مسلم لیگ ن حکومت کے 4 سال
چار سال سے ملک میں وزیر خارجہ نہ ہونے کی ہر پارٹی تنقید کرچکی ہے مگر وزیر اعظم یہ اہم محکمہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں
6 جون 2013 کو برسر اقتدار آنے والی مسلم لیگ ن کی تیسری حکومت نے پہلی بار وزیر اعظم نواز شریف کے اقتدار کے چار سال مکمل کرا دیے اور وہ ملک میں اپنی تین حکومتوں میں نو سال تک وزیر اعظم رہنے کا اعزاز بھی حاصل کرچکے ہیں جب کہ یہ اعزاز اس سے قبل پاکستان کے کسی وزیر اعظم کو 9 سال حکومت کرنے کا موقعہ نہیں ملا ۔
مجموعی طور پر تیسرا دور بھی آسانی سے نہیں گزارا اور عوام کو چار سالوں میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا، بلکہ جو حاصل تھا وہ بھی ختم کردیا گیا اور وزارت خزانہ نے مسلم لیگ ن کے تیسرے دور میں بیرونی قرضے سب سے زیادہ لینے اور قوم کو سب سے زیادہ مقروض کرا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ایسا ماضی کی کوئی حکومت نہیں کرسکی تھی جو چار سالوں میں کرکے دکھادیا اور پانچواں بجٹ پیش کرتے وقت بھی عوام کے مجموعی مفاد کو نظر اندازکیا۔
چار سال قبل تیسری بار اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت سے قوم کو بے حد توقعات تھیں کہ وہ پہلی بار قید کی سختیاں اور جلاوطنی برداشت کرنے کے بعد عوام کے لیے حقیقی مخلصی اور عوامیحکومت ثابتہو گی اور عوام کو مایوس نہیں کرے گی مگر چار سالوں میں عوام کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔
ملک میں دہشت گردی میں کمی، کراچی میں امن و امان کی بحالی، موٹر ویز میں توسیع، سڑکوں کی تعمیر، بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے آغاز اور سی پیک جیسے میگا پروجیکٹ کے سنگ بنیاد رکھنے کے اعزاز کا کریڈٹ رکھنے والی لیگی حکومت اپنے گزشتہ دو ادوار میں بھی ملک میں موٹر ویز بنانے، وسیع سڑکوں کی تعمیر میں مصروف تھی جو آمد و رفت کی ضرورت کے لیے ضروری تھی، دہشت گردی ضرور نواز شریف کو چودہ سال بعد اقتدار میں آنے کے بعد جنرل پرویز مشرف اور زرداری دور کی طرف سے ورثے میں ملی تھی جس سے ملک کو شدید ترین جانی و مالی نقصان ہوا جسے زرداری دور کے آخر میں ختم کرنے پر توجہ دی گئی اورسکیو رٹی اداروں کو اندرون ملک ہی ملک دشمنوں سے جنگ کرنا پڑی جس کا جانی نقصان سکیو رٹی اداروں اور عوام کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
مہنگائی کے بم عوام پر برستے رہے جس سے حکمران تو بالکل نہیں بلکہ ملک کے عوام بری طرح متاثر ہوئے اور ان پر چار سالوں میں مہنگائی کا بوجھ بڑھایا جاتا رہا اور ہر بجٹ میں الفاظ کے ہیر پھیر اور جعلی اعداد وشمار سے معیشت میں بہتری ظاہر کی جاتی رہی۔ وزیر اعظم نے حسب سابق اپنی کچن کیبنٹ بنائی ۔ وفاقی وزیر خوراک کا حالیہ بیان ہے جس میں انھوں نے شکایت کی ہے کہ پانچویں بجٹ میں یکطرفہ پیکیج دیا گیا ان سے مشاورت کی گئی اور نہ وزارت خوراک سے تجاویز لی گئیں۔ اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے محکمے سے متعلق پیکیج میں بھی ان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
بعض وزیروں کی ایک دوسرے سے بات چیت نہیں ہوتی ہے اور وزیروں کو اہمیت نہیں دی جاتی اور ان کے محکمہ جاتی معاملات میں مداخلت کرکے من مانی کی جاتی ہے جس پر دو وزیروں ریاض احمد پیرزادہ اور غلام مرتضیٰ جتوئی بطور احتجاج استعفیٰ دے کر ثبوت دے چکے ہیں اور تیسری اہم شکایت تیسرے وزیر سکندر حیات بوسن کی منظر عام پر آئی ہے جو وزارت خزانہ سے متعلق ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کو تو کیا وفاقی کابینہ تک کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ جب کہ ارکان قومی اسمبلی (ن) لیگ میں ہوتے ہوئے اپنے قائد ایوان سے ایوان کے باہر ملاقات کے وقت کے لیے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ سینیٹ میں ایک سال تک نہ آنے کا ریکارڈ بھی وزیر اعظم کا ہے ۔
چار سال سے ملک میں وزیر خارجہ نہ ہونے کی ہر پارٹی تنقید کرچکی ہے مگر وزیر اعظم یہ اہم محکمہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم اپنے ستر سے زائد غیر ملکی دورے 4 سال میں ضرور کرچکے ہیں۔ اہم محکموں میں سیکریٹریوں اور سرکاری اداروں کے سربراہوں کے تقرر پر مہینوں توجہ نہیں دی جاتی اور ملک کو جمہوریت کے نام پر جس طرح چار سال چلایا گیا اس پر تو سپریم کورٹ بھی متعدد بار ریمارکس دے چکی ہے۔
چار سال میں وزیر اعظم نے جتنے غیر ملکی دورے کیے اتنے دورے تو وزیر اعظم نے چاروں صوبوں کے نہیں کیے جس طرح سابق وزیر اعظم شوکت عزیز عوام سے دور رہتے تھے اسی طرح موجودہ حکمران عوام سے دور رہے ۔ کے پی کے میں مولانا فضل الرحمن کی دعوت پر چند جلسے ضرور کیے اور سندھ میں دو بڑے جلسوں میں ضرور شریک ہوئے۔ چار سال میں حکمران کوئی سیاسی عوامی جلسہ نہ کرسکے اور ملک کے بڑے شہر کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں جس پر اب پیپلز پارٹی کو کراچی کا خیال آگیا مگر وفاقی حکومت کو خیال نہیں جو منی پاکستان مشہور ہے۔
سیاسی مخالف عمران خان کے بعد فرینڈلی اپوزیشن پیپلز پارٹی کے سربراہ بھی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں اور کرپشن، نااہلی تمام سنگین الزامات حکومت پر دونوں طرف سے مسلسل لگ رہے ہیں۔
جو صورتحال موجودہ حکومت کو کبھی ماضی میں پیش نہیں آئی تھی اب درپیش ہے اور پانامہ اس کے لیے مزید مسائل بڑھا سکتا ہے۔ سرکاری دعوے ہوتے رہے مگر چار سال بعد لوڈ شیڈنگ بڑھ جانا اور ملک بھر میں عوام کے احتجاج میں پی ٹی آئی اور پی پی کی سیاست خود حکومت نے چار سالوں میں بڑھائی ہے جو مزید مسئلہ بنے گی۔
چار سال میں عوام کو مہنگائی، بیروزگاری کے بے شمار تحفے حکومت نے دیے۔ عالمی سطح پر پٹرول سستا ہونے کا فائدہ بھی عوام کو جان بوجھ کر نہیں دیا گیا لولی پوپ دیے جاتے اور سنہری خواب دکھائے جاتے رہے اورحکمران اپنے حکومتی اقدامات کی تعریف کرتے کرتے اب عوام سے اتنے دور ہوچکے ہیں کہ عوام بھی کہہ رہے ہیں کہ چار سال میں حکمران عوام کو کچھ ڈلیور نہیں کر سکے جس سے ان کی ساکھ متاثر ہو ئی ہے۔
مجموعی طور پر تیسرا دور بھی آسانی سے نہیں گزارا اور عوام کو چار سالوں میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا، بلکہ جو حاصل تھا وہ بھی ختم کردیا گیا اور وزارت خزانہ نے مسلم لیگ ن کے تیسرے دور میں بیرونی قرضے سب سے زیادہ لینے اور قوم کو سب سے زیادہ مقروض کرا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ایسا ماضی کی کوئی حکومت نہیں کرسکی تھی جو چار سالوں میں کرکے دکھادیا اور پانچواں بجٹ پیش کرتے وقت بھی عوام کے مجموعی مفاد کو نظر اندازکیا۔
چار سال قبل تیسری بار اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت سے قوم کو بے حد توقعات تھیں کہ وہ پہلی بار قید کی سختیاں اور جلاوطنی برداشت کرنے کے بعد عوام کے لیے حقیقی مخلصی اور عوامیحکومت ثابتہو گی اور عوام کو مایوس نہیں کرے گی مگر چار سالوں میں عوام کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا۔
ملک میں دہشت گردی میں کمی، کراچی میں امن و امان کی بحالی، موٹر ویز میں توسیع، سڑکوں کی تعمیر، بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے آغاز اور سی پیک جیسے میگا پروجیکٹ کے سنگ بنیاد رکھنے کے اعزاز کا کریڈٹ رکھنے والی لیگی حکومت اپنے گزشتہ دو ادوار میں بھی ملک میں موٹر ویز بنانے، وسیع سڑکوں کی تعمیر میں مصروف تھی جو آمد و رفت کی ضرورت کے لیے ضروری تھی، دہشت گردی ضرور نواز شریف کو چودہ سال بعد اقتدار میں آنے کے بعد جنرل پرویز مشرف اور زرداری دور کی طرف سے ورثے میں ملی تھی جس سے ملک کو شدید ترین جانی و مالی نقصان ہوا جسے زرداری دور کے آخر میں ختم کرنے پر توجہ دی گئی اورسکیو رٹی اداروں کو اندرون ملک ہی ملک دشمنوں سے جنگ کرنا پڑی جس کا جانی نقصان سکیو رٹی اداروں اور عوام کو مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
