ماہ رمضان… نزول قرآن کا مہینہ

روزے کامقصد انسانی زندگی میں احساس بندگی کی بیداری، پابندی، احکام خداوندی کیلیے جذبہ فداکاری کی تیزرفتاری پیدا کرنا ہے


[email protected]

LOS ANGELES: روزے کے لیے اصل عربی لفظ صوم ہے۔ روزہ فارسی لفظ ہے، لیکن صوم کے ہم معنی اور مترادف ہے۔ صوم کے معنی رکنے کے ہیں، خواہ وہ شراب و طعام ہو، کلام ہو یا اور کوئی کام ہو، لیکن شرعی اصطلاح میں خالص اللہ کی رضا کی خاطر، کھانے، پینے، جنسی پیاس بجھانے اور دیگر شرعی ممنوعات سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک، رکنے کو صوم کہتے ہیں۔

روزہ 2 ہجری میں فرض ہوا۔ فرمان الٰہی ہے۔

''اے ایمان والو! روزہ تم پر فرض کیا گیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔''

''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو انسانوں کے لیے سراسر رحمت ہے اور واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل میں فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض یا سفر پر ہو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔

انسان ایک ایسے وجود کا حامل ہے، جو دو عناصر پر مشتمل ہے۔ ایک اس کا وجود حیوانی، دوسرے اس کا وجود روحانی۔ روزہ اصل میں جز ثانی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرکے اس کی تقویت و توانائی کے سامان فراوانی کا ذریعہ رسانی ہے۔

قفس عنصری میں روح انسانی، روح ربانی سے دور ہونے کے باوجود خدا کے نور سے جدا نہیں ہے۔ فنفخت فیہ من روحی اس دعویٰ کی دلیل قرآنی ہے، جس طرح سورج کی ایک کرن سورج سے دور، بہت دور ہوجانے کے باوجود، سورج سے متصل رہتی ہے۔ الگ نہیں ہوتی۔ رمضان میں صیام و قیام کا اہتمام، تلاوت و سماعت قرآن کا انصرام کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ''نور تجلی جو خاک میں پنہاں ہے۔'' فربہ اور توانا بن کر ''اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن'' کے مصداق قابل بن جائے۔

روزے کا حاصل تقویٰ ہے جس کے معنی بچنا ہے۔ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں، تقویٰ کے اصل معنی ہیں ''نفس کو خوف کی چیز سے بچانا'' اصطلاح شرع میں تقویٰ کہتے ہیں۔ ''گناہ کی بات سے نفس کی حفاظت کرنا۔ اس کے حاصل کرنے کے لیے ممنوعات شرعیہ کو چھوڑنا ضروری ہے اور اس کی تکمیل کے لیے احتیاطاً بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے۔'' دوران رمضان خصوصاً اور باقی ایام میں عموماً معصیت کی حد کی آخری انتہائی کناروں پر مہم جوئی آج نہیں تو کل خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ آدمی کی خیر و بھلائی، بہتری و اچھائی اسی میں ہے کہ علاقہ ممنوعہ سے دور بہت دور رہے تاکہ عمداً نہ سہی سہواً قدم سرحد پار نہ کرجائے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا:

''ہر بادشاہ کی ایک حمیٰ (چراگاہ) ہوتی ہے اور اللہ کی حمیٰ اس کی وہ حدود ہیں، جن سے اس نے حرام و حلال، اطاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے۔ جو جانور حمیٰ کے گرد ہی چرتا رہے گا، ہوسکتا ہے وہ حمیٰ کے اندر داخل ہوجائے۔''

تقویٰ، معصیت سے دور رہنا ہے کیونکہ سرحد ممنوعہ کے انتہائی کنارے پہنچ کر جمالیاتی فریب نفس کے زیر اثر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہما شما کے بس کا کام نہیں ہے۔ بقول شاعر:

