ایران میں اصلاح پسندوں کی جیت
حسن روحانی نئے چیلینجز کے ساتھ پھر منصب صدارت پر فائز۔
جمعہ 20 مئی کو جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب میں قدم رکھا تو اُسی روز ایران میں صدر حسن رُوحانی کے مسلسل دوسری بار صدارتی انتخاب جیتنے کا اعلان ہوا۔
امریکا، سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کے تناظر میں ٹرمپ کی ریاض آمد کے موقع پر ایرانی صدر کا دوبارہ الیکشن جیتنا ایک اتفاق ہی سہی لیکن عالمی سطح پر یہ دونوں خبریں ایک ساتھ ''بریکنگ نیوز'' بن گئی تھیں۔
68 سالہ حسن روحانی نے اپنے 56 سالہ حریف ابراہیم رئیسی کو شکست دی جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے انتہائی قریب اور قابل اعتماد ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے اعدادوشمار کے مطابق حسن روحانی نے 4کروڑ ووٹوں میں سے 2کروڑ 28 لاکھ ووٹ لیے یعنی انھیں 58 فی صد سے زاید رائے دہندگان کی حمایت حاصل رہی جب کہ ابراہیم رئیسی 15.5 ملین ووٹ حاصل کرسکے۔
ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس بار صدارتی انتخاب میں ٹرن آؤٹ غیرمتوقع طور پر بہت زیادہ رہا اور 4 کروڑ سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ پولنگ کے وقت میں ووٹروں کی درخواست پر 3 بار اضافہ کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں۔ گو کہ ابراہیم رئیسی نے الیکشن کے حوالے سے کچھ بے ضابطگیوں کی شکایات ضرور کیں لیکن حسن روحانی کی بھاری اکثریت سے کام یابی کی وجہ سے سب پس منظر میں چلا گیا۔
مذہبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ حسن روحانی ماہر تعلیم ، وکیل اور سابق سفارت کار بھی ہیں ، انھیں عالمی حالات و واقعات کا بھرپور ادراک ہے۔ صدر حسن روحانی اعتدال پسند عالم ہیں، جنھوں نے 2015 میں عالمی راہ نماؤں سے جوہری معاہدے پر بات چیت کی تھی اور وہ ایران کو عالمی سطح پر لانے میں کافی حد تک کام یاب رہے تھے۔ انھوں نے ایران اور عالمی برادری کے کشیدہ تعلقات کی آگ کی حدت کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور وہ کافی حد تک اس میں کام یاب بھی رہے۔ انھوں نے دینی تعلیم مدرسہ قم سے حاصل کی جب کہ دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے ان کے اہم تعلیمی ادارے تہران یونیورسٹی اور گلاسگو یونیورسٹی رہی۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ مضمون نگار بھی ہیں۔
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے ایران پر منڈلاتی جنگ کے بادلوں کو بہت دور دھکیلا اور عالمی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کے حل طلب امور کیلیے بات چیت کی جس کے نتیجے میں عالمی برادری بھی ایران کے حوالے سے اپنے رویوں میں کچھ نرمی اور لچک لانے پر مجبور ہوئی۔
حسن روحانی کے حامیوں نے سرکاری سطح پر انتخابی نتیجے کا اعلان ہوتے ہی بھرپور انداز میں جشن منایا۔ لوگ بڑی تعداد میں خیر مقدمی نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے محبوب قائد کی تصاویر اٹھا کرانھیں کام یابی کی مبارک باد دی۔ روحانی کے حامی بھی پُرجوش انداز میں ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے رہے کیوںکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حسن روحانی ایران کو عالمی سطح پر منوانے اور ایرانی قوم کو ممکنہ عالمی تنہائی سے نکالنے کے لیے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
