جمہوریت کے سرپر لٹکتی ہوئی تلوار
غلام گردشوں میں ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا راستہ روکنے کی سر توڑ کوششیں ہورہی ہیں۔
KARACHI:
ایک طرف یہ خبریں آرہی ہیں کہ اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان چند دنوں میں ہونے والا ہے۔ بعض اخبارات میں ہر روز اسمبلیوں کی زیادہ سے زیادہ مدت کے عنوان سے دن گنے جارہے ہیں۔ دوسری طرف ہم سب پاکستان میں جمہوریت کے نرم و نازک پودے پر آکر گرجانے والی کینیڈین اسکائی لیب کا دوسرا جلوہ دیکھ رہے ہیں۔ان کی دوسری پریس کانفرنس میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کے لہجے میں وہ طراری اور تیزی نہیں تھی، جو شیروانی اور کلاہ پوش درآمدہ رہنما کے جملوں میں تھی۔
وہ نگراں وزیر اعظم کی تعیناتی کے فیصلے کا کوہ گراں اپنے شانوں پر اٹھانے کے لیے بے تاب تھے اور بہ امر مجبوری جناب (ر) جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کی حمد وثنا تو کرتے تھے لیکن اگلی سانس میں اس پر اصرار کرتے تھے کہ کمیشن کے بانی چار اراکین کو فوری طور پر برطرف کیا جائے کیونکہ ان کی تقرری آئین کے منافی ہے۔ یہ درست ہے کہ وزیر اطلاعات نے ان کی کئی تجاویز کو دھیمے لہجے میں مسترد کردیا۔ اس کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں اگر یہ سوال اٹھ رہے ہیںتو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ایک خود ساختہ شیخ الاسلام کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی کہ پہلے وہ چار دن تک دارالحکومت اور اس کے رہنے والوں کو یرغمال بناکر بیٹھا رہا اور اب دوبارہ ایک تماشا پوری قوم کو دکھایا گیا۔ لوگ اگر یہ محسوس کریں کہ اس جلوہ نمائی کے پیچھے کوئی 'معشوق' چھپا ہوا ہے تو اس بارے میں اچنبھا نہیںہونا چاہیے۔
ابتدائی دنوں میں لوگ اپنے اپنے طور پر اسکائی لیب کی اس کریش لینڈنگ کو بیرونی طاقتوں کا اشارہ خیال کررہے تھے لیکن آہستہ آہستہ اس بارے میں لوگوں کی رائے بدل رہی ہے۔اس حوالے سے اہم رائے سینیٹر رضا ربانی کی ہے جنہوں نے آمریت کے بدترین دنوں میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کی ہے، صعوبتیں سہی ہیں اور اس وقت موجودہ حکومت کے ایک نہایت اہم رکن ہیں۔ ان کا احترام ان حلقوں میں بھی ہے جو موجودہ حکومت کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ وہ اپنی جماعت کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھیں تو اس کا برملا اظہار کرتے ہیں اور اس خوف میں گرفتار نہیں ہوتے کہ ان کی اپنی جماعت یا صدر پاکستان ان سے ناراض ہوجائیں گے۔
28 جنوری کو انھوں نے پارلیمنٹ ہائوس میں ذرایع ابلاغ کے نمایندوں سے بات چیت کے دوران ایک مشہور یونانی کہانی کے کردار ڈیماکلیز کے سرپرکچے دھاگے سے بندھی ہوئی تلوار کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ جمہوری نظام کے سر پر وہی تلوار لٹک رہی ہے اور دو سے تین سال کے لیے غیر آئینی نظام لانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ رضا ربانی نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ الیکشن کمیشن کی تحلیل کا مطالبہ سراسرغیر آئینی ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر یا کسی بھی ممبر کو اگر ہٹانا مقصود ہوتو اس کے لیے صرف آرٹیکل 209 کا راستہ ہے جو سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کا راستہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم مل کر جمہوریت کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنائے۔
انھوں نے یہ بات بھی دو ٹوک انداز میں کہی کہ حکومت کو الیکشن کمیشن کی تحلیل کا غیر آئینی مطالبہ کسی صورت تسلیم نہیںکرنا چاہیے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کچھ عناصر اور قوتیں الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہی ہیں۔ اس سازش کے پس پردہ ان کی یہ غیر جمہوری خواہش ہے کہ کسی بھی طرح انتخابی عمل کو یا ملتوی کردیا جائے یا ایک غیر آئینی عبوری حکومت کو دو تین سال کے لیے ملک پر مسلط کردیا جائے اور اگر وہ اپنے اس منصوبے میں ناکام رہیں تو انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا جائے تاکہ یہ قوتیں پھر انتخابی نتائج کو چیلنج کریں اور 1977 جیسی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے قائد ایوان کے انتخاب تک یہ سازشیں جاری رہیں گی لیکن اگر 18 ویں اور 20 ویں ترامیم کی منظوری کے بعد صاف ستھرے انتخابات کے ذریعے پہلی مرتبہ جمہوری حکومت دوسری منتخب جمہوری حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا عمل بخوبی مکمل کرتی ہے تو ایسے طالع آزما عناصر کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا اور جمہوریت اور آئین کو استحکام نصیب ہوگا۔
