شکست خواب
میں تاریخ داں نہیں ہوں اور نہ نسل انسانی کا ماہر، لیکن اتنا جانتا ہوں کہ یہ میرا ملک ہے اور میں یہاں رہتا ہوں۔
لاہور:
سردار شیر باز مزاری کی یادوں پر مشتمل کتاب A Journey to Disillusionment پاکستان کی تاریخ کے ایک نہایت اہم دور کی داستان ہے۔ یہ پاکستان کی سیاسی زندگی اور ملک کے مستقبل پر اس کے اثرات کا ایک بہترین تجزیہ ہے، ایک ایسے شخص کی طرف سے جس کی دیانت داری شک و شبہ سے بالاتر سمجھی جاتی ہے۔ مزاری بلوچ قوم کا ایک قبیلہ ہے جس کی خود اپنی ایک تاریخ ہے۔ مزار بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں شیر اور مزاری کے معنی ہیں شیر کا بچہ۔
بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کا پاکستان کی مجموعی صورت حال پر گہرا اثر رہا ہے۔ اس میں فوج کا بھی کردار ہے اور ملک کے سیاست دانوں کا بھی۔ بلوچستان کی معاشی پستی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ بھی یہی ہے۔
سردار شیر باز مزاری نے بلوچستان کی صورت حال کے حوالے سے 1978 کی ایک ملاقات کا حال لکھا ہے جب ملک میں مارشل لاء کا دور تھا اور جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی تھی، وہ لکھتے ہیں:
''18 جنوری کو کراچی میں غوث بخش بزنجو اور میں ضیاء سے ملنے گئے، اس وقت عطاء اﷲ مینگل قلب کے آپریشن کے لیے ملک سے باہر تھے اور خیر بخش مری نے اس ملاقات کے لیے ہمارے ساتھ جانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ جب تک لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد ملک بلوچستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہیں وہ ضیاء الحق سے ملاقات نہیں کریں گے۔ خیر بخش مری جنرل ملک کو بلوچوں پر چملانگ میں مظالم کا ذاتی طور پر ذمے دار قرار دیتے تھے۔
جنرل ضیاء الحق سے ابتداً ہماری بات چیت عام موضوعات پر محدود رہی، پھر برف ٹوٹی اور ضیاء الحق نے کھل کر کہا کہ وہ بلوچ قیادت سے جسے اب تک علی الاعلان غدار کہا جاتا رہا تھا، تمام مسائل پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔''''ضیاء الحق سے ملاقات کے بعد جب ہم اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس سے باہر آ رہے تھے تو ضیاء نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں بزنجو کو چھوڑ کر ان کے ساتھ برابر والے کمرے میں چلا گیا۔ وہاں انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ خیر بخش مری سے مشورہ کر کے بتائیے کہ بلوچستان میں کس جنرل کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جائے۔
باہر آ کر جب میں نے بزنجو کو یہ بات بتائی تو وہ حیران ہوئے اور انھوں نے مجھ سے کہا عطاء اللہ مینگل کو پاکستان واپس آنے دو، پھر خیر بخش سے مشورہ کرنا۔ خیر بخش مشکل آدمی ہیں۔ مینگل سے ان کی قربت زیادہ ہے اس معاملے کو وہ زیادہ آسانی سے طے کر لیں گے۔ مجھے بزنجو کی یہ رائے درست معلوم ہوئی''۔
''اس دوران ضیاء الحق نے سیاست دانوں سے تعلقات اچھے رکھنے کی پالیسی جاری رکھی، البتہ وہ ان سیاست دانوں سے دور رہے جن کی بھٹو کے دور میں شہرت اچھی نہیں رہی تھی۔ کوثر نیازی اور غلام مصطفی جتوئی جیسے پیپلز پارٹی کے لیڈروں سے ان کی کوئی مخالفت نہیں تھی۔ فروری کی 4 تاریخ کو ضیاء نے قومی مسائل پر بات کرنے کے لیے سرکردہ سیاسی شخصیات کی ایک خاص کانفرنس اسلام آباد میں بلائی۔ پی ڈی پی کی طرف سے ولی خان، ان کی بیوی، بزنجو اور میں اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ کانفرنس میں جو دوسرے لوگ شریک تھے ان میں ضیاء الحق، ان کے چار ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، چاروں گورنر، نو مقرر کردہ ایڈوائزر اور کچھ ممتاز سیاست داں شامل تھے۔ کانفرنس پانچ گھنٹے جاری رہی جس کے دوران غلام اسحاق خان اور آفتاب احمد خان نے قومی معیشت پر اور آغا شاہی نے امور خارجہ کے مسائل پر خطاب کیا۔ اس تمام مشن کا مقصد محض سیاستدانوں کو بے وقوف بنانا اور یہ باور کرانا تھا کہ انھیں قومی معاملات میں اعلیٰ مشاورت میں شریک کیا جا رہا ہے''۔