سن کے ذکرِ حور نماز پر ہوئے مائل

جلوہ بُتوں کا دیکھ کر نیت بدل گئی

روزے کا مقصد انسانی زندگی میں احساس بندگی کی بیداری، پابندی، احکام خداوندی کے لیے جذبہ فداکاری کی تیز رفتاری پیدا کرتا ہے۔ سال میں ایک ماہ تقریباً 720 گھنٹے پیہم، اطاعت و عبادت، ضبط نفس کی تربیت پیہم کے ذریعے اس کی عادت ڈالنا ہے کہ غیر اللہ اور اس کے قانون کی اطاعت سے نفرت اس کی خصلت، اور عداوت اس کی فطرت بن جائے۔ اللہ اور حکم اللہ سے رغبت، محبت اور دعوت اس کی سیرت بن جائے۔ روزہ دل کی غذا ہے۔ نفس شہوانی کو جلا دیتا ہے، خاکستر کردیتا ہے۔ روح انسان کو جلا دیتا ہے۔ غرض یہ کہ روزہ داری، پرہیز گاری کے ایک ایسے خاکہ زندگی کی تیاری ہے جس میں رنگ و نور اخلاص کی لہریں جاری و ساری رہیں۔

٭ تقویٰ کی تربیت کے ساتھ ساتھ، رمضان، آخری کتاب آسمانی، مکمل نعمت ہدایت ربانی، جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے، اس کی شکر گزاری کا مہینہ بھی ہے۔

روزہ رکھ کر بھی روح، جلوہ ربانی کے لیے ترستی، روتی اور تڑپتی رہے اور بہمیت ہنستی، کھیلتی، اچھلتی کودتی اور دندناتی پھرتی رہے۔ گویا جیسے تھے ویسے ہی رہے، روزے سے روز جیسے ہی رہے۔ تقویٰ لاحاصل رہے۔ تو ایسے بے روح روزے سے ایسے ہی ہیں جیسے کوئی پھول ہو، مگر خوشبو نہ ہو،کوئی جسم ہو، مگر روح نہ ہو۔ کوئی چراغ ہو مگر روشنی نہ ہو۔

٭ روح لطیف، نگاہ عفیف، روزہ حصول مقاصد کا وسیلہ نہ بنے تو ایسے ویسے روزے اللہ کو مقصود و مطلوب و منظور نہیں۔

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول قرآن

گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

نبی اکرم ؐ نے ارشاد فرمایا ہے ''اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ اور غلط کاریوں سے نہیں بچتا تو اس کا کھانا پینا چھڑانے سے اللہ کو کوئی دلچسپی نہیں۔'' (بخاری)

آپؐ نے فرمایا ''کتنے ہی ایسے روزہ دار ہوتے ہیں کہ جن کو اپنے روزوں سے بھوک اور پیاس کی اذیت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔''

روزوں کے ثواب کے متعلق آپؐ نے فرمایا:

آدمی کے ہر عمل کا ثواب (خدا تعالیٰ کے یہاں) دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہوجاتا ہے (لیکن روزے کی تو بات ہی کچھ اور ہے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، مگر روزہ تو خاص میرے لیے ہے۔ اس لیے اس کا ثواب میں اپنی مرضی سے (جتنا چاہوں گا) دوں۔ یا میں خود ہی اس کی جزا ہوں۔''(مسلم)

جس نے روزے رکھے رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ بخش دیے گئے، اس کے تمام سابقہ گناہ اور جس نے (راتوں کو) قیام کیا رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ بخش دیے گئے، اس کے جملہ سابق گناہ۔'' (بخاری، مسلم)

روزہ اور قرآن بندۂ مومن کے حق میں سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا، اے رب! میں نے اسے روکے رکھا دن میں کھانے اور خواہشات سے، پس اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا، میں نے روکے رکھا اسے رات کو نیند سے پس اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما۔ تو دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔ (بیہقی)

جو شخص (رمضان میں) کسی روزے دار کو افطار کرائے گا، وہ اس کے گناہوں کے لیے معافی ہے اور خود کو نار جہنم سے بچا لے گا اور اسے روزے دار جتنا ہی ثواب ملے گا جب کہ اس روزے دار کے اپنے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ (ابن ماجہ، ترمذی)

یہ ماہ مقدس ہے اسے جاگ کر برتو

اٹھ جاؤ کہ پھر ایسا مہینہ نہیں آتا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں