مفاہمت اور کراچی کا امن
کراچی گزشتہ پانچ سال سے ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار، خود کش حملوں، اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم کا شکار ہے.
لاہور:
متحدہ قومی موومنٹ کے رکن صوبائی اسمبلی منظر امام کے قتل کے بعد کراچی کے سیاسی منظرنامے پر بہت تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ اگرچہ منظر امام کے قتل کے سوگ میں دوسرے دن بھی شہر بند رہا مگر 2 سال قبل رضا حیدر کے قتل کے بعد ٹارگٹ کلنگ کا جو واقعہ پیش آیا تھا، ویسے واقعات اب رونما نہیں ہوئے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے منظر امام کے قتل کی مذمت کی، اے این پی کے رہنما بشیر جان نے منظر امام کے جنازے کی نماز میں شرکت کی۔
سینیٹر افراسیاب خٹک نے اپنے رفقا کے ہمراہ اسلام آباد کی منسٹرز کالونی میں ڈاکٹر فاروق ستار اور بابر غوری سے بھی تعزیت کی۔ برسوں بعد اے این پی اور ایم کیو ایم کے درمیان سیاسی قربت اور ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوئی ہے۔ جب 80 کی دہائی میں مہاجر قومی موومنٹ نے سیاسی جدوجہد شروع کی تھی تو 1982 میں بشریٰ زیدی بس حادثے کے بعد اردو بولنے اور پشتو بولنے والی برادری میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی، پھر سہراب گوٹھ پر باڑہ مارکیٹ کے انہدام، علی گڑھ کالونی پر حملوں کے بعد دونوں برادریوں کے درمیان کشیدگی، خون ریز تصادم میں تبدیل ہوگئی۔
90 کی دہائی کے آغاز تک کراچی شہر مسلسل تصادم اور خون ریزی میںمبتلا رہا، اس زمانے میں عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت خان عبدالولی خان کررہے تھے۔ ولی خان نے ایم کیو ایم سے مفاہمت کی پالیسی اختیار کی، ان کا کہنا تھا کہ دونوں برادریوں کے درمیان کوئی حقیقی تضاد نہیں ہے، اس لیے دوستی اور مفاہمت کے راستے سے امن بحال کیا جاسکتا ہے۔ ولی خان کا کہنا تھا کہ کراچی پشتونوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔ پختون برادری کے محنت کشوں نے شہر کی ترقی میں اہم کردار اداکیا ہے، ان محنت کشوں کا تحفظ امن و امان کی بہتر صورتحال کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان یہ مفاہمت نواز شریف کے دوسرے دور کے اختتام تک جاری رہی۔
بعض مبصرین کہتے ہیں کہ جب بے نظیر بھٹو شہید کے دوسرے روز میں ان کے وزیر داخلہ میجر جنرل نصیر اﷲ بابر نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خلاف آپریشن کیا تو ایم کیو ایم کے ایک اہم ترین رہنما کو ولی خان کی قیام گاہ ولی باغ میں پناہ ملی تھی۔ 50 اور 60 کی دہائی میں کراچی میں پختونوں کی کچی آبادیاں قائم ہونا شروع ہوئی تھیں۔ کراچی اور مشرق وسطیٰ میں روزگار کے مواقعے، تعلیم کی شرح بڑھنے کی بنا پر پختون برادری میں متوسط طبقے کا حجم بڑھنا شروع ہوا، نئے صدی کے شروع ہوتے ہی پختون لڑکے لڑکیاں پروفیشنل کالجوں اور حکومت سندھ کے محکموں میں بھی نظر آنے لگے۔
کراچی کے امیر علاقوں میں پختونوں کے تجارتی مراکز قائم ہوگئے۔ جنرل مشرف کے دور میں کراچی میں زمینوں پر قبضے کا معاملہ تشدد کی ایک نئی شکل اختیار کرگیا۔ کراچی کے مضافاتی علاقوں خاص طور پر سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے اور ناردرن بائی پاس کے درمیانی علاقے میں یہ جنگ شدت اختیار کرگئی۔ مختلف سیاسی جماعتوں نے مختلف مافیاز کی حمایت شروع کردی، افغان جنگ قبائلی علاقوں پھر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بھی پھیل گئی تو ان علاقوں سے ہجرت میں تیزی آئی، طالبان کے مختلف گروہ کراچی میں آکر آباد ہونے لگے۔
شہرکی ڈیموگرافی میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات سیاسی جماعتوں پر بھی پڑے۔ ولی خان کے انتقال کے بعد جب اسفندیار ولی نے قیادت سنبھالی تو اے این پی میں ایک نیا کلچر پیدا ہوا، بہت سے نظریاتی کارکن رخصت ہوئے، ان کی جگہ 80 کی دہائی میں دولت کمانے والوں نے لے لی۔ اے این پی کی اس صورتحال سے سندھ اے این پی زیادہ متاثر ہوئی۔ علائو الدین بنگش جیسے نظریاتی کارکن غائب ہوئے۔ امین خٹک مرحوم تنہا رہ گئے، 80 اور 90 کی دہائی میں دولت کمانے والے قائدین میں شامل ہوئے۔ 12 مئی 2007 کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کے شہر میں داخلے کو بزور طاقت روکا گیا۔راتوں رات تمام بڑی سڑکیں کھودی گئیں۔بسوں کے ذریعے راستے بند کردیے گئے۔
