ہائے لفافہ وائے لفافے بائے لفافہ

40 سال سے کاغذ کے کھیت میں قلم کا بیلچہ چلا رہے ہیں لیکن آج تک اس لفافے کے درشن نہیں ہوئے۔

barq@email.com

اخبارات میں ایک مرتبہ پھر ''لفافوں'' کے چرچے پڑھ کر بڑا خطرناک قسم کا غصہ ہمارے سر کے بالا خانے میں چڑھا بے چاری عقل کو سر پر پیر رکھ کر بھاگنا پڑا پھر ہم نے اسے پکڑ لیا جس پر غصہ آیا تھا یہ لات یہ مکے یہ گھونسے تھوڑی ہی دیر میں ہم نے اس کا حشر نشر کر دیا اینٹ سے اینٹ بجا دی، ہڈی سے ہڈی بجا دی اور تیاپانچہ کر دیا، اس کی چھ ہڈیوں میں صرف دو چار ہی سلامت رہ گئیں وہ بھی منہ کے اندر ۔۔۔ اس کی آنکھوں سے خون بہنے لگا کانوں سے دھواں اور منہ سے موسیقی کے ساتوں سر بیک وقت نکلنے لگے۔ ابھی ہم اسے کچھ اور سزا بھی دینا چاہتے تھے کہ اتنے میں کسی نے کاندھے پر ہاتھ رکھا دیکھا تو شرماتی لجاتی عقل تھی اسے دیکھ کر غصہ نے قبضہ خالی کر دیا، اب آپ جاننا چاہیں گے کہ وہ شخص جسے ہم نے اتنی بے دردی سے کوٹا پیٹا وہ کون تھا، تو بتائے دیتے ہیں کہ وہ ہم خود ہی تھے اور یہ ساری مار پیٹ ہم نے دل ہی دل میں کی تھی، یہ ہمارا من بھاتا طریقہ ہے کہ جس کسی پر غصہ آتا ہے اسے دل ہی دل میں اپنے سامنے باندھ دیتے ہیں اور خوب جی بھر کر بھڑاس نکال لیتے ہیں یہ زبردست قسم کا طریقہ ہم نے پہلی بار اپنی چڑھتی جوانی میں اختیار کیا تھا جب ایک فلم میں ہم نے دلیپ کمار کی شادی مدھو بالا سے ہوتے دیکھی جس پر ہم نے سینما ہال ہی میں چھری نکال لی اور دلیپ کمار کے کوئی سو بار گھوپنی، اس کے بعد تو یہ ہمارا مستقل طریقہ واردات ہو گیا راج کپور سے لے کر اس کے پوتے رنبیر کپور تک ہم نے کسی ہیرو کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔

