داؤ پر ہم کو لگانی ہے گدائی اپنی

شام کی اسد سے گلو خلاصی اور اس کے بعد شام کی تنظیم نو اور فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں،


رسول احمد کلیمی January 29, 2013

امریکی دستور میں 1933 میں بیسویں ترمیم کے ذریعے یہ طے کر دیا گیا کہ چار سالہ صدارتی مدت کا اختتام 20 جنوری کی دوپہر کو ہوا کرے گا، اور منتخب صدر اسی روز سہ پہر کو چار سالہ مدت کے لیے حلف اٹھائے گا، امریکا کے 32 ویں صدر فرینکلین ڈی روز ویلٹ نے امریکا کی تاریخ میں پہلی بار 20 جنوری 1937 کو صدارت کا حلف اٹھا کر اس رسم کا آغاز کیا جو بیسویں ترمیم کے عملی نفاذ کی صورت میں آیندہ کسی ممکنہ ترمیم تک قائم رہے گی، اس سے پہلے امریکی صدور کی اکثریت نے اپنی چار سالہ صدارتی مدت کا حلف 4 مارچ کو اس لیے اٹھایا کہ اس دن 1789 میں امریکا کا دستور نافذ العمل ہوا تھا۔ گزشتہ ہفتہ صدر بارک اوباما نے 57 ویں صدارتی مدت مگر 44 ویں صدر کی حیثیت سے اپنی دوسری چار سالہ صدارتی مدت کا حلف اٹھایا۔

بارک اوباما کو امریکی صدارتی تاریخ میں دو امتیازات حاصل ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ پہلے افریقی ہیں، جو پہلی بار نہیں بلکہ دوسری بار بھی صدر منتخب ہوئے، دوسرا یہ کہ وہ امریکا کی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے دونوں بار 20 اور 21 جنوری کو یعنی دو دو بار اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ شاید مستقبل میں کوئی دوسرا افریقی امریکی صدر منتخب ہو کر ان کا ایک ریکارڈ تو برابر کر دے لیکن اولیت اور دو دو بار حلف لینے کا ریکارڈ ہمیشہ ان کے نام رہے گا، جس طرح فرینکلین ڈی روز ویلٹ کو امریکی صدارتی تاریخ میں تین بار صدر منتخب ہونے کا نہ ٹوٹنے والا امتیاز حاصل ہے، اس لیے کہ آئین میں اب اس کی گنجائش نہیں۔ بہرحال یہ ہمارا اور آپ کا مسئلہ نہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ بارک اوباما کی حلف برداری سے تین دن قبل امریکا کے ایک نہایت متحرک اور معتبر ''انسٹیٹیوشن'' کے نائب صدر اور فارن پالیسی کے ڈائریکٹر سے یہ اطلاع موصول ہوئی کہ جمعرات، یعنی 17 جنوری 2013کو انسٹیٹیوشن ایک معرکۃالآراء دستاویز کا اجرا کر رہا ہے، جو عالمی شہرت کے دعویدار نہایت لائق و فائق ماہرین نے اپنے اپنے علوم میں مہارت کی مدد سے نہایت جانفشانی اور عرق ریزی سے فارن پالیسی اور دیگر امور پر صدر اوباما کی معلومات، رہنمائی اور رہبری کے لیے تیار کی ہے۔ اس سے زیادہ اہم اطلاع یہ تھی کہ انسٹیٹیوشن کے حلقہ بگوشوں میں ہماری لیاقت اور ذہانت وغیرہ کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس سے قبل کہ صدر گرامی کو اس اہم اور قیمتی بلکہ بیش قیمت دستاویز کے مندرجات سے آگاہ کیا جائے، ہمیں اس کے تمام تر اسرار و رموز سے باخبر کر دیا جائے۔