حسن روحانی مذہبی لحاظ سے حجتہ الاسلام کا عہدہ رکھتے ہیں، اس کے علاوہ اُن کی زندگی کا بڑا حصہ سیاسی محاذ پر کام کرتے گزرا ہے ، وہ ایران میں درجنوں اہم معاملات پر فیصلہ سازی کے مراحل میں شامل رہے ہیں، مختلف ذمے داریوں اور عہدوں پر کام کرتے ہوئے انھوں نے اپنی معاملہ فہمی، سیاسی سوجھ بوجھ، دوراندیشی اور تدبر سے بہت سے معاملات کو خراب ہونے سے بچایا ہے۔ وہ آیت اللہ خمینی کے بڑے پرستار ہیں۔ 1960 اور 1970 کے عرصے کے دوران وہ کئی بار پابند سلاسل بھی ہوئے۔
ایک نظر حسن روحانی کی زندگی کے سفر پر ڈالتے ہیں:
12 نومبر 1948 کو جنم لینے والے حسن روحانی کے والدین نے اُس وقت شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ اُن کا بیٹا ایرانی صدر بنے گا۔ حسن روحانی نے 1960 میں صوبے سمنان کے مدرسے سے دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ 1977 میں جب سیاسی حالات کافی کشیدہ ہوگئے تو وہ گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر ایران چھوڑ کر آیت اللہ خمینی کے پاس فرانس چلے گئے۔ انقلاب ایران کے تاریخی واقعات اور شاہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹنے کے تمام مراحل میں وہ آیت اللہ خمینی کے ساتھ ساتھ رہے اور 1980 سے 2000 تک کے عرصے میں وہ 5 بار ایرانی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ حسن روحانی اپنے تجربے، قابلیت کی وجہ سے مختلف ادوار میں اہم عہدوں پر ذمے داریاں انجام دیتے رہے۔
انھوں نے سپریم ڈیفینس کونسل کے رکن، ایرانی ایئر ڈیفینس کے کمانڈر، ایرانی مسلح افواج کے ڈپٹی کمانڈر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس کے علاوہ وہ 1989 تا 1997 صدر کے قومی سلامتی کے مشیر بھی رہے۔1989 سے 2005 تک کے عرصے میں انھوں نے سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل کے سیکریٹری کا عہدہ بھی سنبھالا۔1989 سے تاحال وہ سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی نمائندگی کرتے آرہے ہیں۔ وہ سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے والی ماہرین کی کونسل کے بھی رکن ہیں، 2003 سے 2005 تک انھوں نے ایرانی جوہری معاملے پر عالمی قوتوں سے مذاکرات کے دوران ایران کے مرکزی مذاکرات کار کا کردار بخوبی نبھایا۔
جون 2014 میں وہ پہلی بار 50 فی صد سے زاید ووٹ لے کر ایران کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس اس بار یعنی 2017 میں اُن کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔2013 میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے چند دن بعد ستمبر میں حسن روحانی نے امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز میں ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے امریکا اور دیگر عالمی قوتوں کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے اور جوہری تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ 27 ستمبر 2013 کو عالمی سطح پر ایک اہم پیشرفت ہوئی جب ایرانی صدر روحانی اور امریکی صدر اوباما کے درمیان ٹیلیفون پر گفتگو ہوئی، یہ 1979 کے بعد سے دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان پہلا براہ راست رابطہ تھا جسے عالمی سطح پر کافی کوریج ملی۔
2015 میں جب ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان جوہری معاہدہ ہوگیا تو ایرانی عوام نے اسے بہت سراہا تھا کیوںکہ ایرانی عوام کی اکثریت کی خواہش تھی اور ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ ساتھ چلیں اور عالمی تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ حسن روحانی کے دوسری بار صدارتی الیکشن جیتنے کی ایک بڑی وجہ جوہری تنازع کو خوش اسلوبی سے طے کرانا بھی ہے جس کی وجہ سے ایرانی معیشت کو کافی فائدہ پہنچا۔