اے این پی، پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں نے مزاحمت کی۔ اس تصادم میں ایک طرف صرف پیپلزپارٹی اور اے این پی کے کارکن اور دوسری طرف ایم کیو ایم کے کارکن جاں بحق ہوئے، شہر میں پھر لسانی کشیدگی بڑھتی گئی۔ صدر زرداری نے 2008 میں صلح کل کے اصول کے تحت ایم کیو ایم اور اے این پی کو وفاقی اور صوبائی کابینہ میں شامل کیا مگر ایم کیو ایم اور اے این پی میں کشیدگی جاری رہی، اب شہر میں موبائل چھیننے والوں، بھتہ خوروں، مکانات پر قبضہ کرنے والوں میں نئے لسانی گروہ بھی شامل ہوئے، پانچ سال کشیدگی میں گزرے، جب ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی رضا حیدر کو قتل کیا گیا تو متحدہ نے قتل کا الزام اے این پی پر عائد کیا مگر بعد میں پولیس نے لشکر جھنگوی کے کارکنوں کو گرفتار کیا۔گزشتہ دو سال کے دوران پختون اکثریت والے علاقوں میں اے این پی کے متعدد کارکن قتل ہوئے ۔
ان میں وہ کارکن بھی شامل تھے جنہوں نے سوات اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے خلاف مزاحمت کی تھی، کچھ عرصے تک تو اے این پی اپنے ان کارکنوں کے قتل کی ذمے داری ایم کیو ایم پر عائد کرتی رہی مگر اے این پی کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا کہ طالبان بھی ان کے کارکنوں کو قتل کررہے ہیں۔ اے این پی اور ایم کیو ایم میں خلیج اتنی بڑھی کہ بلدیاتی نظام پر اے این پی صوبائی حکومت سے علیحدہ ہوگئی۔ اے این پی نے مسلم لیگ پیر پگارا، جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر بلدیاتی نظام کے خلاف تحریک شروع کردی۔
اس صورتحال کے باوجود طالبان اور مذہبی انتہا پسندوں کی کارروائیوں میں شدت آگئی۔ ایم کیو ایم کی ہونے والی ریلی کے شرکا کو بم دھماکے کا نشانہ بنایا گیا۔ اے این پی کے ہونے والے جرگے پر حملہ ہوا، خود اے این پی سندھ کے قائد بشیر خان بم کے دھماکے میں بال بال بچے، اب ایم کیو ایم کے دوسرے رکن صوبائی اسمبلی کے قتل کی طالبان نے ذمے داری قبول کرلی ہے ۔
پولیو کے قطرے پلانے والی خواتین کی ٹارگٹ کلنگ سے واضح ہوگیا کہ طالبان اس شہر کو یرغمال بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت نے محسوس کیا کہ مذہبی انتہا پسندی کے سیلاب کے خلاف بند باندھنے کے لیے متحد ہونا ضروری ہے، یہ مفاہمت شہر کے امن کے لیے ایک مثبت قدم ہے مگر اس مفاہمت میں ایم کیو ایم، اے این پی، پیپلزپارٹی اور دوسری تمام لبرل اور سیکولر جماعتوں کو بھی شامل ہونا چاہیے۔
کراچی شہر گزشتہ پانچ سال سے ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار، خود کش حملوں، اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم کا شکار ہے۔ شہر میں ایک سے دو دن اور بعض اوقات تین تین دن تک مسلسل ہڑتالوں کی بنا پر شہری خوف اور فرسٹریشن میں مبتلا ہیں۔ کاروباری سرگرمیاں ماند پڑگئی ہیں، تعلیمی ادارے بدامنی کا شکار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے حمایت یافتہ طلبا کے گروپ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قبضے کی جنگ میں مصروف ہیں۔ اساتذہ کے ساتھ برے رویے کے علاوہ تعلیمی نصاب ان حالات کی بنا پر مکمل نہیں ہوتا۔
نقل کرکے ڈگری لینے والے نوجوانوں کی فوج معاشرے میں مزید تباہی مچارہی ہے۔ دوسرے شہروں میں رہنما قتل ہوتے ہیں، خود کش حملے ہوتے ہیں مگر زندگی معمول پر رہتی ہے۔ کراچی میں بدقسمتی سے معمولی واقعے پر شہرکو جلا کر راکھ کردیا جاتا ہے۔ عالمی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے سال افغانستان سے امریکی فوج کی منتقلی کے بعد پاکستان کو ایک نیا موقع مل رہا ہے، اگر اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت وفاقی حکومت کو افغانسان کے امور میں عدم مداخلت اور وسیع البنیاد حکومت کے قیام کی حمایت پر مجبور کرے اور اسٹبلشمنٹ پر افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی حکمت عملی ترک کرنے پر دبائو ڈالے تو افغانستان میں امن مستحکم ہوسکتا ہے۔ اگر ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں حقیقی مفاہمت ہوجائے تو نہ صرف دہشت گردوں کو شکست ہوگی اور امن وامان کے ذریعے یہ شہر پھر اپنی روشنیوں پر فخر کرنے لگے گا۔