پہلے تو ہمیں خیال آیا کہ ''کہاں ہم اور کہاں یہ مقام اﷲ اﷲ''۔ پھر معاً جذبہ خود پسندی نے غلبہ پایا اور نہایت غیر جانبداری سے اپنے کوائف پر غور کرنے کے بعد ہمیں انسٹیٹیوشن کے نائب صدر مارٹن انڈک کی ذہانت اور مردم شناسی اور دانشمندی کا قائل ہونا پڑا۔ چنانچہ ہم نے وقت مقررہ پر رسم اجرا کی تقریب میں بذریعہ ٹیکنالوجی شرکت کی سعادت حاصل کر لی۔ اس ''ہدایت نامہ برائے صدر امریکا'' کا عنوان ہے ''بگ بٹس اینڈ بلیک سوانس'' (Big Bets and Black Swans)۔ گویا اس کتاب کے دو حصے ہیں ایک میں صدر امریکا کے لیے Big Bets کی نشاندہی اور ان پر درست اقدامات کے لیے ہدایات اور نتیجے میں حاصل ہونے والی سرور و شادمانی اور بیش قیمت نعمتوں اور فضیلتوں کا ذکر ہے اور دوسرے حصے میں Black Swans کا سراغ لگایا گیا ہے اور ان کے غیر متوقع خطرات سے آگاہ کرنے کے بعد ان کے نحس اثرات سے نبرد آزما ہونے کے تیر بہدف نسخے تجویز کیے گئے ہیں۔

یہ امریکی دانشور بھی بڑے بذلہ سنج ہوتے ہیں۔ آسان کتابوں کے ایسے مشکل نام رکھتے ہیں کہ اچھا خاصا آدمی جارج بش ہو جائے۔ ہمارے ہاں دیکھیے نہایت دقیق ملفوظات کے کیسے پر کشش اور پر اثر نام رکھے جاتے ہیں مثلاً ''بہشتی زیور، ہدایت نامہ خاوند، قبر کا آنکھوں دیکھا حال یا شاہی دسترخوان'' وغیرہ۔ اس سے نفس مضمون بھی واضح ہو جاتا ہے اور انشراح قلب بھی ہو جاتا ہے۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ ''بگ بٹ'' کا نام لاس ویگاس کے ہی کسی کیسینو یا جوئے خانے کا خیال آتا ہے جہاں بڑے بڑے جواری پوکر کا وہ خصوصی کھیل کھیل رہے ہیں جس میں دو پہلے سے مقرر شدہ رقوم کے لیے بازیاں لگائی جاتی ہیں۔

ان میں سے ایک بہت بڑی رقم ہوتی ہے جسے Big Bets کہتے ہیں اور دوسری چھوٹی رقم ہوتی ہے جسے Small Bet کہتے ہیں۔ Big Bet پر بڑے کھلاڑی داؤ لگاتے ہیں اور کامیابی کی صورت میں ان کی آیندہ نسلوں کی بھی عاقبت سنور جاتی ہے۔ استعارے کے طور پر یہاں اصطلاح ان دشوار اور بنیادی نوعیت کے فیصلوں اور اقدامات کے لیے استعمال کی گئی ہے، جس میں اگرچہ خطرات اور ناکام ہونے کے امکانات تو ہوتے ہیں مگر جو انتہائی نامساعد اور نازک حالات میں بھی کبھی قوموں کی قسمت بدل دیتے ہیں۔ ''بلیک سوان'' کی ترکیب پہلی بار لبنانی انجینئر اور مالیاتی امور کے ماہر نسیم نکولس طالب نے وضع کی تھی۔ بطور استعارہ ایسے ایسے غیر متوقع حالات و واقعات اور سانحات کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو اچانک ظہور پذیر ہوکر پورے نظام کو متزلزل کر دیں اور اپنے بد اثرات سے قوموں کی تقدیر اور تاریخ کا رخ موڑ دیں۔ یہ دونوں اصطلاحات جدید امور مالیات اور دور رس پالیسی سازی میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