روحانی کی زندگی کا مختصر جائزہ اس بات کو عیاں کررہا ہے کہ حسن روحانی نے اپنے سیاسی سفر میں مشکلات بھی جھیلیں، شدید مخالفتوں کا سامنا بھی کیا، قیدو بند کی صعوبتیں بھی اٹھائیں اور ایران کے اندر سے بھی بہت سی تنقید برداشت کی۔ دوبارہ صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد بھی حسن روحانی کا سفر ختم نہیں ہوا، ابھی انھیں بہت سے مراحل طے کرنے ہیں کیوںکہ ابھی ایران کو عالمی سطح پر خود کو منوانے اور مخالفتوں کو ختم کرنے کے لیے بہت کام کرنا ہوگا۔ حسن روحانی کو اس وقت جو اہم چیلینج درپیش ہیں وہ آسان نہیں، آئیے ایک نظر ایرانی صدر کے سامنے آنے والے چیلینجوں پر ڈالتے ہیں۔
سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے تعلقات کو صدر حسن روحانی کے لیے سب سے بڑا چیلنج کہا جاسکتا ہے۔ روحانی نے انتخابی مہم کے دوران کئی بار سپریم لیڈر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حسن روحانی ایک مذہبی حیثیت بھی رکھتے ہیں اور وہ برسوں سے سپریم لیڈر کے ساتھ رہے ہیں لیکن اب ان کی خواہش ہے کہ ایران کے سخت گیر مذہبی حلقے اُن سے تعاون کریں ۔ اب آنے والا وقت بتائے گا کہ صدر اور سپریم لیڈر کے تعلقات کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔
سیاسی قیدیوں کی رہائی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر صدر روحانی کو بہت توجہ دینی ہوگی۔ ذرائع ابلاغ رپورٹوں کے مطابق ایران میں اس وقت سب سے زیادہ آواز سیاسی قیدیوں کے حوالے سے اٹھائی جارہی ہے۔ برطانوی اور امریکی میڈیا تو بہت شور مچارہا ہے کہ ایران میں سیاسی قیدیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے، اب تعداد کتنی بھی ہو حسن روحانی کو اس معاملے پر دھیان دینا ہوگا۔ قابل ذکر گرفتار شدگان میں حزب اختلاف کی گرین موومنٹ کے میر حسن موسوی، اُن کی اہلیہ زہرا راہ نورد اور مہدی کروبی گذشتہ 2 سال سے گھر میں نظر بند ہیں، ان کے علاوہ بہت سے صحافی، وکلا، بلاگرز، انسانی حقوق کی تنظیموںکے ارکان اور دیگر افراد بھی پابند سلاسل ہیں۔
ایرانی معیشت کو بہتری کی جانب لے جانا بھی روحانی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایران میں معاشی ترقی کی رفتار کسی حد تک ہلکی ضرور ہوئی ہے لیکن جوہری پروگرام کے حوالے سے معاہدے کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے مثبت اثرات ایرانی معیشت پر بھی مرتب ہونگے۔ منہگائی پر قابو پانے کے لیے اور بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ایرانی حکومت ایسے اقدامات کرے جن کے ذریعے ایران پر عائد پابندیوں کی زنجیر کھلتی چلی جائے، اگر ایسا ہوا تو پھر ایرانی عوام صحیح معنوں میں معاشی ترقی سے لطف اندوز ہوسکیں گے، اُن کی عالمی تنہائی بھی ختم ہوگی اور مغرب کی بے جا پابندیوں کے منفی اثرات کے نقصانات سے بھی وہ بچ جائیں گے۔
صدر حسن روحانی کی کام یابی اُن کے اور اُن کے حامیوں کے لیے یقینی طور پر ایک بڑی خبر ضرور ہے لیکن یہ اُس وقت واقعی بڑی خبر بن سکتی ہے جب ایرانی حکومت کے اقدامات عالمی سطح پر سراہے جائیں، پابندیاں ختم ہوں اور ایران کو اندرونی طور پر اور بیرونی محاذوں پر کشیدگی سے نجات ملے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار صدر روحانی ایرانی عوام کے لیے ایسا کیا کرتے ہیں کہ ان کی مقبولیت مزید بڑھ جائے اور ایرانی عوام کو وہ کچھ میسر آجائے جس کی وہ امید کرتے ہیں۔