فلمی ہیروز کے علاوہ جو ہماری من پسند ہیروئنوں پر بری یا اچھی نظر ڈالتے تھے ہم نے کچھ غیر فلمی شخصیات کو بھی بری طرح مارا پیٹا اور گھائل کیا ہے جیسے ڈاکٹر نینے جس نے مادھوری سے شادی کی تھی بونی کپور جس نے سری دیوی سے بیاہ رچایا تھا، انیل امبانی جس نے ٹینا منیم کو اڑا لیا تھا، کہاں تک گنائیں یہ بڑا اچھا طریقہ ہے کہ دل بھی ہلکا ہو جاتا ہے اور تعزیرات ہند و پاک کی کوئی دفعہ بھی نہیں لاگو ہوتی، بلکہ اس میں یہ سہولت بھی ہے کہ عام حالات میں جن لوگوں تک پہنچنا ممکن ہی نہ ہو ہم چشم زدن میں ان کو پکڑ لیتے ہیں جیسے چھوٹے بش کو ہم نے جب کنڈولیزا رائس کے قریب دیکھا تو اسے اپنے سامنے لاکھڑا کیا' پہلے تو اس کے کئی چپت مارے اور پھر چھری نکال کر بوٹی بوٹی کر دیا، اس سلسلے میں جنرل مشرف، حامد کرزئی اور خورشید محمود قصوری بھی ہماری لسٹ میں تھے جو اکثر کنڈولیزا رائس سے ہاتھ ملاتے رہتے تھے لیکن پھر ہم نے سوچا کہ صرف ہاتھ ملانے پر اتنا قتل و قتال اچھا نہیں کیوں کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا، ہمارے پاس اب بھی ایک لمبی فہرست مستقبل کے مقتولوں کی موجود ہے جس میں ٹاپ سیف علی خان ہیں لیکن یہ سوچ کر کچھ رکے ہوئے ہیں کہ بے چارے کے والد کو بھی ہم نے شرمیلا ٹیگور سے شادی کے جرم میں تہہ تیغ کیا تھا اب اسی گھر میں ایک اور قتل کچھ زیادہ مناسب نہیں ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ آج کل ہمارے پاس کام بھی بہت زیادہ ہے اپنے گھر میں اتنے لیڈر اور ممتاز رہنماء موجود ہیں کہ دو چار سال تو نہ ہم فارغ ہیں اور نہ ہماری چھری کو اتنی فرصت ہے، لیکن یہ آج جو ہم نے کیا وہ ایمرجنسی کیس تھا کیوں کہ لگ بھگ چالیس سال سے ہم اس جاں فزا روح پرور خوشبودار طرح دار ''لفافے'' کا ذکر سن رہے ہیں جو بقول روایت صحافیوں کو ملتا ہے اور جس کی تقسیم کے قصے آج کل کچھ زیادہ ہی ہونے لگے ہیں، یوں کہیے کہ ذکر سن سن کر ہم اس کے نادیدہ عاشق ہیں، ہمیشہ دل میں کھٹک ہوتی رہتی ہے کہ ایک بار بھی نہیں دیکھا ہے کم از کم ایک بار تو یہ پیاسی نگاہیں اس کے دیدار سے سیراب ہوں لیکن ہائے نصیب واہ ری قسمت اور ھے ھے اپنی نالائقی کہ

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ لفافہ پار کرتے
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار کرتے


ویسے تو پرانی کہانیوں میں کسی شہزادے کا کسی نادیدہ شہزادی پر عاشق ہونا عام سی بات ہے لیکن پشتو کے ایک شاعر امانت مالیار نے اس سلسلے میں جو کہانی بیان کی ہے وہ ہر لحاظ سے مثالی ہے اس میں خراسان کا ایک شہزادہ جب سن بلوغت کو پہنچتا ہے تو شہر کے باہر ایک باغ میں سیر کرنے کو جاتا ہے اس باغ کے درمیان میں ایک ندی گزرتی ہے شہزادہ گھومتا گھامتا ندی کنارے پہنچا تو وہاں ایک دھوبی نے اپنی گٹھڑی کھولی اس کے بعد امانت نے کمال کی منظر کشی اور لاجواب شاعری کے ذریعے بتایا ہے گٹھڑی کھولتے ہی چاروں طرف خوشبوئیں پھیل گئیں اتنی کہ اس خوشبو کی کشش میں اتنے بھنورے آئے جیسے آسمان بادلوں سے ڈھک گیا ہو شہزادہ بھی اس خوشبو سے گھائل ہوا اس کے پوچھنے پر دھوبی نے کہا کہ کپڑے ایک ریشم گر کی بیٹی کے ہیں شہزادہ تڑپ کر رہ گیا گھر سے صحیح سالم نکلا تھا اور گھائل ہو کر لوٹا وہ اس ریشم گر کی بیٹی پر ایک سو ایک جانوں سے عاشق ہوا۔