ہمارا خیال ہے کہ ہمارے دانشوروں اور مبصروں کے علاوہ پالیسی ساز اداروں سے متعلق افراد کو یہ دستاویز ضرور پڑھنی چاہئیں کیونکہ آیندہ چار برسوں میں اور بعد ازاں عالمی سیاست، معیشت، عسکری طاقت، توانائی، تجارت غرض یہ کہ ہر قابل ذکر شعبے میں جو کچھ وقوع پذیر ہونے والا ہے اس کے کچھ نشانات اور امکانات کا سراغ اس دستاویز میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اتفاق یا حسن اتفاق سے بگ بٹس اور بلیک سوانس کے ہر میمو میں جتنے اقدامات کی سفارش، وضاحت یا نشاندہی کی گئی ان میں سے ہر ایک کا اثر بالواسطہ یا بلا واسطہ پاکستان پر پڑتا ہے۔ یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ نئے ورلڈ آرڈر میں اپنی حیثیت کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے امریکی صدر کو اپنا وقت اپنا اختیار اور اپنی توانائی اور اپنی صلاحیت کو پوری جرأت اور جانفشانی اور دلجمعی کے ساتھ استعمال کرنا ہو گا۔

یہی پیغام تھا، اس تقریب اجرا میں 12 بگ بٹس کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے اگر صدر اوباما نے بر وقت پیش قدمی کی تو بگ بٹس کے ثمرات ابھرتے ہوئے گلوبل آرڈر میں امریکا کی برتری کو قائم رکھنے کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ اس میں اولیت چین اور ہندوستان کو مغربی اقوام سے زیادہ قریب لانے اور تعاون کرنے پر دی گئی ہے۔ صدر کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بہترین صلاحیتیں ایران سے نمٹنے اور وقت ضرورت ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے پر صرف کریں۔ شام کی اسد سے گلو خلاصی اور اس کے بعد شام کی تنظیم نو اور فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے اقدامات کریں، ایشیا اور لاطینی امریکا سے مضبوط تجارتی تعلقات کا فروغ اور یورپ سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ صدر کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے، بلیک سوانس کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ تاکید کی گئی ہے کہ اسپین اور یونان کو مالیاتی دیوالیہ پن اور یورپین یونین کو مکمل مالیاتی تباہی سے بچانا ضروری ہے تا کہ دنیا کو ایک تباہ کن عالمی کساد بازاری سے بچایا جا سکے۔

اس امکان سے بچنا ہے کہ افغانستان دوبارہ طالبان کے قبضے میں آ جائے اور اس طرح ایک ایسی سول وار یا خانہ جنگی کا آغاز ہو جائے جس کا اثر پاکستان کے بیشتر علاقوں تک پھیل جائے اور ساتھ ہی القاعدہ کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل جائے اور پاکستان کے جوہری ہتھیار ان کے ہاتھ آ جائیں۔ اس بات کے امکانات کو بھی مسدود کرنا ہو گا کہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی نئی منظم کردہ جمہوریتیں دوبارہ ''اسلامسٹ آمروں'' کے قبضے میں نہ آ جائیں اور اس طرح اسرائیل نئی جنگوں کے خطرات سے دو چار ہو جائے، صدر کو اس بات پر نظر رکھنی ہو گی کہ سعودی عرب میں بادشاہت کسی سانحے سے دوچار نہ ہو جائے۔ ورنہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اثر و نفوذ نہ صرف کم ترین سطح پر گر جائے گا بلکہ ایران کو تیل کی بدولت ایک برتری اور فوقیت حاصل ہو جائے گی۔

اگرچہ بگ بٹس اینڈ بلیک سوانس کے مطالعے اور اس کے اجرا کی تقریب میں شرکت سے پاکستان کے لیے کوئی خوشگوار پیغام تو ہمیں نہیں ملا لیکن پوری فراخ دلی سے اس تمام صورتحال کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم انتہائی ذمے داری سے یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ یہی وہ نازک اور فیصلہ کن موڑ اور لمحہ ہے کہ جب پاکستان ایک مضبوط منصوبہ بندی کے ذریعے عالمی سیاست اور معیشت کے بدلتے ہوئے زاویوں اور رجحانات کے درمیان تبدیلی کے محور اور مرکز کے قریب اپنا مقام بنا سکتا ہے۔ بساط بچھ چکی ہے، دیر کرنے میں شدید خسارے اور تباہی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ سانس لینے کے لیے ہوا میں اپنا حصہ حاصل کرنا ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