امریکا، سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کے تناظر میں ٹرمپ کی ریاض آمد کے موقع پر ایرانی صدر کا دوبارہ الیکشن جیتنا ایک اتفاق ہی سہی لیکن عالمی سطح پر یہ دونوں خبریں ایک ساتھ ''بریکنگ نیوز'' بن گئی تھیں۔
68 سالہ حسن روحانی نے اپنے 56 سالہ حریف ابراہیم رئیسی کو شکست دی جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ وہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے انتہائی قریب اور قابل اعتماد ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے اعدادوشمار کے مطابق حسن روحانی نے 4کروڑ ووٹوں میں سے 2کروڑ 28 لاکھ ووٹ لیے یعنی انھیں 58 فی صد سے زاید رائے دہندگان کی حمایت حاصل رہی جب کہ ابراہیم رئیسی 15.5 ملین ووٹ حاصل کرسکے۔
ایرانی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس بار صدارتی انتخاب میں ٹرن آؤٹ غیرمتوقع طور پر بہت زیادہ رہا اور 4 کروڑ سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ پولنگ کے وقت میں ووٹروں کی درخواست پر 3 بار اضافہ کیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں۔ گو کہ ابراہیم رئیسی نے الیکشن کے حوالے سے کچھ بے ضابطگیوں کی شکایات ضرور کیں لیکن حسن روحانی کی بھاری اکثریت سے کام یابی کی وجہ سے سب پس منظر میں چلا گیا۔
مذہبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ حسن روحانی ماہر تعلیم ، وکیل اور سابق سفارت کار بھی ہیں ، انھیں عالمی حالات و واقعات کا بھرپور ادراک ہے۔ صدر حسن روحانی اعتدال پسند عالم ہیں، جنھوں نے 2015 میں عالمی راہ نماؤں سے جوہری معاہدے پر بات چیت کی تھی اور وہ ایران کو عالمی سطح پر لانے میں کافی حد تک کام یاب رہے تھے۔ انھوں نے ایران اور عالمی برادری کے کشیدہ تعلقات کی آگ کی حدت کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کیں اور وہ کافی حد تک اس میں کام یاب بھی رہے۔ انھوں نے دینی تعلیم مدرسہ قم سے حاصل کی جب کہ دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے ان کے اہم تعلیمی ادارے تہران یونیورسٹی اور گلاسگو یونیورسٹی رہی۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ مضمون نگار بھی ہیں۔
یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے ایران پر منڈلاتی جنگ کے بادلوں کو بہت دور دھکیلا اور عالمی قوتوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کے حل طلب امور کیلیے بات چیت کی جس کے نتیجے میں عالمی برادری بھی ایران کے حوالے سے اپنے رویوں میں کچھ نرمی اور لچک لانے پر مجبور ہوئی۔
حسن روحانی کے حامیوں نے سرکاری سطح پر انتخابی نتیجے کا اعلان ہوتے ہی بھرپور انداز میں جشن منایا۔ لوگ بڑی تعداد میں خیر مقدمی نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے محبوب قائد کی تصاویر اٹھا کرانھیں کام یابی کی مبارک باد دی۔ روحانی کے حامی بھی پُرجوش انداز میں ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے رہے کیوںکہ وہ سمجھتے ہیں کہ حسن روحانی ایران کو عالمی سطح پر منوانے اور ایرانی قوم کو ممکنہ عالمی تنہائی سے نکالنے کے لیے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
