میں انسان ہوں

چاروں طرف آگ کے الائو نظر آ رہے تھے۔ ہندو ایک طرف جمع ہونے لگے ، مسلمان دوسری طرف جمع ہونے لگے۔


Saiqa Naz January 29, 2013

سندھی ادب کے مشہور شاعر اور ادیب ڈاکٹر ایاز حسین قادری نے اپنے ایک افسانے ''ماں انسان آھیاں'' میں سماج کے اہم مسئلوں کو بنیاد بناتے ہوئے زمانے کی حالت پر طنز کیا ہے۔ ادیب نے جو کچھ اپنے افسانے ''ماں انسان آھیاں'' میں لکھا ہے، وہی جہالت اور سماجی بدحالی ہمیں آج بھی اپنے اردگرد نظر آتی ہے اور فساد پھیلانے والے شر پسند عناصر آج بھی معاشرے میں انتشار پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ قارئین ؐکے لیے اس سندھی افسانے کا اردو میں خلاصہ یہاں پیش ہے۔

''کسی کو خبر نہیں تھی کہ وہ کون ہے اور اس کا نام کیا ہے، اس کی ذات کیا ہے، اس کا مذہب کیا ہے، وہ کہاں سے آیا ہے۔ ان سب سوالوں کے باوجود بھی شہر کے چھوٹے بڑے سب اس کو جانتے تھے۔ کافی سال سے سب اسے دیکھ رہے تھے۔ خاموش، اپنے خیالوں میں گم۔ وہ پجاریوں کو دیوتائوں کے آگے سر جھکائے بنتی کرتے ہوئے خاموش بیٹھا دیکھتا رہتا تھا۔ مندر سے نکلتے ہوئے مرد اور عورتیں اس کو دیکھتے ہوئے کہتے کہ یہ ''بھگوان کے ساتھ دل لگائے ہوئے ہے۔''

صبح کے وقت جب مسجد کے اونچے میناروں سے مؤذن کی اﷲ اکبر کی صدا کائنات کے چاروں طرف پھیلتی تھی تو وہ خاموشی سے اٹھ کر مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاتا تھا اور وضو کرنیوالوں کی طرف خاموش نظروں سے دیکھتا رہتا۔ جس وقت پیش امام قرآن پاک کی سورتیں قرأت کے ساتھ پڑھنا شروع کرتا تو وہ اس کی میٹھی آواز میں مست ہو جاتا جیسے اسے کوئی دلی مسرت حاصل ہو رہی ہو، جس وقت نمازیوں کو سجدے میں جاتے ہوئے دیکھتا تو ایک مرتبہ پھر کسی ایسے مسئلے کے بارے میں سوچنے لگتا جو کہ حل نہیں ہو سکتا تھا۔ مسجد سے نکلنے والے نمازی کہتے تھے کہ بے چارہ مجذوب ہے۔ اﷲ کا پیارا بندہ ہے۔ چھوٹے بڑے، مرد و عورت، ہندو مسلم، سب اس کو فقیر بابا کہتے تھے، نہ اس کا گھر تھا، نہ گھاٹ۔

مالک کی زمین اس کا منبر تھا اور آسمان اس کے محل کی چھت۔ کبھی وہ مندر کی سیڑھیوں کے پاس سوتا ہوا نظر آتا تو کبھی مسجد کے دروازے کے پاس سو رہا ہوتا، ورنہ تو ساری ساری رات شہر میں گھومتا رہتا، اس طرح جیسے کوئی بے قرار روح سکون کی تلاش میں سرگرداں ہوتی ہے۔ وہ نہ کسی سے کوئی سوال کرتا تھا نہ کسی سے کچھ مانگتا تھا۔ کبھی کوئی ہندو اس کو بھوجن کروا دیتا تو کبھی کوئی نیک دل مسلمان اسے روٹی کھلوا دیتا تھا۔ وہ روٹی کے لیے کبھی بھی انکار نہیں کرتا تھا۔ لیکن اگر کبھی کوئی اس کو پیسے دیتا تو وہ پیسوں اور پیسے دینے والے کی طرف ایسی غصے بھری نظروں سے دیکھتا تھا جیسے کہہ رہا ہو ''یہ دنیا ہی ہے جس کے جال میں پھنسنے والا انسان، انسان نہیں رہتا۔ انسان اﷲ کا پجاری نہیں بلکہ دنیا کا پجاری ہے۔'' وہ اکثر خاموش رہتا جیسے اس کی زبان تالو سے لگی ہو، اگر کبھی موج میں ہوتا بھی تو وہ بھی دو چار لفظ بول دیتا۔اچانک ہی چاروں طرف کہرام مچ گیا۔ آج شہر اُجڑ گیا۔ چاروں طرف آگ کے الائو نظر آ رہے تھے۔ ہندو ایک طرف جمع ہونے لگے ، مسلمان دوسری طرف جمع ہونے لگے۔

