاسی جماعتیں انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھ کر متحد ہوں، اسی موقع پر پر انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ عنقریب میڈیا سے نئے انکشافات شیئر کریں گے۔
چنانچہ گزشتہ روز انھوں نے ملکی صورتحال کے اضطراب انگیز تناظر میں ملکی سالمیت کودرپیش خطرات کے پیش نظر در حقیقت ارباب اختیار اور پوری قوم کے سامنے دہشت گردی کے ہولناک سیناریو پیش کیا جو بروقت اور چشم کشا ہونے کے ساتھ ساتھ ریاستی رٹ، جمہوری نظام کی بقا ، پیچ در پیچ مسائل و اعصاب شکن ایشوز کے تسلسل اور عدم تصفیے اور خطے میں تبدیلیوں کی تہلکہ خیزیوں کے ادراک کی دعوت دیتا ہے۔رحمٰن ملک نے کہا کہ میں یہ بات انتہائی وثوق اور ذمے داری کے ساتھ کر رہا ہوں کہ فروری کے پہلے ہفتے میں کراچی میں خوفناک قسم کی دہشت گردی اورقتل و غارت کرانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس میں لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ اور مقامی لوگوں کو استعمال کیا جا ئے گا، دشمن جانتاہے کہ کراچی میں بدامنی کا مقصدپاکستان کی معیشت کی تباہی ہے۔
اس پورے تجزیے میں کسی بھی نکتے سے اختلاف ممکن نہیں ۔یہ وہ آئینہ ہے جس میں ارباب اختیار اور اس ملک کے 18 کروڑ عوام حقائق کو تعصبات کی عینک لگائے بغیر بخوبی دیکھ سکتے ہیں، وہ ملک میں سوشل انارکی کے عینی شاہد ہیں، میڈیا انھیں جمہوریت کو لاحق خطرات ، عالمی اسٹیک ہولڈرز کے مکروہ عزائم اور کرپشن سے لتھڑے سیاسی شب وروز ، معاشرے میں پر تشدد رجحانات کی نمواورسیاسی اخلاقیات کی گراوٹ سے بھی آگاہ کررہا ہے ، ہم سب کو سنبھلنا چاہیے، جمہوری نظام کی کمزوریوں کی نشاندہی میڈیا کی پروفیشنل ذمے داری اور سماج سے کمٹمنٹ ہے، اس لیے میڈیا کو اس کے آزادانہ کردار پر مطعون کرنے کی روش مناسب نہیں ۔یہ جمہوری رویہ نہیں ہے، ہر سیاست دان کو ان عوام دشمن عناصر کا راستہ روکنا چاہیے جو ملکی سالمیت ، خود مختاری اور داخلی امن و ترقی کو بلڈوز کرنے کی تاک میں لگی ہوئے ہیں۔ ان کالی بھیڑوں کو چن چن کر نکال باہر کیا جائے اور ان سے ہمیشہ کے لیے گلو خلاصی حاصل کی جائے۔ غالباً یہی وہ عناصر ہیں جودر پردہ 3 سال کے لیے غیر آئینی سیٹ اپ لانا چاہتی ہیں۔اور ان ہی قوتوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کی وجہ سے جمہوری عمل پر تلوارلٹک رہی ہے۔
اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ پاک افواج کے نئے ڈاکٹرائن کے مطابق ملک کو سب سے بڑا خطرہ اندر کے دشمن سے ہے لیکن اب جب کہ غیر ملکی اور سمندر پار طاقتوں کی بین الاقوامی سازش کا جزوی راز کھلا ہے تو ہماری مقتدر سیاست دانوں اور خاص طور پر اپوزیشن رہنمائوں سے التماس ہے کہ وہ کراچی سمیت ہر شہر اور دیہات میں امن ،بھائی چارے ، رواداری اور خیر سگالی کا پیغام عام کریں، بہت سیاست ہوچکی ، معاملہ صرف کراچی کی مخدوش سماجی صورتحال کا نہیں جہاں ایک پورا لیاری ٹائون گینگ وار کلرز کے رحم وکرم پر ہے ، اور قانون شکن عناصر دندناتے پھرتے ہیں، اور کوئی پولیس اور رینجرز کو خاطر میں نہیں لاتا۔قانون نافذ کرنے والوں کی اس افسوس ناک نااہلی کا خاتمہ صرف بے رحمانہ کریک ڈائون سے ممکن ہے۔گزشتہ چند برسوں میںبات سیاسی انتشار، بے یقینی اور دہشت گردی کی وارداتوں سے چلی تھی مگر اب مسئلہ کراچی کے سماجی اور معاشی محاصرے کا ہے ۔اس لیے وقت آگیا ہے کہ جمہوری طاقتیں مل بیٹھ کر نہ صرف شہر قائد بلکہ جمہوری عمل کے تحفظ اور سمندر پار قوتوں سے نمٹنے کا تہیہ کرلیں۔پانی اب سر سے اونچا ہورہا ہے۔