حسن روحانی مذہبی لحاظ سے حجتہ الاسلام کا عہدہ رکھتے ہیں، اس کے علاوہ اُن کی زندگی کا بڑا حصہ سیاسی محاذ پر کام کرتے گزرا ہے ، وہ ایران میں درجنوں اہم معاملات پر فیصلہ سازی کے مراحل میں شامل رہے ہیں، مختلف ذمے داریوں اور عہدوں پر کام کرتے ہوئے انھوں نے اپنی معاملہ فہمی، سیاسی سوجھ بوجھ، دوراندیشی اور تدبر سے بہت سے معاملات کو خراب ہونے سے بچایا ہے۔ وہ آیت اللہ خمینی کے بڑے پرستار ہیں۔ 1960 اور 1970 کے عرصے کے دوران وہ کئی بار پابند سلاسل بھی ہوئے۔
ایک نظر حسن روحانی کی زندگی کے سفر پر ڈالتے ہیں:
12 نومبر 1948 کو جنم لینے والے حسن روحانی کے والدین نے اُس وقت شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ اُن کا بیٹا ایرانی صدر بنے گا۔ حسن روحانی نے 1960 میں صوبے سمنان کے مدرسے سے دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ 1977 میں جب سیاسی حالات کافی کشیدہ ہوگئے تو وہ گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر ایران چھوڑ کر آیت اللہ خمینی کے پاس فرانس چلے گئے۔ انقلاب ایران کے تاریخی واقعات اور شاہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹنے کے تمام مراحل میں وہ آیت اللہ خمینی کے ساتھ ساتھ رہے اور 1980 سے 2000 تک کے عرصے میں وہ 5 بار ایرانی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ حسن روحانی اپنے تجربے، قابلیت کی وجہ سے مختلف ادوار میں اہم عہدوں پر ذمے داریاں انجام دیتے رہے۔
انھوں نے سپریم ڈیفینس کونسل کے رکن، ایرانی ایئر ڈیفینس کے کمانڈر، ایرانی مسلح افواج کے ڈپٹی کمانڈر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اس کے علاوہ وہ 1989 تا 1997 صدر کے قومی سلامتی کے مشیر بھی رہے۔1989 سے 2005 تک کے عرصے میں انھوں نے سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل کے سیکریٹری کا عہدہ بھی سنبھالا۔1989 سے تاحال وہ سپریم نیشنل سیکیوریٹی کونسل میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی نمائندگی کرتے آرہے ہیں۔ وہ سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے والی ماہرین کی کونسل کے بھی رکن ہیں، 2003 سے 2005 تک انھوں نے ایرانی جوہری معاملے پر عالمی قوتوں سے مذاکرات کے دوران ایران کے مرکزی مذاکرات کار کا کردار بخوبی نبھایا۔
جون 2014 میں وہ پہلی بار 50 فی صد سے زاید ووٹ لے کر ایران کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ اس اس بار یعنی 2017 میں اُن کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔2013 میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے چند دن بعد ستمبر میں حسن روحانی نے امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز میں ایک مضمون لکھا جس میں انھوں نے امریکا اور دیگر عالمی قوتوں کے ساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے اور جوہری تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ 27 ستمبر 2013 کو عالمی سطح پر ایک اہم پیشرفت ہوئی جب ایرانی صدر روحانی اور امریکی صدر اوباما کے درمیان ٹیلیفون پر گفتگو ہوئی، یہ 1979 کے بعد سے دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان پہلا براہ راست رابطہ تھا جسے عالمی سطح پر کافی کوریج ملی۔
2015 میں جب ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان جوہری معاہدہ ہوگیا تو ایرانی عوام نے اسے بہت سراہا تھا کیوںکہ ایرانی عوام کی اکثریت کی خواہش تھی اور ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ ساتھ چلیں اور عالمی تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ حسن روحانی کے دوسری بار صدارتی الیکشن جیتنے کی ایک بڑی وجہ جوہری تنازع کو خوش اسلوبی سے طے کرانا بھی ہے جس کی وجہ سے ایرانی معیشت کو کافی فائدہ پہنچا۔