ہندو مسلمانوں کے محلے سے نکلنے لگے اور مسلمان ہندوئوں کے محلے سے نکلنے لگے، کیونکہ اپنی جان اور مال کی سلامتی انھوں نے اسی میں سمجھی کہ اپنے دین والوں کے ساتھ رہا جائے۔ ہر گھڑی حملہ ہونے کا امکان اور جان کا خطرہ تھا۔ چوہدری کے محلے میں آس پاس کے پہلوان جمع تھے۔ ''آج رات'' چوہدری حقے کا کش لگاتے ہوئے بولا ''ان دین کے دشمنوں کو سبق سکھانا ہے جنہوں نے ساری عمر ہمیں لوٹا ہے۔ یہ ہمارے حق کی لڑائی ہے۔ ہمارے پاکستان کی جنگ ہے۔ ہمارے اسلام کا جہاد ہے۔ آج ان کافروں کو دکھانا ہے کہ مسلمان شیر ہیں تا کہ ان دھوتی پوشوں کو بھگوان یاد آ جائے۔'' فیصلہ ہوا کہ آج رات بیس نوجوان جن میں کافی باہر سے آئے ہوئے مضبوط اور بہادر منتخب ہوئے تھے، کو سیٹھ دمڑی مل کی کوٹھی پر حملہ کرنا ہے۔ ''دیش کے لوگو! آپ کو ملک کی تقسیم قبول ہے؟'' سیٹھ دھرم داس نے مختلف جگہوں سے آئے ہوئے نوجوان ہندوئوں سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا۔ ''کیا آپ بھارت ماتا کے شریر کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے دیں گے؟'' آج رات ان نیچ مسلمانوں کو جنہوں نے ہمیشہ ہمیں تنگ کیا ہے جس کی وجہ سے ہم کبھی بھی محفوظ نہ رہے، ضرور مزہ چکھائیں گے۔

آئو آج ان نیچ مسلمانوں کو ایسا سبق سکھائیں کہ ان کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے اور ہمیشہ اپنے اﷲ کو یاد کرتے رہیں۔'' آخر فیصلہ ہوا کہ کچھ نوجوانوں کو منتخب کیا جائے جو رات کو چوہدری دین محمد کے گودام پر حملہ کریں گے۔گھڑی نے رات کے بارہ بجائے۔ سنسان راستے پر ایسے وقت وہ اپنے خیالوں میں غرق اندھیرے میں ادھر ادھر پھر رہا تھا۔ ''خاموش، کوئی ادھر آ رہا ہے۔'' دوبارہ خاموشی ہو گئی۔ ''اکیلا شخص ہے۔ تمہارا نام کیا ہے؟'' مگر ان کو کوئی جواب نہ ملا۔ ''تمہارا مذہب کیا ہے؟'' ''سالا کافر ہے۔'' اتنے میں ایک چھرا اندھیرے میں چمکا اور اس کی چھاتی میں گڑ گیا۔ دوسرے لوگ بھی درخت کے پیچھے سے باہر نکل آئے۔ ان میں سے کوئی زور سے چیخا۔ ''او فقیر بابا'' ان کا سردار غصے سے بولا۔ ''چلو چلو دیر ہو رہی ہے، اگر تھوڑی دیر اور ہو گئی تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔'' سب چپ چاپ اپنے سردار کے پیچھے چل دیے۔ فقیر بابا نے آہستہ سے گردن اٹھائی۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔

