حب شہر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بھوانی کا قبرستان موجود ہے۔ یہ قدیم قبرستانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ قبروں کے آثار اور اِن پر بنائے گئے نقوش اِس قبرستان کے قدیم ہونے کی ضمانت دیتے ہیں۔ وہ کاریگر جو ریتیلے پتھروں سے اِن قبروں کی تزئین و آرائش کرتے تھے، اب نہ وہ کاریگر رہے اور نہ ہی ریتیلے پتھروں کا استعمال۔
قبروں کی خوبصورتی اور اِن پر بنائے گئے نقوش یہ بتاتے ہیں کہ اِس زمانے میں آرٹ اور ہنر کو کس قدر اہمیت دی جاتی تھی۔ اِس قبرستان میں مختلف سائز کی قبریں ڈیزائن کی گئی ہیں اور قبروں کے ڈیزائن مختلف ہونے کی وجہ سے اِس بات کا پتہ چل جاتا ہے کہ خواتین، مرد اور بچوں کی قبروں کے لیے مختلف نقوش استعمال میں لائے گئے ہیں۔
قبرستان کے قریب ایک سائن بورڈ لگا ہوا ہے۔ جس پر 17th Century Tombs of Baloch Tribes درج ہے۔ یعنی بلوچ قبائل کی قبریں۔اِس قبرستان کو بلوچ قبیلہ ''کلمتی'' سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اِس قبرستان کے قریب ایک چھوٹی بستی آباد ہے، لیکن بستی کے مکین اِس قبرستان سے متعلق معلومات نہیں رکھتے۔
مائی بچائی بھی اِسی گاؤں کی ایک بوڑھی عورت ہے۔ وہ کہتی ہے کہ جب اِن کا خاندان بیلہ سے یہاں منتقل ہوا تو اُس نے بچپن سے اب تک اسی قبرستان کے آس پاس زندگی گزاری ہے۔ البتہ وہ اپنے بچوں کو یہ ضرور سمجھاتی ہے کہ شام کو قبرستان کے اندر نہیں جانا، کیونکہ بھوت اور جنات کا اثر اُن پر آسکتا ہے۔
قبرستان میں قدیم قبروں کی تعداد 114 ہے، جبکہ دو اجتماعی قبریں ہیں۔ یہ قبرستان اینٹی کوٹی ایکٹ 1975ء کے تحت پروٹیکٹڈ سائیٹ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم حکومتی عملداری کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ یہاں نہ ہی قبرستان کے لیے محافظ کا بندوبست ہے اور نہ ہی کوئی چار دیواری تعمیر کی گئی ہے۔
حب شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی اور مُردوں کو دفنانے کے لیے کم پڑتی ہوئی زمین اور مقامی انتظامیہ کی لاتعلقی کے سبب اب یہی قدیم قبرستان نئی قبروں سے پُر ہورہا ہے۔ مقامی افراد کے مطابق قبرستان میں مردوں کو دفنانے کا سلسلہ 2008ء سے شروع ہوا، اور تاحال جاری ہے۔
یہاں قدیم قبروں سے دوگنا زیادہ نئی قبریں تعمیر کی جاچکی ہیں۔ پشاور کے علاقے مردان سے تعلق رکھنے والے بلال احمد اپنی والدہ کے لیے فاتحہ پڑھنے روز اِسی قبرستان کا رخ کرتے ہیں۔ اُن کے بقول ماربل سٹی سے نزدیک ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنی والدہ کو یہیں پر دفنایا، اور انہیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد آرکیالوجی کا مضمون وفاق سے صوبے کے پاس آچکا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے 2014ء کو ایک ایکٹ پاس تو ہوا، مگر اِس ایکٹ پر عملدرآمد نہیں ہو پارہا ہے۔ نظامت آثارِ قدیمہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جمیل بلوچ نے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد اِس سائیٹ کا وزٹ کیا۔ انہوں نے حکومتِ بلوچستان کو اِس سائٹ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک تجویز جون 2014ء کو ارسال کی۔ تاہم تین سال گزر جانے کے باوجود نہ ہی اُس تجویز پر عمل ہوا اور نہ ہی کوئی اقدام اٹھایا گیا۔
صورتحال یہ ہے کہ یہاں معاملات اب تک جوں کے توں ہیں۔ قبرستان کی نگہداشت نہ ہونے سے زیادہ تر قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ قبرستان کو اس حال میں پہنچانے میں قدرت کا کم زمینی انسانوں کا عمل دخل زیادہ لگتا ہے۔
اِن میں سب سے اہم مسئلہ یہ سامنے آجاتا ہے کہ لوگوں میں آثارِ قدیمہ کے حوالے سے شعور و آگہی کی کمی ہے۔ شعور آگاہی پھیلانے کے لیے نہ ہی حکومتی سطح پر آثار قدیمہ کے مضمون کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے اور نہ ہی شعوری سیشن منعقد کیے جاتے ہیں۔ بڑا باغ بیلہ، دریجی اور ہنگول نیشنل پارک میں واقع اِسی طرز کے قدیم قبرستانیں واقع ہیں، لیکن اِن قبرستانوں کی صورتحال بھوانی کے قبرستانوں سے مختلف نہیں۔
بات کا اختتام ابراہیم ذوق کے شعر سے
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ
[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