روحانی کی زندگی کا مختصر جائزہ اس بات کو عیاں کررہا ہے کہ حسن روحانی نے اپنے سیاسی سفر میں مشکلات بھی جھیلیں، شدید مخالفتوں کا سامنا بھی کیا، قیدو بند کی صعوبتیں بھی اٹھائیں اور ایران کے اندر سے بھی بہت سی تنقید برداشت کی۔ دوبارہ صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد بھی حسن روحانی کا سفر ختم نہیں ہوا، ابھی انھیں بہت سے مراحل طے کرنے ہیں کیوںکہ ابھی ایران کو عالمی سطح پر خود کو منوانے اور مخالفتوں کو ختم کرنے کے لیے بہت کام کرنا ہوگا۔ حسن روحانی کو اس وقت جو اہم چیلینج درپیش ہیں وہ آسان نہیں، آئیے ایک نظر ایرانی صدر کے سامنے آنے والے چیلینجوں پر ڈالتے ہیں۔
سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے تعلقات کو صدر حسن روحانی کے لیے سب سے بڑا چیلنج کہا جاسکتا ہے۔ روحانی نے انتخابی مہم کے دوران کئی بار سپریم لیڈر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حسن روحانی ایک مذہبی حیثیت بھی رکھتے ہیں اور وہ برسوں سے سپریم لیڈر کے ساتھ رہے ہیں لیکن اب ان کی خواہش ہے کہ ایران کے سخت گیر مذہبی حلقے اُن سے تعاون کریں ۔ اب آنے والا وقت بتائے گا کہ صدر اور سپریم لیڈر کے تعلقات کس طرح آگے بڑھتے ہیں۔
سیاسی قیدیوں کی رہائی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر صدر روحانی کو بہت توجہ دینی ہوگی۔ ذرائع ابلاغ رپورٹوں کے مطابق ایران میں اس وقت سب سے زیادہ آواز سیاسی قیدیوں کے حوالے سے اٹھائی جارہی ہے۔ برطانوی اور امریکی میڈیا تو بہت شور مچارہا ہے کہ ایران میں سیاسی قیدیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے، اب تعداد کتنی بھی ہو حسن روحانی کو اس معاملے پر دھیان دینا ہوگا۔ قابل ذکر گرفتار شدگان میں حزب اختلاف کی گرین موومنٹ کے میر حسن موسوی، اُن کی اہلیہ زہرا راہ نورد اور مہدی کروبی گذشتہ 2 سال سے گھر میں نظر بند ہیں، ان کے علاوہ بہت سے صحافی، وکلا، بلاگرز، انسانی حقوق کی تنظیموںکے ارکان اور دیگر افراد بھی پابند سلاسل ہیں۔
ایرانی معیشت کو بہتری کی جانب لے جانا بھی روحانی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ عالمی پابندیوں کی وجہ سے ایران میں معاشی ترقی کی رفتار کسی حد تک ہلکی ضرور ہوئی ہے لیکن جوہری پروگرام کے حوالے سے معاہدے کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے مثبت اثرات ایرانی معیشت پر بھی مرتب ہونگے۔ منہگائی پر قابو پانے کے لیے اور بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ایرانی حکومت ایسے اقدامات کرے جن کے ذریعے ایران پر عائد پابندیوں کی زنجیر کھلتی چلی جائے، اگر ایسا ہوا تو پھر ایرانی عوام صحیح معنوں میں معاشی ترقی سے لطف اندوز ہوسکیں گے، اُن کی عالمی تنہائی بھی ختم ہوگی اور مغرب کی بے جا پابندیوں کے منفی اثرات کے نقصانات سے بھی وہ بچ جائیں گے۔
صدر حسن روحانی کی کام یابی اُن کے اور اُن کے حامیوں کے لیے یقینی طور پر ایک بڑی خبر ضرور ہے لیکن یہ اُس وقت واقعی بڑی خبر بن سکتی ہے جب ایرانی حکومت کے اقدامات عالمی سطح پر سراہے جائیں، پابندیاں ختم ہوں اور ایران کو اندرونی طور پر اور بیرونی محاذوں پر کشیدگی سے نجات ملے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار صدر روحانی ایرانی عوام کے لیے ایسا کیا کرتے ہیں کہ ان کی مقبولیت مزید بڑھ جائے اور ایرانی عوام کو وہ کچھ میسر آجائے جس کی وہ امید کرتے ہیں۔