اس کے بعد کی کہانی کو چھوڑیئے اور ہماری طرف دھیان دیجیے شہزادے نے تو پھر بھی ریشم گر کی بیٹی کے کپڑوں کی خوشبو سونگھ لی تھی لیکن یہاں ہم نے اس ''لفافے'' کو نہ دیکھا ہے نہ سونگھا ہے بس نام ہی سنا ہے، یہ تک معلوم نہیں کہ جس لفافے کا ذکر ہوتا ہے وہ تکون ہوتا ہے مستطیل ہوتا ہے یا مربع ۔۔۔ اور اس کا رنگ کیا ہوتا ہے سرخ سبز سفید یا پھر کالا ۔۔۔ اور خوشبو کیسی ہو گی موتی روہل کی یا چکنی چمبیلی کی یا مشک و گلاب کی ۔۔۔ کیوں کہ اس کے اندر جو چیز بتائی جاتی ہے اس کی خوشبو کو عطر مجموعہ یا فاتح عالم کہا گیا ہے اب آپ خود سوچیے کہ اس سے زیادہ نالائقی نااہلی اور پھسڈی پن اور کیا ہو گا کہ ہم چالیس سال سے گھاس کھود رہے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ کاغذ کے کھیت میں قلم کا بیلچہ چلا رہے ہیں لیکن آج تک اس لفافے کے درشن نہیں ہوئے حالاں کہ ہم نے سنا ہے کہ اکثر بہت ہی غبی اور پھسڈی قسم کے مکھی پر مکھی مارنے والوں کو بھی یہ لفافہ مل جاتا ہے ایسی صورت میں ہم اپنی نالائق ہستی کو سزا نہ دیں تو کیا کریں، اس لفافے کی جادو اثری اور مسیحائی کا قصہ ہم کو ایک ہماری طرح کے ''نالفافہ یاب'' صحافی نے سنایا کہ لفافہ ملتے ہی لفافہ یاب صحافی کا کیا حال ہو گیا اس نے بتایا کہ ایک ''لفافہ یاب'' صحافی پر اچانک برا وقت آگیا لفافے بند ہو گئے کیوں کہ سارے لفافے دینے والوں کو علم ہو گیا تھا کہ اس کے پاس قصیدے کے جو شعر ہیں وہ ایک زمانے سے وہی کے وہی ہیں کل چالیس پچاس الفاظ ہیں جو وہ نام و مقام بدل کر ہر ممدوح کے بارے میں لکھتا ہے چناں چہ سالہا سال سے ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ وہی الفاظ اگر آج دائیں والوں کے بارے میں لکھے جاتے ہیں تو کل نام پتہ بدل کر بائیں بازو والوں کو بیچ دیے جاتے ہیں اور اس طرح اس نے زندگی بھر لفافے ہی لفافے بٹورے ہیں یہ علم ہوتے ہی ہر جگہ سے لفافے آنا بند ہو گئے اس غم میں بے چارا بستر سے لگ گیا۔

لواحقین نے کئی ڈاکٹروں سے علاج کروایا لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، آخر کار نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ عزیز اور عیادت کرنے والے صحت کے بجائے مغفرت کی دعا مانگنے لگے اور ایمان بالخیر کی توقعات ظاہر کرنے لگے اچانک ان کے ایک عزیز کے ذہن میں کوندا لپکا اور ایک نہایت ہی تیر بہدف نسخہ ذہن میں آگیا اس نے کہیں سے ایک لفافہ لیا اور اسے بند کر کے مریض المرگ کو پہنچا دیا لفافہ ہاتھ میں لیتے ہی جیسے اس کے جسم میں کرنٹ دوڑ گیا ہو فوراً اٹھ بیٹھا کاغذ قلم منگوایا عزیز فوراً حاضر ہو گئے اس خوشی میں کہ شاید موصوف اپنی وصیت لکھنا چاہتے ہیں لیکن اس نے لفافے کے کونے میں ''از طرف'' کا قصیدہ لکھنا شروع کر دیا اپنے مخصوص چالیس الفاظ کو دو چار صفحوں پر پھیلایا اور نٹینگ شروع کر دی قصیدہ مکمل کرنے کے بعد اس نے کھانا طلب کیا بدقسمتی سے وہ لفافے کو الٹ پلٹ اور سونگھ بھی رہا تھا اچانک لفافے کی پشت پر اسے ایک مانوس تحریر نظر آئی پڑھا تو وہ خود اس کی لکھی ہوئی ایک یادداشت تھی فوراً سمجھ گیا کہ عزیزوں نے پرانا لفافہ نکال کر یہ حرکت کی تھی فوراً کچھ ہوا عزیزوں نے دیکھا تو جاں نکل چکی تھی

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
Load Next Story