دو دن بعد 6 فروری کو ایران کے رضا پہلوی اور ان کی بیوی فرح دیبا سرکاری دورے پر پاکستان آئے، سرکاری تقریبات میں، دوسرے سیاست دانوں کے ساتھ مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی، صدر چوہدری فضل الٰہی نے شاہی مہمانوں کے اعزاز میں لنچ دیا۔ کھانے کے بعد ضیاء نے مجھ سے کہا کہ شاہ سے نجی ملاقات میں، میں بھی شریک ہوں۔ اس ملاقات میں ضیاء اور چند اعلیٰ سرکاری افسروں کے علاوہ تین افراد اور تھے، اے کے بروہی، حاجی مولا بخش سومرو اور میں۔ شاہ نے جنہوں نے اپنے آپ کو ''آریہ مہر'' کا خطاب دے دیا تھا اور آریائی نسل کی برتری کے تصور میں مبتلا تھے، مجھ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ''کیا آپ ایک بلوچ سردار نہیں ہیں؟'' میں نے کہا ''ہاں''۔ وہ مسکرائے اور بولے ''پھر تو آپ آرئین ہوئے، بالکل ہماری طرح''۔ اس کے بعد انھوں نے بروہی کی طرف دیکھا اور کہنے لگے ''آپ کے نام سے میں سمجھا ہوں کہ آپ براہوی ہیں''۔
بروہی نے جواب دیا ''جی ہاں، میں براہوی ہوں'' ۔ اس پر شاہ نے تحقیر کے سے انداز میں کہا، ''تو گویا آپ ڈراویڈین ہیں''۔ ایک لمحے کے لیے خاموشی ہو گئی۔ پھر فوراً ہی بروہی نے پلٹ کر جواب دیا ''یور امپریل میجسٹی، میں تاریخ داں نہیں ہوں اور نہ نسل انسانی کا ماہر، لیکن اتنا جانتا ہوں کہ یہ میرا ملک ہے اور میں یہاں رہتا ہوں''۔ معلوم ہوتا تھا کہ موقع شناسی اور احترام جذبات ایسے وصف ہیں جن کی رضا پہلوی کے ہاں کوئی خاص قدر نہیں۔بعد میں بلوچستان میں سرکشی کو دبانے میں ایران کے کردار کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے رضا پہلوی نے مجھ سے کہا ''بلوچوں کا عام خیال شاید یہ ہے کہ میں ان کے حقوق کو دبانے میں بھٹو کی مدد کر رہا تھا۔ ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ ہم تو صرف ایک صوبے میں جس کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں امن و امان قائم رکھنے میں آپ کی حکومت کی مدد کر رہے تھے۔ پاکستان کا استحکام ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، ہمارا بھٹو سے کوئی لینا دینا نہیں تھا''۔شاہ کے جانے کے بعد ہی ضیاء نے پھر مجھے بلا بھیجا۔
اس ملاقات میں صرف ہم دونوں تھے کوئی تیسرا نہیں تھا۔ میں نے ضیاء کو بتایا کہ خیر بخش مری نے بلوچستان کے گورنر کے لیے نام تجویز کر دیا ہے۔ عطاء اللہ مینگل نے کچھ ہی دن پہلے مجھے بتایا تھا کہ خیر بخش مری نے جنرل رحیم الدین کا نام لیا ہے۔ 1950کے اوائل میں رحیم الدین ایک جونیئر افسر کی حیثیت سے کوئٹہ میں تعینات ہوئے تھے۔ یہاں ان کی ملاقات خیر بخش مری سے ہوئی۔ دونوں اسپورٹس کے شوقین تھے اور جلد ہی کوئٹہ کلب میں ٹینس اور اسکواش ساتھ کھیلنے لگے۔ خیر بخش مری کا کہنا تھا کہ رحیم الدین ہی ان کی نظر میں ایسے آدمی ہیں جن پر یہ بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ بلوچستان میں انصاف سے کام کریں گے۔ ضیاء نے مجھ سے کہا کہ انھیں رحیم الدین کو بلوچستان کا گورنر بنانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ وہ اس معاملے میں اپنے جرنیلوں سے مشورہ کریں گے اور انھیں یقین ہے کہ وہ بھی اس تجویز کو قبول کر لیں گے۔ اس طرح ایک ایسی پارٹنر شپ کی بنیاد پر جس کی ابتدا کوئٹہ کلب کے ٹینس کورٹ میں چوتھائی صدی سے پہلے پڑی تھی، بلوچستان کی گورنری کا فیصلہ ہو گیا۔