ایک نظر اوپر دیکھا اور اپنی گردن مسجد کی طرف گھمائی جہاں وضو کرتے ہوئے، قرآن سے سورتیں پڑھتے ہوئے پیش امام اور مسجد میں جھکے ہوئے نمازی نظر آتے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ اٹھا اور ویران اور تاریک گلیوں میں گم ہو گیا۔ ''تم کون ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟'' پتھر پر بیٹھے ہوئے نوجوان نے اس سے پوچھا، مگر کسی کو بھی کوئی جواب نہیں ملا۔ ''تمہارا دھرم کیا ہے؟'' ''مسلم ہے۔'' ایک آواز آئی۔ ''مارو نیچ کو۔'' ایک کرپان ہوا میں ابھری اور اس کے پیٹ میں گھپ گئی۔ ''آہ'' کی آواز آئی اور دوسرے ساتھی بھی آ کر ان کے ساتھ مل گئے۔ ''فقیر بابا'' ایک نوجوان حیرت سے بولا۔ ''دیر نہ کرو تھوڑا وقت بچا ہے، اگر یہ وقت نکل گیا تو بعد میں افسوس سے ہاتھ ملتے رہو گے۔'' سب اپنے آگے والوں کے پیچھے چل پڑے۔ فقیر بابا کافی دیر کے بعد حرکت میں آیا۔ آسمان کی طرف دیکھا۔ اس کے بعد اپنی آنکھوں کے سامنے مندر کو دیکھا جس میں اس کو ناقوس کی صدا، پجاری کا بھجن، گھنٹیوں کی آوازیں آئیں۔

اس نے آہستہ سے اٹھنے کی کوشش کی۔ تھوڑا آگے گیا اور دوبارہ گر گیا۔ شہر میں ہنگامہ مچنے لگا۔ عورتوں کی چیخیں، بچوں کا رونا ۔ بچائو بچائو کی آوازیں، بندوقوں، گولیوں کی آوازیں، لاٹھیوں کی آوازیں، خنجروں کا چمکنا، ان سب کے خوفناک شور سے زمین و آسمان ایک ہو گئے۔ ''مارو، کافر ہے، مارو مسلم ہے، پکڑو پکڑو، چھوڑنا نہیں۔'' اچانک سیٹیاں بجنے لگیں۔ ملٹری پولیس کی مشین گنوں کی آوازیں گونجنے لگیں، چارو ں طرف ملٹری پھیل گئی۔ ریڈ کراس کی گاڑیوں میں مرنے والوں اور زخمیوں کو اسپتال لے جایا گیا۔''تم کون ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟'' ڈاکٹر کے سوال کے جواب میں زخمی مسکرانے لگا۔

ڈاکٹر اور نرس ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ''شاید دیوانہ ہے۔'' نرس بولی۔ ''ڈاکٹر میں ہندو، نہ نہ ... مسلم، نہ... ڈاکٹر صاحب میں انسان ہوں، میرا مذہب انسانیت ہے۔ ڈاکٹر صاحب، مجھے زخم ہندو اور مسلمان، دونوں نے دیے ہیں۔ میرے زخم انسانیت کے زخم ہیں، ڈاکٹر صاحب میری لاش ہندو، مسلم دونوں کے حوالے کر دیجیے۔ جس میں وہ اپنی شکل دیکھ سکیں۔ جن میں کوئی بھگوان کے آگے سر جھکاتا ہے ، کوئی اﷲ کے آگے سجدہ کرتا ہے۔'' زخمی چپ ہو گیا۔ اس کے لبوں پر ابدی مسکراہٹ پھیل گئی جو کہہ رہی تھی۔ ''میں انسان ہوں۔''افسانہ اپنے آفاقی پیغام کے ساتھ مکمل ہو گیا۔ میں سوچ رہی ہوں کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسان کو عروج کے بجائے زوال کی طرف مائل کر دیا ہے۔ آج ضروری ہے انسانیت کو اس تعلیم کی جو 14 سو سال قبل ہادیٔ برحق محمد مصطفی ﷺ نے ہم تک پہنچائی۔ ورنہ یہ افسانے یونہی حقیقت کا روپ دھارتے رہیں گے اور دنیا میں آگ اور خون کا یہ کھیل یونہی جاری و ساری رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