جناب رضا ربانی نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آئین اور جمہوریت کے استحکام کے حوالے سے گراں قدر کام کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ کچھ عناصر جمہوریت کی بساط کو لپیٹ کر ایک غیر آئینی اور غیر جمہوری حکومت کو درمیانی مدت کے لیے برسراقتدار لانے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔یہ بات وزن رکھتی ہے اور ان تمام لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے جو کسی نوعیت کی بھی غیر جمہوری حکومت کو پاکستان کے لیے زہر قاتل سمجھتے ہیں۔
پاکستان آمریتوں کے کئی طویل ادوار جھیل چکا ہے اور اب اس کی جانِ ناتواں میں براہ راست فوجی آمریت یا کسی نہ کسی بہانے ٹینکوکریٹ حکومت برداشت کرنے کی سکت نہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ ملک کے اندر دہشت گردی بعض طالع آزمائوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ براہ راست اقتدار پر قابض ہوجائیں۔ اسی لیے کہ کوشش اس بات کی ہے کہ وفادار اور تابعدار ٹینکو کریٹ اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد کو سامنے لاکر دو یا تین سال کے لیے ایک عبوری حکومت بنائی جائے اور عوام، آئین، عدلیہ، ذرایع ابلاغ اور بعض دوسرے اداروں کو پابہ زنجیر کردیا جائے اور یہ سب جمہوریت کو بچانے کے نام پر کیا جائے۔
اس مرحلے پر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نوعیت کے کسی سفاکانہ کھیل میں حصہ لینے والوں کو یاد دلایا جائے کہ ہمارے یہاں عوام کے جمہوری حقوق غصب کرنے اور ان پر آمریت مسلط کرنے کے کتنے ناکام تجربے ہوچکے ہیں۔ یہ بے ضمیری کی انتہا ہے کہ ہمارے یہاں ایسے بہت سے 'معتبر سیاسی رہنما'موجود ہیں جو سیاست اور سیاست دانوں کو شرم ناک قرار دیتے ہوئے ٹیلی ویژن پروگراموں میں کسی منجن بیچنے والے کی طرح اپنے نسخۂ شفا کو پیش کرتے ہیں اور ''مہربان'' ''قدردان'' کا آوازہ بلند کرتے سنائی دیتے ہیں۔
عوام بہت سمجھدار ہیں، ان کے ادھڑے ہوئے کپڑوں اور پھٹی ہوئی جوتیوں پرکوئی نہ جائے۔ ایک صاف ستھری جمہوری حکومت اور شفاف اور آزاد انتخابات ان کے اور ان کی آیندہ نسلوں کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں۔وہ سب کچھ سمجھتے اور جانتے ہیں لیکن وہ جنہوں نے جمہوریت پر شب خون مارنے کی ٹھان رکھی ہے۔ انھیں یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اب سے پہلے پاکستان کی تمام آمرانہ اور غیر جمہوری حکومتیں جو بدعنوانی سے پاک ایک صاف ستھرے نظام کی نوید سناتی ہوئی آئیں اور غیر آئینی طور پر ہماری گردنوں پر سوار ہوگئی تھیں۔ وہ ناکام کیوں رہیں اور اپنے پیچھے بدعنوانی، رشوت ستانی، اقربا پروری اور بے ضمیری کی وہ غلاظت کیوں چھوڑ گئیں جس کی صفائی ایک طویل، صبر آزما اور نہایت مشکل کام ہے۔
طالع آزمائوں کو آخرکار ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے اور ایسا دنیا کے ہر ملک میں کیوں ہوتاہے؟ یہ سوال ہمارے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا ایک منطقی جواب یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی فرد یا ادارہ اگر ایسی ذمے داریاں از خود اپنے اوپر عائدکرے جو اس کی پیشہ وارانہ مہارت سے متعلق نہیں ہوں تو مثبت نتائج کا برآمد ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ بڑی حد تک ناممکن ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی جامعہ میں ادب، فلسفے اور تاریخ کے اساتذہ کو ریاضی، طبعیات اور کیمیا کے مضامین پڑھانے کی ذمے داری تفویض کردی جائے تو بڑے سے بڑے عالم اساتذہ بھی اس میں ناکام ہوجائیں گے۔
سائنسی تحقیق کے کسی ادارے کا تجربہ کار ترین سربراہ، فنون لطیفہ کی اکیڈمی نہیں چلا سکتا۔ بینکوں کے سربراہ تمام تکنیکی جزیات کا مطالعہ کرکے صنعتوں کے قیام کے لیے اربوں روپے فراہم کرسکتے ہیں اور وہ صنعتیں نہایت کامیاب بھی ہوسکتی ہیں لیکن ان ہی صنعتوں کو اگر بینکاروں کی تحویل میں دے دیا جائے تو شاید چند مہینوں میں ہی وہ انھیں دیوالیہ کردیں گے۔
اب اس مسئلے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھا جائے کہ اگر ملک کے اہم سیاستدانوں کو جرنیلوں کی وردیاں پہنا کر جی ایچ کیو میں تعینات کردیا جائے اور سیاسی کارکنوں کو محاذ جنگ پر روانہ کردیا جائے تو تمام تر جوش اور جذبے کے باوجود جس نوعیت کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے ان کا اندازہ باآسانی لگایا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرنیل یا ٹیکنوکریٹ جب سیاستدانوں کی جگہ سنبھال لیتے ہیں تو اس کا نتیجہ بھی وہی نکلتا ہے جو منطقی طور پر نکلنا چاہیے۔
یہ حقیقت یاد دلانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جنا ب رضا ربانی نے اپنی جس تشویش کا اظہار کیا ہے وہ بے سبب نہیں۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں آیندہ انتخابات اور ایک منتخب حکومت سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا راستہ روکنے کی سر توڑ کوششیں ہورہی ہیں یہ اب ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ہم ایسے طالع آزمائوں کا راستہ ہرقیمت پر روکیں۔