مہنگائی کے بم عوام پر برستے رہے جس سے حکمران تو بالکل نہیں بلکہ ملک کے عوام بری طرح متاثر ہوئے اور ان پر چار سالوں میں مہنگائی کا بوجھ بڑھایا جاتا رہا اور ہر بجٹ میں الفاظ کے ہیر پھیر اور جعلی اعداد وشمار سے معیشت میں بہتری ظاہر کی جاتی رہی۔ وزیر اعظم نے حسب سابق اپنی کچن کیبنٹ بنائی ۔ وفاقی وزیر خوراک کا حالیہ بیان ہے جس میں انھوں نے شکایت کی ہے کہ پانچویں بجٹ میں یکطرفہ پیکیج دیا گیا ان سے مشاورت کی گئی اور نہ وزارت خوراک سے تجاویز لی گئیں۔ اس بیان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے محکمے سے متعلق پیکیج میں بھی ان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
بعض وزیروں کی ایک دوسرے سے بات چیت نہیں ہوتی ہے اور وزیروں کو اہمیت نہیں دی جاتی اور ان کے محکمہ جاتی معاملات میں مداخلت کرکے من مانی کی جاتی ہے جس پر دو وزیروں ریاض احمد پیرزادہ اور غلام مرتضیٰ جتوئی بطور احتجاج استعفیٰ دے کر ثبوت دے چکے ہیں اور تیسری اہم شکایت تیسرے وزیر سکندر حیات بوسن کی منظر عام پر آئی ہے جو وزارت خزانہ سے متعلق ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کو تو کیا وفاقی کابینہ تک کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ جب کہ ارکان قومی اسمبلی (ن) لیگ میں ہوتے ہوئے اپنے قائد ایوان سے ایوان کے باہر ملاقات کے وقت کے لیے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ سینیٹ میں ایک سال تک نہ آنے کا ریکارڈ بھی وزیر اعظم کا ہے ۔
چار سال سے ملک میں وزیر خارجہ نہ ہونے کی ہر پارٹی تنقید کرچکی ہے مگر وزیر اعظم یہ اہم محکمہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم اپنے ستر سے زائد غیر ملکی دورے 4 سال میں ضرور کرچکے ہیں۔ اہم محکموں میں سیکریٹریوں اور سرکاری اداروں کے سربراہوں کے تقرر پر مہینوں توجہ نہیں دی جاتی اور ملک کو جمہوریت کے نام پر جس طرح چار سال چلایا گیا اس پر تو سپریم کورٹ بھی متعدد بار ریمارکس دے چکی ہے۔
چار سال میں وزیر اعظم نے جتنے غیر ملکی دورے کیے اتنے دورے تو وزیر اعظم نے چاروں صوبوں کے نہیں کیے جس طرح سابق وزیر اعظم شوکت عزیز عوام سے دور رہتے تھے اسی طرح موجودہ حکمران عوام سے دور رہے ۔ کے پی کے میں مولانا فضل الرحمن کی دعوت پر چند جلسے ضرور کیے اور سندھ میں دو بڑے جلسوں میں ضرور شریک ہوئے۔ چار سال میں حکمران کوئی سیاسی عوامی جلسہ نہ کرسکے اور ملک کے بڑے شہر کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں جس پر اب پیپلز پارٹی کو کراچی کا خیال آگیا مگر وفاقی حکومت کو خیال نہیں جو منی پاکستان مشہور ہے۔
سیاسی مخالف عمران خان کے بعد فرینڈلی اپوزیشن پیپلز پارٹی کے سربراہ بھی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں اور کرپشن، نااہلی تمام سنگین الزامات حکومت پر دونوں طرف سے مسلسل لگ رہے ہیں۔
جو صورتحال موجودہ حکومت کو کبھی ماضی میں پیش نہیں آئی تھی اب درپیش ہے اور پانامہ اس کے لیے مزید مسائل بڑھا سکتا ہے۔ سرکاری دعوے ہوتے رہے مگر چار سال بعد لوڈ شیڈنگ بڑھ جانا اور ملک بھر میں عوام کے احتجاج میں پی ٹی آئی اور پی پی کی سیاست خود حکومت نے چار سالوں میں بڑھائی ہے جو مزید مسئلہ بنے گی۔
چار سال میں عوام کو مہنگائی، بیروزگاری کے بے شمار تحفے حکومت نے دیے۔ عالمی سطح پر پٹرول سستا ہونے کا فائدہ بھی عوام کو جان بوجھ کر نہیں دیا گیا لولی پوپ دیے جاتے اور سنہری خواب دکھائے جاتے رہے اورحکمران اپنے حکومتی اقدامات کی تعریف کرتے کرتے اب عوام سے اتنے دور ہوچکے ہیں کہ عوام بھی کہہ رہے ہیں کہ چار سال میں حکمران عوام کو کچھ ڈلیور نہیں کر سکے جس سے ان کی ساکھ متاثر ہو ئی ہے۔